نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Biswas Editorial Urdu by Dr. Syed Arif Murshed, بسواس کا اردو اداریہ 15 جنوری 2022

 

عزیزان من!

            اس شمارے کی مشمولات کی اگر بات کریں تو اس میں پہلا مضمون جو کہ نامکمل ہے "اختلاط و مزاج" مضمون نامکمل ہونے کے باوجود بھی بہت سارے اسرار و رموز کو واشگاف کرتاہے۔اس کے بعد"سرس" کے فوائد و استعمالات پر کافی طویل مضمون ہے۔  ایک مضمون ہے "امراض زہراوی" جو کہ کافی اہم مضمون ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہلدی کے مختلف فوائد کے بارے میں کچھ تصاویر کی شکل میں نسخے پیش کئے گئے ہیں۔ دو ویڈیو Virtual OPDکے ہیں کہ کیسے ڈاکٹر بسواروپ سے لوگ استفادہ کررہے ہیں۔  کم سے کم خرچ میں گھر بیٹھے جان لیوا بیماریوں کا علاج کیاجارہاہے۔ مریضوں کی اپنی زبانی سن سکتے ہیں۔  ایک کافی طویل مضمون "سملو "بوٹی پر ہے جس کو دارو ہلدی بھی کہاجاتاہے۔ یہ دنیا کی واحد ایسی بوٹی ہے جس سے کینسر جیسے جان لیوا مرض کا بھی خاتمہ ممکن ہے۔  یہ تو رہی اس شمارے کی مشمولات کے متعلق۔

 

عزیزان من!

            دیش اور دنیا میں کیا ہورہاہے یہ آپ لوگوں سے چھپا تو نہیں ہے۔  پھر بھی لوگ نا جانے کیوں اور کیسے ان شیطانی طاقتوں کے چنگل میں پھس رہے ہیں۔ اور ویسکن کی لائن میں لگ رہے ہیں۔ دواخانوں کی لائن میں لگ رہے ہیں اور اپنی قیمتی جانیں اور محنت سے حاصل کیا ہوا مال گنوارہے ہیں۔ اب دیش میں بچوں کو بھی ویکسن لگائی جارہی ہے۔ دیش کا میڈیا تو پہلے ہی بکا ہوا ہے جو صرف اور صرف اپنے شیطانی آقاوں کی پیروی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹرس بھی انہیں کی پیروی کررہے ہیں۔ ساری دنیامیں دونوں قسم کے لوگ ہیں جو اس جھوٹی مہاماری کوسچ مان رہے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے ماسک، ڈسٹنسنگ، ہاتھ دھونا، تھالی بجانا، تالی بجانا، سائنیٹائزر استعمال کرنا وغیرہ پر بہت گہرائی سے عمل بھی کررہے ہیں۔ کچھ تو دو دو تین تین ماسک لگا کر گھر سے نکل رہے ہیں۔ جب کہ سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ماسک لگانے سے انسان کرونا سے بچ تو نہیں سکتا بلکہ دوسری دیگر بیماریوں کا شکار ہوسکتاہے۔ انسان کے جسم میں اکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے وغیرہ  لیکن پھر بھی لوگ اس کے چنگل میں پھنس ہی رہے ہیں۔ کہیں زبردستی کی جارہی ہے تو کہیں کچھ لالچ بھی دیاجارہاہے۔  ان کے کالے کارنامے ساری دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔ جس کے خلاف ساری دنیا میں آواز اٹھائی جارہی ہے۔ اب یہ دھندا صرف اور صرف لاٹھی کے دم پر چلایا جارہاہے۔

 

            RTPCR TEST کو غلط مان کر امریکہ نے اس پرپہلے ہی پابندی لگادی ہے۔ کیوں کہ جس نے یہ ٹسٹ ایجاد کیا اس نے اس میں لکھا ہے کہ یہ ٹسٹ صرف تجرباتی استعمال کیلئے ہے نا کہ علاج و معالجے کیلئے۔ امریکہ کے علاوہ بہت سارے ترقی یافتہ ممالک نےاس پر پابندی لگا ئی ہے۔ لیکن ہندوستان اس کو عوام کے خلاف ایک ہتھیار کی طرح استعمال کررہاہے۔ جب بھی لہر لانا ہو ٹسٹ بڑھادیتے ہیں۔ اور لوگوں میں ڈر پیدا کرتے ہیں۔ جتنے بھی اموات ہورہے ہیں چاہے وہ امراض قلب سے ہوں یا دیگر جسم کے اعضاء کے فیل ہونے سے۔ ان تمام کو کورونا کے اموات میں ڈالا جارہاہے۔ اس کے تمام ثبوتbiswaroop.comپر موجود ہیں۔ جہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگو سردی بخار سے مرتے تھے اب ان کی تعداد صفرہوگئی ہے۔ کیونکہ ان تمام اموات کی شرح کو کورونا کی اموات میں شامل کیاگیاہے۔

 

            ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں اور یہ حقیقت ہمارے سمجھ میں آتی ہے تو ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ دیش کے ہر مشکل وقت میں مسلمانوں نے اور اردو والوں نے ہی پہل کی ہے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں۔ چاہے وہ دیش کی آزادی کا معاملہ ہو یا NRC یا دیگر۔ اس میں بھی اردو داں طبقے کو مسلمانوں کو اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔ اپنے دیش اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بچانا چاہئے۔ اور ان شیطانی قوتوں کا سامنا کرنا چاہئے۔

 

ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ

مدیر

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور