نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اسباب ستہ ضروریہ اور صحت

 

اسباب ستہ ضروریہ اور صحت


ڈاکٹر فیاض احمد علیگ

اسباب ستہ ضروریہ وہ ضروری اسباب ہیں جن سے تا حیات چھٹکارا ممکن نہیں،ان کا اعتدال صحت و تندرستی کا ضامن اور ان کی بے اعتدالی مرض کا باعث ہو تی ہے ۔ یہ اسباب حفظ صحت کے ساتھ ساتھ ازالہ مرض میں بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ اسباب ستہ ضروریہ حسب ذیل ہیں:۔

۱۔ہوا  ۲۔ماکول و مشروب  ۳۔ حرکت و سکون بدنی  ۴۔ حرکت و سکون نفسانی  ۵۔نوم و یقظہ  ۶۔احتباس و استفراغ

مذکورہ اسباب پر اطباء قدیم نے متفرق طوراپنی تصانیف،رسائل اور مقالات میں تفصیلی وتحقیقی بحث کی ہے اور مذکورہ تمام موضوعات پرالگ الگ اطباء کی بے شمار تصانیف موجود ہیں ۔ جن کی تفصیل میں جانا یا ان پر تفصیلی گفتگو کرنا یہاں ممکن نہیں۔ہاں ! اتنا ضرور ہے کہ دسویں صدی عیسوی تک مذکورہ اسباب منظم صورت میں یعنی’’ اسباب ستہ ضروریہ ‘‘ کے عنوان سے طبی کتابوں میں مذکور نہیں تھے ۔ ’’اسباب ستہ ضروریہ ‘‘کو اس عنوان سے سب سے پہلے ابو الحسن علی ابن عباس مجوسی (متوفی ۹۹۴؁ء) نے بیان کیا اور اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’کامل الصناعہ‘‘ میں ’’اسباب ستہ ضروریہ‘‘ کے عنوان سے ان اسباب پر تفصیلی بحث کی ہے(۱) مجوسی نے کامل الصناعہ میں دو جگہ ان اسباب کا تذکرہ کیا ہے اور دونوں جگہ اس کی ترتیب مختلف ہے ۔اولاً کتاب کے چوتھے باب میں اس کی ترتیب یوں ہے :۔

۱۔ہوا  ۲۔ حرکت  ۳۔ سکون  ۴۔ اطعمہ و اشربہ  ۵۔خواب اور بیداری  ۶۔استفراغ و احتقان  (۲)

اس مقام پر مجوسی نے صرف اجمالی تذکرہ کیا ہے جبکہ اس پر تفصیلی بحث انہوں نے پانچویں مقالہ میں کی ہے جہاں اس کی ترتیب کچھ یوں ہے :۔

۱۔ ہوا  ۲۔ حرکت و سکو ن  ۳۔ماکول و مشروب  ۴۔نوم و یقظہ  ۵۔استفراغات طبعی اور احتقان  ۶۔اعراض نفسانی(۲)

  مجوسی نے دونوں جگہ احتباس کے بجا ئے ’’احتقان‘‘کی اصطلاح استعمال کی ہے جس میں احتباس سے زیادہ وسعت اور معنویت ہے اس لیے کہ احتباس کے معنی صرف رکنا ہے جبکہ احتقان کے معنی CombustionیاBurningہے جس کے بغیر ہضم واستحالہ اور تغذیہ کا فعل ممکن نہیں اور احتقان کے نتیجہ میںہی فضلات بنتے ہیں،جن کا استفراغ صحت کے لیے ناگزیر ہو تا ہے ،اس لیے  احتقان کی اصطلاح زیادہ وسیع ہے ۔ جبکہ اسی کامل الصناعہ کے سینتیسویں باب میں مجوسی نے ’’استفراغ اور احتباس طبیعی‘‘کے عنوان سے باقاعدہ احتباس پر بھی گفتگو کی ہے ۔ (۲)اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ ان کے نزدیک احتباس کے ساتھ احتقان بھی ناگزیر ہے یعنی پہلے غذائی اجزاء کا بدن میں رکنا اور پھر ان کا ہضم و استحالہ کے مختلف مراحل سے گزر کر بدن کی بنیادی ضروریات (صحت ،نموء اور تولید)کو پورا کرنا جس کے لیے احتقان ( CombustionیاBurning) کا عمل ناگزیر ہے۔

بہر کیف۔۔۔۔۔مجوسی کے ذریعہ بیان کردہ اسباب ستہ ضروریہ کی مذکورہ دونوں ترتیب طبی و منطقی دونوں لحاظ سے منظم صورت (Organised )میں نہیں تھی جس کی وجہ سے بعد کے اطباء نے ان کی اہمیت و افادیت کو تسلیم توکیا لیکن ان کی مذکورہ ترتیب سے متفق نہ ہو سکے چنانچہ سب سے پہلے ابن سینا نے مذکورہ ترتیب سے اختلاف کرتے ہوئے اس کو اس طرح بیان کیا۔

۱۔ ہوا  ۲۔ ماکول و مشروب  ۳۔حرکت و سکون بدنی  ۴۔حرکت و سکون نفسانی   ۵۔ نوم و یقظہ  ۶۔استفراغ و احتباس(۳)

ابن سینا کے ذریعہ بیان کردہ ترتیب اگرچہ مجوسی کی ترتیب سے زیادہ موزوں او رمنظم (Organised)ہے، لیکن ابن سینا سے بھی چوک ہوئی اور انہوں نے چھٹے سبب کی ترتیب الٹی رکھی یعنی استفراغ و احتباس لکھا ہے اور اسی بنیاد پر آج بھی بیشتر نصابی کتابوں میں یہی ترتیب درج ہے جبکہ طبی اور منطقی دونوں لحاظ سے درست ترتیب احتباس و استفراغ ہے۔

 بہر کیف۔۔۔ طبی و سائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حٖفظ صحت اور ازالہ مرض دونوں مقاصد کے حصول میں اسباب ستہ ضروریہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، جن کا اعتدال صحت و تندرستی کا ضامن اور ان میں بے اعتدالی ا مراض بالخصوص Life Style Disorders کا اہم سبب ہوتی ہے اور ان اسباب ستہ ضروریہ میں حسب ضرورت تصرف و تبدیلی ہی علاج بالخصوص ’’علاج بالتدبیر ‘‘کی کلید ہے ،جن کی بنیادوں پرنہ صرف علاج بالتدبیر ( Regimental Therapy)کا شعبہ وجودمیں آیا بلکہ جدیدمیڈیکل سائنس کے بہت سے شعبے جیسے Nutrition Science ، Dietotherapy ، Hydrotherapy ،Physiotherapy اورمختلف Pschychological Disorders  کے علاج کے لیے Psychiatric medicine وغیرہ درحقیقت مذکورہ اسباب پر ہی مبنی ہیں۔

۱۔ہوا:۔ ہر ذی حیات کے لیے ہوا ایک بنیادی اور اہم عنصر ہے جس پر زندگی کا دارومدار ہے۔ہوا پر سب سے پہلے بقراط نے تحقیقی بحث کی اور صحت و مرض کے حوالے سے ہوا کے تمام پہلوئوں پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے دو اہم کتابیں تحریر کیں۔ ۱۔کتاب الماء و الہواء۔ ۲۔ کتاب الاہویہ و المیاہ و البلدان ۔ مذکورہ دونوں تصانیف حفظ صحت کے موضوع پر انتہائی اہم کتابیں ہیں جن سے آج تک مغربی ممحققین و مصنفین نہ صرف مستفید ہوتے رہے ہیں بلکہ بڑی ایمانداری سے وہ اس کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔

ہوا کے دو اہم اوربنیادی کام ہوتے ہیں:

۱۔ ترویح؍تعدیل روح:۔استنشاق ( Inspiration )کے ذریعہ ہوا پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے اور پھر روح میں شامل ہو کر اس کے مزاج کی تعدیل کرتی ہے ۔

۲۔ تنقیہ:۔سانس کے باہر نکلنے ( Expiration)کے ذریعہ روح کے فضلات کا اخراج ،(جسے اطباء دخان یا بخار دخانی سے تعبیر کرتے ہیں)   جو روح کے احتقان سے پیدا ہو تے ہیں اور صحت کے لیے مضر ہوتے ہیں۔(۳)

مذکورہ دونوں عمل کے ذریعہ صاف ہوا مستقل کمک کے طور پر روح تک پہنچتی اور اسے تقویت پہنچاتی ہے پھر یہی معتدل روح اعضاء تک پہنچتی اور قوی کو مضبوط بناتی ہے جن سے افعال انجام پاتے ہیں۔اس طرح صاف اور معتدل ہوا پورے جسمانی نظام کو فعال رکھنے کے ساتھ ساتھ صحت کی حفاظت کرتی ہے، بصورت دیگر صحت کے زوال کے ساتھ ساتھ امراض کا علاج بھی نا ممکن ہوجا تا ہے اور کوئی دوا بھی کارگر نہیں ہو تی ۔ بقول زکریا رازی کہ

’’اگر تم کسی مریض کا علاج بالکل صحیح طریقہ پر کر رہے ہو لیکن اس کے ارد گرد کی ہوا غیر موافق ہو تو تمہارا علاج بیکار ہے۔ اس لیے خیال رکھو کہ اس کے رہنے اور سونے کی جگہ کی ہواپوری طرح موافق ہو۔‘‘ (۴)

مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے ہوا کا صاف اور معتدل ہونا ضروری ہے لیکن درحقیقت ہواء خالص کا وجو د نہیںہوتا بلکہ اس میں بہت سے عناصر ملے ہوئے ہوتے ہیں(۵؍۶)ابن سینا نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے اجزاء ترکیبی کو اس طرح بیان کیا ہے۔

۱۔ایک تو اس میں اصلی ہوا ہے (ہواء بسیط یا ہواء خالص)

۲۔اجزاء مائیہ بہ شکل بخارات۔

۳۔اجزاء ارضیہ جو دخان اور غبار کے ساتھ صعود کرتے ہیں۔

۴۔اجزاء ناریہ  (۳)

اطباء کے نظریات اور جدید سائنس کی تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہواء خالص کا وجود نہیں ہوتا بلکہ اس میں مختلف اجزاء ارضیہ اور بخارات شامل ہوتے ہیں اور جب یہ اجزاء اعتدال سے تجاوز کرتے ہیںتو یہی ہوا نہ صرف صحت کے لیے مضر ہوتی ہے بلکہ  بہت سے امراض بالخصوص تنفسی امراض ( Air Born Diseases)اور بعض اوقات وباء کا بھی سبب بن جاتی ہے ۔

اطباء کے مطابق ہوا میں دو قسم کی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔

۱۔ ہوا کی کیفیت میں تبدیلی یعنی اس کی حرارت، برودت، رطوبت یا یبوست میں تبدیلی آنا۔

۲۔ ہوا کے جوہر ( Essence of Air)میں تبدیلی، یعنی اس کے اجزاء میں تبدیلی آنا۔

ہوا کی کیفیت میں تبدیلی :۔شب و روز کے مختلف اوقات اور سال کے مختلف موسموں میں ہوا کی کیفیت بدلتی رہتی ہے جسے موسمی تغیرات کہتے ہیں ۔ یہ موسمی تغیرات مختلف افراد پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں لیکن یہ عموما مہلک یا جان لیوا نہیں ہوتے بلکہ صحت کے موافق ہوتے ہیں۔

۱۔فصل ربیع (Spring Season ) :۔اس کا مزاج معتدل ہوتا ہے اور یہ موسم صحت کے لیے سب سے بہتر ہوتا ہے۔ یہ بدن میں سرخی اور نکھار پیدا کرتا ہے، لیکن اس موسم میں بدنی یا نفسانی حرکات کی زیادتی اور مصالحہ دار غذاوں ( Spicy Food) کے بکثرت استعمال کے باعث دموی، اعصابی اور مادی امراض جیسے فالج، مالنخولیا، قے الدم، ورم حلق اور گٹھیا وغیرہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر مذکورہ عوامل (Risk Factors ) سے بچا جائے تو یہ موسم صحت کے لیے نہایت بہتر ہو تا ہے۔

۲۔ فصل صیف ( Summer Season) :۔ اس کا مزاج حار یابس ہوتا ہے،جس کے باعث بدن میں صفراء کی زیادتی ہوتی ہے اور صفراوی امراض جیسے خسرہ، چیچک، صفراوی قے، استسقاء،آشوب چشم وغیرہ کے امکانات زیاد ہ ہوتے ہیں۔ ان امراض سے تحفظ کے لیے گرد و پیش کی ہوا کو ٹھنڈا رکھیں اور بارد ماکولات و مشروبا ت کا استعمال زیادہ کریں۔

۳۔ فصل خریف ( Autumn Season):۔اس کا مزاج حار یابس ہوتا ہے جس کے باعث اس موسم میں صفراء اور سوداء کی زیادتی ہوتی ہے۔دوسری اہم بات یہ کہ اس موسم میں دن اور رات کی حرارت میں نمایاں فرق کے باعث بدن فاسد ہو جاتا ہے او ر اس فساد کا بنیادی سبب نظام ہضم کا فساد ہو تا ہے جس کے باعث اس موسم میں دیدان امعاء، خارش، عرق النساء، ورم حلق وغیرہ جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ ان امراض سے تحفظ کے لیے زود ہضم غذاء اور پانی کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔

۴۔فصل شتاء ( Winter Season):۔ اس کا مزاج بارد رطب ہوتا ہے اور ہوا کی کثافت کے باعث مواد کا تحلل کم ہو جاتا ہے اور بدن میں بلغم کی کثرت ہو جاتی ہے جس کے باعث بلغمی امراض جیسے نزلہ، زکام، کھانسی، ذات الریہ، ذات الجنب اور وجع المفاصل جیسے امراض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان امراض سے بچنے کے لیے گردو پیش کی ہوا گرم رکھیںاور گرم ماکولات و مشروبات کا استعمال کثرت سے کریں۔

موسمی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہوا کی کیفیات یعنی حرارت، برودت، رطوبت و یبوست میں بھی تبدیلی ہوتی رہتی ہے جن کواطباء تغیرات طبیعیہ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن جب یہی تغیرات غیر طبعی ہو جائیں تو صحت کے لیے مضر ہو جاتے ہیں۔ کیفیت کے لحاظ سے ہوائیں چار کیفیات کی حامل ہوتی ہیں۔

۱۔ہواء حار ( Hot Air):۔یہ رطوبات کو تحلیل اور اعضاء کو ڈھیلا کرتی ہے۔ پسینہ زیادہ لاتی اور پیاس میں اضافہ کرتی ہے۔ پیشاب کم اور ہضم ضعیف کرتی ہے ، اخلاط دمویہ کو تحلیل کر کے صفراء کو دوسرے اخلاط پر غالب کر دیتی ہے۔ اس قسم کی ہوا عموما تندرست افراد کے لیے اچھی نہیں ہوتی،لیکن بقول شیخ’’گاہے اس سے استسقاء والوں، فالج زدہ لوگوں، کزاز بارد، تشنج رطب، تشنج امتلائی اور لقوہ رطب کے مریضوں کو فائدہ پہنچتا ہے‘‘(۳)

۲۔ہواء بارد (Cold Air ):۔ایسی ہوا بدن کو سخت کرتی ہے اور ہضم  کے ساتھ سارے اندرونی افعال کو قوی کرتی اوربھوک بڑھاتی ہے، پیشاب زیادہ لاتی ہے لیکن یہ نزلہ پیدا کرتی ،اعصاب کو کمزور کرتی اور قصبۃ الریہ کو سخت ضرر پہنچاتی ہے اگر یہ بہت سرد ہو جائے تو یہ حرارت غریزیہ کو اندر گھیر لیتی ہے ،ایسی ٹھنڈی ہوا مہلک ہوتی ہے ۔(۳)

۳۔ہواء رطب (Humid Air ):۔یہ اکثر مزاجوں کے لیے بہتر اور مناسب ہوتی ہے۔جلد کو نرم اور مسامات کو کھلا رکھتی ہے لیکن یہ عفونت کے لیے آمادگی پیدا کرتی ہے۔‘‘(۳)

۴۔ ہواء یابس (Dry Air ):۔یہ ہواء رطب کے برعکس ہوتی ہے۔ یہ بدن کو لاغر اور جلد کو خشک کرتی ہے ۔(۳)

مذکورہ ہواوں کے ضرر اور نقصان سے بچنے کے لیے ان کے مخالف(Opposite) تدابیر اور ماکولات و مشروبات اختیار کئے جائیں۔

۲۔ہواء کے جوہر ( Essence of Air) میں تبدیلی:۔ہوا کے جوہر میں تبدیلی در حقیقت ہوا کے اجزاء ترکیبی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ ہوا کے اجزاء ترکیبی غیر متوازن ہو جاتے ہیں یا پھر اس کے اندر خارجی اجزاء جیسے مختلف اجسام، جراثیم، بخارات و دخان شامل ہو کر ہوا کو فاسد کر دیتے ہیں جو صحت کے لیے انتہائی مضر ہوتے ہیں۔اس قسم کی ہوا کو اطباء ہواء مکدر ، ہواء غلیظ اور ہواء متعفن سے تعبیر کرتے ہیں۔ہواء مکدر اور ہواء غلیظ میں تفریق کرتے ہوئے شیخ لکھتے ہیں کہ

’’یہ  یاد رکھو کہ مکدر ہواء اور چیز ہے اور غلیظ ہواء اور چیز۔کیونکہ غلیظ ہوا کا جوہر بلحاظ غلظت کے ہموار اور یکساں (متشابہ)ہوتا ہے اور مکدر ہواء اسے کہتے ہیں جس  میں غلیظ اجسام (اجسام غریبہ مثلا گرد وغبار، دھواں وغیرہ مل جاتے ہیں اور اچھی ہوا (آکسیجن) کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔‘‘(۳)

  ہواء کے اس تکدر کو شیخ نے دوسری جگہ’’ تعفن ‘‘سے تعبیر کیا ہے، جس کے نتیجہ میں بدن کے اخلاط متعفن ہو جاتے ہیں ، (۳) اور اس متعفن ہوا کو اطباء ہواء وبائی سے تعبیر کرتے ہیں جو عموما وبائی امراض کا سبب ہوتی ہے ۔ اس کے اسباب پر بحث کرتے ہوے ابن رشد بقراط کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

’’کبھی ہواء وبائی اس طرح سے پیدا ہوتی ہے کہ پانی میں مردار اور سڑی ہوئی چیزوں سے اٹھنے والے بخارات جوہر ہواء میں مل جاتے ہیں اوروبائی امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔‘‘(۷)

اطباء نے ہوا کی عفونت کے تعلق سے مذکورہ اسباب کے علاوہ بہت سے دیگر اسباب کا بھی ذکر کیا ہے (۲) جن کی تفصیل اطباء قدیم کی تصانیف میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ وبائی امراض کے تعلق سے علی ابن ربن طبری کا خیال ہے کہ

’’جب ایک مرض تمام لوگوں میں عام ہو جائے اس وقت مرض کا سبب غذاء کا فساد نہیں بلکہ ہوا کا فساد ہوا کرتا ہے۔‘‘ (۸)

 اطباء قدیم ہوائی آلودگی اور اس سے پیدا ہونے والے امراض سے بخوبی واقف تھے یہی وجہ ہے کہ ان سے پیدا ہونے والے وبائی امراض سے بچنے کے لیے تحفظی تدابیر پر انتہائی جامع لٹریچر بھی طب یونانی میں موجود ہے۔خاص طور سے بقراط اور زکریا رازی نے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ وبائی امراض کے زمانے میںہوا کے تعفن اور وباء سے تحفظ کے تعلق سے رازی لکھتے ہیں کہ

’’اگر ہواء میں عفونت پیدا ہو جائے اور نا پسندیدہ بو محسوس ہونے لگے اور چیچک ، خسرہ اور طاعون کی کثرت ہو جائے تو گہرے تہ خانوں ۔۔۔۔۔۔۔۔یا ایسے گھروں میں رہنا چاہیے جو ہواء سے دور ہوں مثلا وہ گھر جو عمارتوں کے وسط میں ہوں اور آس پاس سرکہ کا چھڑکاو کرنا چاہیے اور لوبان ،آس کے پتوںاور سعد کی دھونی دینی چاہیے اور کھانے پینے میں سرکہ کا کثرت سے استعمال کرنا چاہیے۔‘‘(۴)

اسی طرح مجوسی نے بھی وباء کے ایام میں حفظ ما تقدم کے طو رپرہائش گاہ میں مختلف خوشبوں جیسے عود، صندل،کافور، مشک،سندروس اور کندر وغیرہ کی دھونی کرنے اور سرد پھولوں کے سونگھنے کے ساتھ ہی ایسی جگہ رہائش کا حکم دیا ہے جہاں سے اس متعفن ہوا کا گذر نہ ہو سکے جیسے کسی بلند مقام یا تہ خانے وغیرہ ،مزید برآن حفظ ماتقدم کے لیے وہاں دیواروں اور فرش پر سرکہ کا چھڑکاو اور خوشبودار پھولوں کو کثرت  سے رکھنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔ (۲)اسی طرح مختلف متعدی امراض بالخصوص قرحہ ریہ کی صورت میں ہوا کی تدابیر کے حوالے سے رازی لکھتے ہیں کہ

’’قرحہ ریہ کے مریضوں کو بارد یابس ہواء اور بخار زدہ لوگوں کو بارد رطب ہواء میں رہنا چاہیے۔ امراض حادہ میں مبتلاء مریضوں کے ارد گرد بارد رطب ہواء رہنا چاہیے، اس کے لیے انہیں خیموں،تہ خانوں، فرحت بخش اور ٹھنڈے گھروں اور ایسے مکانوں میں رکھنا چاہیے جن میں پانی کے ٹب، درختوں کے پتے اورٹھنڈے پھول ہوں ۔‘‘(۴)

رازی اور دیگر اطباء کی تحقیقات و تصنیفات سے متعدی اور وبائی امراض کی صورت میںتحفظی تدابیر کے طور پر Fumigation اور Herd Immunity کا نظریہ بالکل واضح ہے لیکن سر دست ان پر تفصیلی بحث ممکن نہیں۔ اسی طرح مزمن امراض کی صورت میں رازی لکھتے ہیں کہ

’’جب کوئی مرض مزمن شکل اختیار کر لے اور طویل عرصہ تک قائم رہے تو مریض کو دوسری کسی ایسی جگہ منتقل کر دوجس کا مزاج مرض کے مزاج سے مختلف ہو۔اس طرح مستقل اس کے ارد گرد رہنے والی ہوا اس کا مکمل علاج ہو گی۔‘‘(۴)

مجوسی کے مطابق امراض متعدیہ(Infectious Diseases)جیسے جذام، کھجلی، سل،چیچک وغیرہ کی صورت میں صحت مند افراد ان سے دور رہیں اور جس مکان میں مریض ہوںاس مکان میں بالکل نہ رہیں بلکہ ان سے اس قدر دور رہیں کہ مریض کے ارد گرد کی ہوا ان تک نہ پہنچ سکے۔(۲)

رازی اور دیگر اطباء کے کے مذکورہ نظریات اور تحفظی تدابیرسے Isolation  اور Sanatorium کی طبی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔درحقیقت انہیں اطباء (خصوصا رازی)نے ہیSanatorium کے تصور کو جنم دیا اور انیسویں صدی کے اواخر سے بیسویں صدی کے وسط تک تقریبا تمام دنیا میں Sanatorium بنائے گئے جہاں خاص طور سے دق کے مریضوں کو علاج کے لیے رکھا جاتا تھا اور ٹی بی کی دواوں کی دریافت تک یہی Sanatorium دق کے مریضوں کا آخری سہارا ہوتے تھے۔

۲۔ماکول و مشروب:۔(کلوا واشربوا ولا تسرفوا)اسباب ستہ ضروریہ میں دوسرا اہم سبب ماکول و مشروب ہے جس میں ماکول یعنی غذا کو اولیت حاصل ہے اس لیے کہ غذا ہی جسم کو بدل ما یتحلل فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ درج ذیل افعال انجام دیتی ہے ۔

۱۔اچھی غذا سے صالح اخلاط خصوصا خون صالح پیدا ہو تا ہے۔

۲۔غذا سے جسم کی نشو و نما اور تعمیر ہوتی ہے۔

۳۔ غذا حرارت غریزیہ کے لیے ایندھن کا کام کرتی ہے جس سے قوت پیدا ہوتی ہے۔

غذا کی اہمیت پر بحث کرتے ہوئے علی ابن ربن طبری ارسطو کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

’’ہر متنفس تین چیزوں سے قائم ہے،ایک قوت غاذیہ دوسری حرارت غریزیہ اور تیسری غذا۔‘‘(۸)

اطباء نے غذاء کی کیفیت کے لحاظ سے اس کی تین اقسام بیان کی ہیں:

۱۔غذاء لطیف:۔ جو زود ہضم ہو اور جس سے لطیف خون بنے جیسے آش جو، ساگودانہ، دال کا پانی وغیرہ۔

۲۔غذاء کثیف:۔جو غذاء لطیف کے بر عکس ہو اور جس سے گاڑھا خون بنے جیسے سری پائے۔

۳۔غذاء معتدل:۔جو بآسانی ہضم ہو اور جس سے اوسط درجہ کا خون بنے جیسے دلیہ۔

مذکورہ تقسیم کے علاوہ اطباء نے غذاء کے کیموس و کیلوس( Chyle and Chyme) اور تغذیہ کے اعتبار سے مزید اقسام بیان کی ہیںجیسے۱۔جید الکیموس ۲۔ ردی الکیموس   ۱۔ کیثیر التغذیہ ۔  ۲۔ قلیل التغذیہ ۔ مزید برآںمذکورہ تمام اقسام کو یکجا کرتے ہوئے غذاء کی مرکب اقسام بھی بیان کی ہیں۔جن کا تذکرہ یہاں ضروری نہیں۔

ماکولات و مشروبات کی تاثیر کے لحاظ سے اطباء نے ان کی تین اقسام بتائی ہیں ۔

۱۔فاعل بالکیفیت:۔جو صرف اپنی کیفیت (سردی ،گرمی) سے اثر کرے لیکن خود بدن کے مشابہ نہ ہواسے دواء مطلق کہتے ہیں۔

۲۔فاعل بالعنصر:۔جو بدن میں داخل ہو کر حرارت بدنیہ سے متاثر ہو کر جزو بدن بن جائے اسے غذاء مطلق کہتے ہیں۔

۳۔فاعل بالجوہر:۔جو اپنی صورت نوعیہ سے اثر کرے ،اگروہ مفسد حیات نہیں ہے جیسے زہر مہرہ تو اسے دواء ذوالخاصہ اور اگر مفسد حیات ہے تو اسی سمیات کہتے ہیں۔(۹)

 قدیم اطباء نے محض اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر ٖغذاء کی مقدار، معیار اور ذائقہ کی بنیاد پر جو درجہ بندی کی ہے اس کی اہمیت و افادیت سے آج بھی انکار ممکن نہیں۔بہترین غذاء کی تعریف کرتے ہوئے رازی نے لکھا ہے کہ

’’بہترین غذاء صحت کی بقاء کے لیے وہ ہے جو لطافت و غلظت و لزوجت کے لحاظ سے متوسط ہو‘‘(۱۰)

اسی طرح دوسری جگہ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’بہترین غذاء وہ ہے جس میں ہلکی سی چکنائی ہو اور گرم ہو۔ اس لیے کہ چکنائی بدن کو موٹا کرتی اورحواس کو قوی کرتی ہے‘‘۔(۱۰)

ابن رشد کے مطابق ’’سب سے اچھی غذا مرغ کا گوشت ہے اس کے بعد بکری کے بچے کا گوشت پھر اس کے بعد جوان بھیڑ اور بچھڑے کا گوشت ہے‘‘ (۱۱)

 حفظ صحت کے لیے غذا کا معتدل اور متوازن ہونا ضروری ہے ۔متوازن غذا سے مراد وہ غذا ہے جس میں تما م ضروری اجزاء غذائیہ وافر مقدار اور صحیح تناسب میں موجود ہوںاور باعتبار کیفیت جسم کی تمام ضرورتوں (صحت ،نموء اور تولید)کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ کیفیت و کمیت دونوں لحاظ سے معتدل ہو ۔ جیسا کہ شیخ الرئیس لکھتے ہیں کہ

’’غذائیں بدنی حالات میں جس طرح کیفیت سے تغیر پیدا کرتی ہیں اسی طرح کمیت (مقدار) سے بھی بدن میں تغیرات پیدا کرتی ہیں مثلا اگر غذائیں مناسب مقدار سے زیادہ کھلائی جائیںتو تخمہ (بد ہضمی) اور سدہ اور اس کے بعد عفونت پیدا کرتی ہیں اور اگر مناسب مقدار سے کم کھلائی جائیں تو ذبول (لاغری) پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘(۳)

اس طرح اطباء نے کثرت طعام (Over eating )سے لیکر قلت ٖغذاء و نقص تغذیہ (Malnutrition) تک کے تمام عوارضات تفصیل سے بیان کئے ہیں چنانچہ زیادہ کھانے کے تعلق سے شیخ لکھتے ہیں کہ

’’زیادہ مقدار میں غذا کھلاناہر صورت میں مبرد ہے۔‘‘(۳)

طب یونانی کے مطابق بدن میں برودت کے اضافہ سے رطوبت کا اضافہ ہو تا ہے اور جب برودت و رطوبت دونوں کی زیادتی ہوتی ہے تو انسان سمن مفرط کا شکار ہو جاتا ہے، اسی طرح طب یونانی کے مطابق Over eating کے نتیجہ میں فوری طور پر تخمہ،سدہ اور عفونت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ Long term میں یہی Over eating کی عادت سمن مفرط کا اہم سبب ہوتی ہے ۔ قلت غذاء کی صورت میں نقص تغذیہ (Malnutrition ) کے عوارضات بڑھ جاتے ہیں جسے شیخ نے ذبول کا نام دیا ہے جدید میڈیکل سائنس میں اسی کو PEM (Protein Energy Malnutrition) کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں Marasmus  اور Kwashiorkerجیسے مہلک امراض پیدا ہوتے ہیں۔

غذائی بے اعتدالی سے بچنے کے لیے اطباء نے کھانے کے کچھ آداب اور اوقات بتائے ہیں جن پر عمل کر کے ہم مذکورہ امراض اورعوارضات سے بچ سکتے ہیں چنانچہ کھانے کے مناسب وقت کے بارے ابو سہل مسیحی لکھتے ہیں کہ

’’غذاء اس وقت لینی چاہیے جب اشتہاء طعام متحرک ہو جائے اور نفس کھانے کا تقاضہ کرے اور اس کا مشتاق ہو تو اس کیفیت کے پیدا ہونے کے نصف گھنٹہ یا ایک گھنٹہ بعد غذاء لینی چاہیے۔‘‘(۵)

اسی طرح بیک وقت مختلف اقسام کی غذاوں کے تعلق سے بھی اطباء نے کچھ رہنما اصول بتائے ہیں۔ اطباء کے مطابق’’مختلف غذائیں اکٹھا کر کے کھانا سب سے بری بات ہے۔‘‘(۳)ایک وقت میں ایک ہی طرح کی غذا تھوڑی تھوڑی لینی چاہیے جیسا کہ رازی کا کہنا ہے کہ

’’جو شخص چاہے کہ اس کی غذا باقی رہے اور ہضم بھی اچھا ہو تو وہ ایک ہی طرح کی غذا لے اور تھوڑی تھوڑی لے۔‘‘(۱۰)

مذکورہ اصول پر پابندی سے عمل کرنا ہر شخص کے لیے نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اس لیے اطباء نے مختلف غذاوںکے بیک وقت  استعمال کرنے کے طریقے بھی بتائے ہیں۔اطباء کے مطابق ’’اگر دو طرح کے کھانے ہوں توسب سے پہلے نرم غذا کھائی جائے کیونکہ نرم غذا جلد ہضم ہوتی ہے اور بآسانی خارج بھی ہو جاتی ہے۔سخت غذا کا اخراج اس کے بعد ہوتا ہے ۔‘‘(۸؍۱۰)

ترشیوں کے ساتھ دودھ کا استعمال جائز نہیںکیونکہ ترشی دودھ کو معدہ میں غلیظ کر دیتی ہے اور دودھ زہر کی خاصیت حاصل کر لیتا ہے اور اگر امعاء کی طرف چلا گیا تو قولنج پیدا کر دیتا ہے۔دودھ اور مچھلی کو ایک ساتھ نہیںکھانا چاہیئے ۔کیونکہ دونوں چیزیں غلیظ ہیں اور معدہ میں جا کر جلد فاسد ہو جاتی ہیں اور اپنی کیفیت فاسدہ کی وجہ سے امراض مزمنہ (مثلا جذام ، برص اور فالج وغیرہ) پیدا کردیتی ہیں ،اس لیے کہ اگر ان کا استحالہ دخان و سوداء کی طرف ہوا تو جذام اور اگر بلغم کی طرف ہوا توفالج ہو جاتا ہے۔۔لیکن جدید سائنس کی روشنی میںیہ بات آج تک تشنہ تحقیق ہے ۔۔۔۔۔؟اور آج بھی بہت سی اقوام اور علاقوں میں دودھ اورمچھلی یا دہی اور مچھلی ایک ساتھ کھائے جاتے ہیں اور انہیں کوئی ایسا مرض نہیںہوتا ۔ قرشی نے اس کی تاویل یوں کی ہے کہ اس سے اطباء کی غرض یہ ہے کہ جب یہ چیزیںمدتہائے دراز تک اکٹھی کھائی جاتی ہیںتو یہ امراض پیدا ہو تے ہیں،یہ ضروری نہیںہے کہ دوچار ہی بار کی غلطی تمام امراض و آفات کو لے آئے۔ (۳؍۱۲)بہر کیف ۔۔۔کسی نتیجہ تک پہنچنے کے لیے اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ترش چیزوں کی مداومت جلد بوڑھا کرتی ہے ۔۔۔۔کیونکہ ترشی کی مداومت خون نہیں پیدا ہونے دیتی اور جب خون پیدا نہ ہو گا تو ارواح کم ہوں گے، قوی کمزور ہوں گے، اسی کا نام بڑھاپا ہے ۔۔۔۔۔جبکہ شیرینی کی مداومت مرخی معدہ و مسخن بدن ہے ،کیونکہ شیرینی خون و صفراء زیادہ پیداکرتی ہے لہذا بدن گرم ہو جائے گا لیکن یہ بہت جلد سدے پیدا کر دیتی ہیں کیونکہ طبیعت میٹھی چیزوں کو ہضم ہو نے سے پہلے ہی (رغبت و محبت کی وجہ سے)جذب کر لیتی ہے ۔اور سدوں سے بہت سے امراض پیدا ہوا کرتے ہیں جن میں استسقاء بھی ہے۔۔ مناسب یہ ہے کہ ترشی کی مضرت مٹھائی سے اور مٹھائی کی ترشی سے دفع کر لی جائے‘‘۔نمکین اشیاء مجفف اور مہزل بدن ہوتی ہیں کیونکہ یہ جالی وقاطع رطوبات  و محلل ہیں اس وجہ سے خون صالح  پیدا نہ ہو گا جس سے بدن میں تازگی ہو۔(۱۲)مزید برآں نمکین غذاوں کی زیادتی معدہ اور آنکھ کے لیے مضر ہے۔(۳) جدید میڈیکل سائنس کی رو سے بھی نمک (Salt)کا زیادہ استعمال بہت سی بیماریوں خصوصا Hypertensionکا سبب ہوتا ہے اس لیے نمکین اشیاء کے زیادہ استعمال سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔چکنی اور روغنی غذاوں کی زیادتی سے بدن میں سستی و کاہلی پیدا ہو جاتی ہے ،ان کی اذیت اور ضرر کے تدارک اور اصلاح کے لیے کسیلی چیزوں جیسے حب الآس، خرنوب،زعرور وغیرہ یا پھر کڑوی چیزوں جیسے راسن تلخ(زنجبیل شامی) یا پھر نمکین اور چرپری چیزوں جیسے کوامیخ،لہسن،پیاز وغیرہ کا استعمال کیا جائے۔(۳)

اسی طرح مزاج کے لحاظ سے بھی مختلف غذاوں کی مضرت کے تدارک پر اطباء نے تفصیلی گفتگو کی ہے مثلا گرم غذاوں کی مضرت کا تداک سمنجبین بزوری سے اور اگر یہ شہد میں بنائی گئی ہوں تو سکنجبین سادہ ہی کافی ہے،ٹھنڈی غذاوں کی مضرت کا تدارک ان کے بعد ماء العسل، شراب ،شہد یا پھر جوارش کمونی سے کیا جائے،غلیظ غذاوں کی مضرت کا تدارک گرم مزاجوں میں سکنجبین بزوری سے اور سرد مزاج لوگوں میں جوارش فلافلی یا پھر جوارش فودنجی سے کیا جائے۔(۳)

اچھی صحت کے لیے اطباء نے لوگوں کو اپنے مزاج کے مطابق غذا استعمال کر نے کا مشورہ دیا ہے،ان کے مطابق سوداوی مزاج لوگوں کو ایسی غذا ئیں استعمال کرنی چاہیئں جور طوبت تو زیادہ پیدا کریں مگر حرارت کم پیدا کریں،صفراوی مزاج لوگوں کوایسی غذائیں استعمال کرنا چاہیئے جو رطوبت اور برودت پیدا کریں،دموی مزاج لوگوں کو ایسی غذا ئیں استعمال کرنا چاہیئے جو بارد اور قلیل الغذاء ہوں جبکہ بلغمی مزاج لوگوں کو ایسی غذا استعمال کرنی چاہیئے جو قلیل الغذاء ہونے کے باوجود گرم اور ملطف ہوں تاکہ بلغمی خون کی برودت وغلظت ،حرارت و رقت سے تبدیل ہو جائے۔(۳)جن لوگوں کے معدہ میں صفراء کا اجتماع (انصباب) بکثرت ہو جایا کرتا ہو انہیں چاہیئے کہ کھانے کی تعداد بڑھا دیں(کھانے کو چند اوقات میں منقسم کردیں)کھانے میں دیر نہ کریں (بھوک کے بعد جلد ہی کھانا کھا لیں)اور حمام کرنے سے پہلے ہی کھا لیا کریں۔ان کو جلدی اور بار بار کھانے کا مشورہ اس لیے دیا گیا ہے کہ ان لوگوں میں بھوک کو ضبط کرنے سے ان کے معدہ میں صفراء گرنے لگتا ہے  ،پھر جب یہ کچھ کھا لیتے ہیں تو ان کی غذا معدہ میں بگڑ جاتی ہے۔(۱۲) اس لیے ان کا تھوڑی تھوڑی دیر میں کچھ کھا لینا ہی زیادہ بہتر ہے تاکہ ان کے معدہ میں صفراء کی زیادتی نہ ہو سکے۔(۱۲)دور حاضر میں کھانے پینے میں بے احتیاطی اور Spicy and Fast Foods کی کثرت کے باعث Gastric Ulcerاور Gastritisکی شکایت بہت عام ہو چکی ہے،ان لوگوں کے لیے ابن سینا کا مذکورہ مشورہ بہت ہی مفیدہے جس پر عمل کر کے وہ مذکو رہ تکلیف سے نجات پا سکتے ہیں۔

اطباء نے مختلف عمروں کے لحاظ سے بھی کھانے کے آداب بتائے ہیں چنانچہ اطباء کے مطابق شیر خوار بچوں کو چھ ماہ کی عمر تک صرف ماں کا دودھ دینا چاہیئے اس کے بعد ہلکی پھلکی دیگر غذائیں دینا چاہیئے۔نوجوانوں کے لیے دن میں دو سے تین بار غذا کی ضرورت ہوتی ہے بشرطیکہ ان کا ہضم بہتر ہو بصورت دیگر ان کو ایک وقت کی غذا کو تین حصوں میں تقسیم کر کے تین بار لینا چاہیئے خاص طور سے بوڑھے لوگوں کو جبکہ کچھ اطباء کا خیال ہے کہ معتدل مزاج لوگوں کے لیے غذا کے معتدل اوقات دو دنوںمیں تین بار ہیں۔ اور جو لوگ دن میں دو بار غذا استعمال کریں وہ دو بار ورزش بھی کریںاور صبح وشام دو بار غسل بھی کریں(۱۱)جبکہ جالینوس کا خیال ہے کہ ’’بوڑھے دن میں تین بار کھانا کھائیں اور ہر ہضم کے پورا ہونے کے بعدریاضت مسکنہ،بدن کی مالش اور غسل کریں۔چونکہ بوڑھوں کے بدن میں فضلات زیادہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ لوگ ایسی ورزش نہیں کر سکتے جس سے تمام فضلات کا استفراغ ہو جائے اس لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ ایسی غذا ء دوائی یا دوا استعمال کریں جن سے ان کی صحت برقرار رہے۔‘‘(۷) دودھ ان بوڑھوں کے لیے بہتر ہے جن کی وریدیں تنگ نہ ہوں لیکن شہد کے ساتھ استعمال کرنا چاہیئے اور جن بوڑھوں کا مزاج طبعا سرد ہویا جن کی وریدیں تنگ ہوں وہ دودھ بالکل استعمال نہ کریں۔(۷)

غذا کے مذکورہ اصول و ضوابط کی روشنی میں ہر انسان اپنی علاقائی اقسام غذا میںسے اپنی عمر،مزاج ،صحت ،اورموسم کے مطابق غذا کا انتخاب کر سکتا ہے ۔(۳)

ابن ابی اصیبعہ نے کھانے کے آداب کے تعلق سے مختلف اطباء کے اقوال نقل کئے ہیں جن پر عمل کر کے نہ صرف صحت کی حفاظت کی جا سکتی ہے بلکہ بہت سے امراض و عوارضات سے بچا جا سکتا ہے ۔

۱۔اتنا نہ کھاو کہ غذا تم کو کھا جائے۔

۲۔معدہ کو کھانے پینے سے نہ بھرنے سے صحت قائم رہتی ہے۔

۳۔ہم زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں نہ کہ کھانے کے لیے زندہ ہیں۔

۴۔جس مریض کو بھوک لگتی ہو وہ اس صحت مند سے بہتر ہے جس کو بھوک نہیں لگتی۔

۵۔لوگوں نے تندرستی کی حالت میں درندوں کی طرح کھا کر اپنے کو بیمار کر ڈالا، میں نے ان کو پرندوں کی غذا دے کر صحت یاب کر دیا۔(۱۳)

مشروب:۔(وجعلنا من الماء کل شئی حئی)مشروبات میں تمام سیال اشیاء شامل ہیں لیکن پانی کو سب پر اولیت حاصل ہے اس لیے کہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیںاور پانی میں غذائیت نہ ہونے کے باوجود یہ غذا سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ پانی ہی غذا کو رقیق کر کے اس کے غذائی اجزء کو بدن کی باریک عروق تک نفوذ کراتا ہے جس کے نتیجہ میں بدن کی نشو ونما ہوتی ہے ۔پانی کے چند اہم اور بنیادی افعال حسب ذیل ہیں:

۱۔ جسمانی حرارت کو معتدل رکھتا ہے۔

۲۔غذاء کے لیے بدرقہ (Carrier ) ہے تاکہ غذاء تنگ راستوں سے نفوذ کر سکے اور غذاء کو اس قابل بنا دے کہ قوت ہاضمہ اس میں تصرف کر سکے۔

۳۔اعضاء کو تر رکھتا ہے جو جسم کے سبھی خلیات کو  زندہ رکھنے کے لیے لازم ہے۔

۴۔معدہ اور آنتوں کے افعال میں مدد دیتا ہے۔

۵۔ہضم شدہ غذا اور دوسرے مادوں کی تحلیل و ترقیق اور انجذاب میں مدد کرتا ہے۔

۶۔ جسمانی فضلات سے مل کر انہیں اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ بذریعہ پسینہ، بول وبراز اور تنفس خارج کر ہو سکیں۔

 مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے پانی کا پاک و صاف ہونا ضروری ہے بصورت دیگر یہی پانی نہ صرف غذاء کو فاسد کر دے گا بلکہ مختلف امراض کا سبب بھی بن جائے گا ۔چنانچہ رازی کا خیال ہے کہ

’’اگر پانی فاسد ہے تو وہ غذاوں میں بھی فسادپیدا کر دے گا خواہ وہ غذائیں کتنی ہی اچھی ہوں ‘‘ (۴)

یہی وجہ ہے کہ اطباء قدیم نے روز اول سے پانی کی صفائی اور اس کی اصلاح کے طریقوں پر خصوصی توجہ دی چنانچہ سب سے پہلے بقراط نے پانی کی اہمیت و افادیت ،اس کی طبی اہمیت نیز اس سے پیدا ہونے والے امراض اور اس کی صفائی کے طریقوں پر روشنی ڈالی اور پہلی بار اسی نے مریضوں کو پانی کو ابال کر اور چھان کر پینے کا مشورہ اور پہلا Water Filter ایجاد کیا جو طب کی تاریخ میں Hippocratic Sleeveکے نام سے مشہور ہے۔ درحقیقت Boiling and Filtration Technique کا موجد بقراط ہے ۔ بقراط کے بعد دیگر اطباء خصوصا عرب اطباء نے بھی پانی کی صفائی کے طریقوں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور بہت سے طریقے جیسے Storage and Sedimentation, Distillation, Flocculation, and Churning etc.    وغیرہ ایجاد کئے۔(۱۴) جن کی بنیادوں پر جدید طریقے جیسے Slow and Rapid Sand Filtration and RO Technique etc. وغیروجود  میں آئے۔ اطباء نکے مطابق صفائی و کدورت کے لحاظ سے پانی کی دو بنیادی اقسام ہیں:

۱۔ ماء جید الجوہر:۔جو ہر لحاظ سے پاک و صاف ہو جس میں کسی قسم کی ناپسندیدہ بو اور مزہ موجود نہ ہو۔ اچھے پانی کی علامات بتاتے ہوئے رازی لکھتے ہیں ۔

’’جب اسے گرمایا جائے تو جلد گرم ہو جائے اور ٹھنڈا کیا جائے تو جلد ٹھنڈا ہو جائے اس لیے کہ یہ اس کی رقت اور اس کے اجزاء کی لطافت پر دلالت کرتا ہے پھر یہ کہ وہ جتنا زیادہ ہلکا  اور رقیق ہو گا اتنا ہی اچھا ہو گا۔‘‘(۴)

۲۔ماء کدر:۔یعنی گدلا پانی جس میں بیرونی کثافت شامل ہو۔

پانی کی آلودگی ( Contamination)کا سبب اکثر و بیشتر ارضی غلاظت ہوا کرتی ہے جبکہ دیگر ذرائع جیسے انسانی فضلات، کیمیاوی اجزاء اور مردار وغیرہ بھی پانی کی آلودگی کا سبب ہوتے ہیں۔طبی اصطلاح میں اس قسم کے پانی کو ماء غلیظ یا ماء کدر (Contaminated Water ) کہتے ہیں جو بہت سارے امراض( Water Born Diseases)جیسے ہیضہ، تخمہ، اسہال ،حمی معوی،زحیر، یرقان،  جلدی امراض، حصاۃ البول،حصاۃ المثانہ، ورم جگر وغیرہ کا سبب ہوتے ہیں جن کا تفصیلی تذکرہ یونانی لٹریچر میں موجود ہے۔

 حفظ صحت کے لیے  ہمیشہ صاف پانی کااستعمال کرنا چاہیئے لیکن اضطراری صورت میںاگر کسی کو گدلا پانی پینے کی ضرورت پڑ جائے تو اس کے عوارضات سے بچنے کے لیے اطباء نے بے شمار طریقے بتائے ہیںجن پر عمل کر کے گدلے پانی کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے،چنانچہ رازی لکھتے ہیں۔

’’گدلا پانی اگر مجبورا پینا پڑے تو اس کے معا بعد پیشاب آور چیزوں کا استعمال کرنا چاہیے مثلا خربوزہ یا اگر خربوزہ نہ ہو تو اس کے تخم ۔ اکثر لو گ سفروں میں نمکین پانی اور گدلا پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن اس وقت وہ اس معاملہ میں سستی کرتے ہیں۔‘‘(۴)

اسی طرح دیگراطباء نے بھی اضطراری صورت میں گدلے پانی کے نقصانات سے بچنے کے بے شمار طریقے بتائے ہیں جن کا تذکرہ قدیم یونانی لٹریچر میں موجود ہے۔ مزید برآں اطباء نے حفظ صحت کے لیے پانی پینے کے اوقات اورطریقے بھی بتائے ہیں چنانچہ اطباء کے مطابق غذاء کے فورا بعدپانی نہ پیا جائے بلکہ کھانا کھانے کے بعد اتنا صبر کیا جائے کہ غذاء معدہ سے آنتوں میں اتر جائے لیکن پیاس کی وجہ سے اگر پانی پینا ہی پڑے تو ٹھنڈا پانی تھوڑی تھوڑی مقدار میں چوسنے کی شکل میں پیا جائے اور محض اتنا پانی پیا جائے جس سے غذاء بھیگ جائے تو یہ فعل ناجائز نہیں۔(۳) کھانے کے درمیان پانی کا استعمال انتہائی ردی ہے کیونکہ وہ معدہ کو سرد اور متحرک کر دیتا ہے جس کی وجہ سے ٖ حرارت معدہ اس کو پکانے سے قاصر رہتی ہے۔نہار منہ پانی پینا اس لیے مضر ہے کہ یہ حرارت غریزیہ کو بجھا دے گانیز استسقاء کا قوی اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ پانی جگر کو ٹھنڈا کر کر کے خون صالح پیدا کرنے کے قابل نہ چھوڑے گا ،فضو ل زیادہ پیدا ہوں گے جن سے اعضاء کا تغذیہ نہ ہوسکے گا اور استسقاء لحمی ہو جائے گا۔ مزید برآںنہار منہ پانی جس قدر سر د ہو گااسی قدر زیادہ مضر ہو گا (۱۳) اسی طرح رات کو پانی پینا بھی اطباء کے نزدیک مضر ہے ۔ربن طبری نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’چونکہ پیاس بخارات غلیظہ کی وجہ سے ہوتی ہے اس لیے اگر کوئی شخص رات کو (سوتے سے اٹھ کر )پانی پی لے گا تو اس کے معدہ کی حرارت غریزیہ کمزور ہو جائے گی اور اگر پانی نہ پیئے گا توحرارت غریزیہ قوی رہے گی اور اس میں اتنی قوت رہے گی کہ وہ صحیح نضج کے فعل کو انجام دے سکے اور بخارات غلیظہ کو تحلیل کر سکے۔‘‘ (۸)

اسی طرح اطباء نے مختلف اقسام کے پانیوں کے فوائد اور نقصانات بھی بتائے ہیں جیسے کوئیں کا پانی، بارش کا پانی، اولہ کا پانی، ندی یا تالاب کا پانی یا پھر مختلف اشیاء کی آمیزش کا پانی جیسے نمکین پانی،پھٹکری کا پانی، لوہے کا پانی وغیرہ جن پر تفصیلی بحث یہاں ممکن نہیں ۔

۳۔حرکت و سکون بدنی:۔حرکت حرارت غریزیہ میں انتعاش پیدا کرتی ہے،جو قوی اور افعال کی بنیادی ضرورت ہے خاس طور سے قوت طبیعیہ کے لیے جو ہضم و استحالہ کے بعد فضلات کا بدن سے اخراج کرتی ہے۔ (۱۲)اگر یہ فضلات بدن میں جمع ہوتے رہیں اور ان کا اخراج نہ ہو تو یہ رطو بت غریبہ میں اضافہ کریں گے جو حرارت غریزیہ کو بجھا دے گی۔ (۱۲)اور قوی کو کمزور کر دے گی  اور جب قوی کمزورہوں گے تو احتقان او راستفراغ دونوں متاثر ہو گے۔اس لیے صحت کی بقاء اور امراض سے تحفظ کے لیے جسمانی حرکت اور سکون دونوں ناگزیر ہیں ۔ جسمانی حرکت کو اطباء ریاضت سے تعبیر کرتے ہیں۔حرکت (ریاضت )اعضاء کے تغذیہ، نشو و نما اور تقویت کے ساتھ دوران خون کو بڑھاکراورExcretory Systemکے افعال کو بہتر کر کے بدن سے فضلات کے اخراج میں مدددیتی ہے۔ریاضت قلب اور جگر کو بھی تقویت پہنچاتی ہے جس پر صحت کا دارومدار ہے۔اس لیے ہرشخص کو اپنی عمر،صحت ،طاقت اور وقت کے لحاظ سے ریاضت کرنا چاہیئے جیسا کہ رازی کا خیال ہے کہ

’’ہر شخص کو چاہیئے کہ وہ بقدرطاقت و برداشت ریاضت کرے، البتہ جب طبیعت بوجھل ہونے لگے اورتھکن محسوس ہو تو ریاضت ختم کر دے۔‘‘  (۴)

بلا شبہ ریاضت صحت کے لیے مفید ہے لیکن اس کے کچھ آداب اور اوقات بھی ہیں جن کی پابندی کرنا ضروری ہے ورنہ اس ریاضت سے فائدہ کے بجائے نقصان بھی ہو سکتا ہے ۔ریاضت کا سب سے بہتر وقت صبح کی ضروریات سے فراغت کے بعد کاہے لیکن بصورت مجبوری شام کے وقت بھی ریاضت کی جا سکتی ہے ۔خالی پیٹ یا غذاء کے فورا بعد ورزش کرنا مضر ہے ۔سب سے بہتر وقت ورزش کے لیے وہ ہے کہ جب کھانا آنتوں میں ہضم ہو چکا ہو اور اعضاء میں جذب ہو رہا ہواور جزو بدن ہو رہا ہو۔‘‘ (۱۵)

اسی طرح رازی نے ریاضت کے موانعات ( Cotraindications)کے تعلق سے لکھا ہے کہ

        ’’اس شخص کو ریاضت نہیں کرنی چاہیئے جس میںامتلاء ہو یا جو روزہ سے ہو یا اس نے غذا استعمال نہ کرنے کا عہد کر رکھا ہو۔اس لیے کہ اکثر اوقات ان حالات میںریاضت کرنے سے مرض لاحق ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔دوران ریاضت بدن کے کمزور عضو کو زیادہ حرکت دینے سے احتراز کرنا چاہیئے اور اسے دوسرے اعضاء کے مقابلہ میں غیر متحرک رکھنا چاہیئے،مثلا جس شخص کے پیروں میںزخم یا مرض دوالی ہو اسے ریاضت کے دوران زیادہ حرکت ہاتھوں کو دینی چاہیئے اسی طرح اس کے بر عکس۔‘‘ (۴)

ریاضت اگر کھانا کھانے سے پہلے کی جائے تو صحت کے لیے مفید ہوتی ہے لیکن اگر کھانا کھانے کے بعد کی جائے تویہ بدن میں سدہ پیدا کر سکتی ہے جس کے نتیجہ میں بہت سے Obstrutive Disease پیداہو سکتے ہیں۔ اچھی صحت کے لیے مناسب ریاضت ،مناسب وقت پر اور مناسب مقدار میں کرنی چاہیئے۔حفظ صحت کے ساتھ ساتھ بہت سے امراض میںبغرض علاج بھی ریاضت کی جا تی ہے جو متاثرہ عضو کے لحاظ سے ہوتی ہے جسے اطباء ریاضت خصوصی کہتے ہیں در حقیقت یہی ریاضت خصوصی جدید سائنس کے شعبہ ریاضت (Physiotherapy ) کی اساس ہے۔اطباء نے ریاضت خصوصی کے ضمن میںجسم کے مختلف اعضاء جیسے قلب،ریہ،اعضاء و جوارح،اعصابی امراض اور آنکھ وغیرہ کے لیے الگ الگ ریاضتیں بتائی ہیں ۔جن پر عمل کر کے بہت سے امراض سے بچا جا سکتا ہے،جبکہ آرام پرستی اورریاضت نہ کرنے کی صورت میںبہت سے مزمن امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس، سمن مفرط اور وجع المفاصل وغیرہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

سکون بدنی:۔سکون ہضم و استحالہ میں مدد کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اچھے اخلاط بنتے ہیں جن پر اچھی صحت کا دارو مدار ہوتاہے ۔لیکن حرکت و سکون دونوں کی زیادتی مبرد و مرطب ہوتی ہے جو حرارت غریزیہ کو متاثر کر کے قوی اور افوال کو متاثر کرتی ہے ۔زیادہ حرکت رطوبت غریزیہ کو تحلیل کر کے کم کرتی ہے جبکہ زیادہ سکون رطوبت غریبہ میں اضافہ کاسبب ہوتی ہے جو حرارت غریزیہ کو بجھا سکتی ہے۔مزید برآں سکون کی زیادتی کی صورت میں بدن میں بلغمی رطوبات کے اضافہ کے باعث بلغمی امراض بالخصوص وجع المفاصل اورسمن مفرط وغیرہ کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

بہت سے امراض میں سکون کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ورم، کسر،خلع وغیرہ جبکہ اس کے برعکس بعض امراض جیسے فالج وغیرہ میںمتاثرہ عضو کو مخصوص حرکت یا ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔حسب ضرورت حرکت اور سکون دونوں کا استعمال کرنا چاہیئے۔

۴۔حرکت وسکون نفسانی:۔حرکت وسکون بدنی کی طرح حرکت و سکون نفسانی بھی ایک ناگزیر سبب ہے ۔ نفسانی حرکت دراصل روح کی حرکت اور سکون نفسانی، روح کے سکون کا نام ہے ۔ اطباء کے مطابق نفسانی حرکات میں دو قوتیں شامل ہوتی ہیں ۱۔قوت مدرکہ( Sensory Faculties) ۲۔قوت محرکہ (Motor Faculties ) ۔یہی دونوں قوتیں تمام نفسانی حرکات و سکون کو کنٹرول کرتی ہیں ۔تمام حرکات نفسانیہ (حرکت و سکون )میں روح اور خون بدن کے اندر یا باہر کی طرف حرکت کرتے ہیں۔روح اور خون جس طرف حرکت کرتے ہیں اس طرف حرارت بڑھتی ہے اور جس طرف سے حرکت کرتے ہیںاس طرف برودت بڑھتی ہے ۔حرارت و برودت کا یہ سلسلہ جب غیر معتدل ہو جاتا ہے تو باعث امراض ہوتا ہے اور اگر یہ بے اعتدالی حد سے تجاوز کر جائے یا روح کی اس حرکت میں اچانک شدید افراط ہو جائے تو روح یک لخت تحلیل ہو جاتی ہے ،جس کا نتیجہ ہلاکت بھی ہو سکتاہے چنانچہ کبھی اچانک خوشی کی انتہا بھی غشی یا موت کا سبب بن سکتی ہے جسے شادی مرگ کہا جاتا ہے اور کبھی اچانک فرط غم بھی غشی یا موت کا سبب ہو سکتا ہے جسے صدمہ کہا جاتا ہے ۔(۱۵)۔سکون نفسانی کی زیادتی ہمیشہ مبرد اور مبلد ہوتی ہے یعنی اس سے نفس میں بلادت پیدا ہوتی ہے اور آدمی کند ذہن ہو جاتا ہے ۔ اس لیے سکون نفسانی کا اعتدال میں رہنا ہی صحت کے لیے مفید ہے ۔

 نفسانی عوارضات (Pschychological Disorders ) اور نفسیاتی علاج(Psychiatric medicine ) کوسب سے پہلے ابن سینا نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا چنانچہ شفاء الملک عبداللطیف فلسفی کی تحقیق کے مطابق ’’شیخ الرئیس وہ پہلا شخص ہے جس نے علم نفسیات کا تعلق علم طب سے ثابت کیا ہے ،اس نے خیر وشر ،لذت والم،نفرت ومحبت ، کینہ و عداوت،بغض و حسد زکاوت و بلادت غرض یہ کہ تمام اعراض نفسانیہ کا مرکز قلب کو قرار دیا ہے اور اس کی ساخت ،اس کی مختلف قسم کی رطوبات او راخلاط کو مختلف نفسانی کیفیا ت کا سبب قرار دیا ہے ،جن کی اصلاح و علاج ایک ماہر طبیب کر سکتا ہے ۔‘‘(۱)چناچہ ابن سینا کی کتاب ’’کتاب الادویۃ القلبیۃ ‘‘دل کے امراض وعوارضات اور علاج کے موضوع پر پہلی جامع کتاب ہے ۔

انسانی نفسیات اور دماغی صحت(Mental Health)پر انسانی مزاج اور اخلاط کا بھی اثر ہو تا ہے چنانچہ جو مزاج اور خلط بدن میں غالب ہو تی ہے اسی کی مناسبت سے نفسانی حرکات کاظہور ہوتا ہے چنانچہ جب خشکی یا سوداوی خلط غالب ہو جاتی ہے تو خوف ،وحشت اور برے تخیلات پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب صاف اور بہترین خون کی زیادتی ہو تی ہے تو فرحت و سرور حاصل ہو نے کے ساتھ ہی حوصلے بھی بلند ہوتے ہیں۔جب مزاج میں حرارت اور صفراء کی زیادتی ہوتی ہے تو نفس میں بہادری اور تیزی آجاتی ہے ۔ جب رطوبت ا ور بلغم زیادہ ہو جاتا ہے تو بزدلی، کاہلی اور سستی پیدا ہو جاتی ہے۔(گیلانی) (۳)

 ضرورت سے زیادہ غصہ،مستقل رنج و غم،اداسی، خوف و ہراس ،حسد وجلن وغیرہ صحت پر منفی اثرات ڈالتے ہیں ۔اسی طرح  فرحت وخوشی،سرور و انبساط کی کیفیات صحت پر مثبت اثر کرتی اور Promotion of Health and well being میںمعاون ہوتی ہیں ۔ منفی سوچ (Negative Thinking ) انسانی صحت کے لیے مضر جبکہ مثبت سوچ ( Positive Thinking)انسان کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ نفسیاتی عوامل (Psychological factors ) جیسے مستقل ذہنی تناو، ضرورت سے زیادہ کام کا دباو،مستقل الجھن اور بے چینی وغیرہ حرکات قلبHeart Rateکو بڑھا کر مختلف Life Style Disorders جیسے Hypertension،Depression،Diabetes اور امراض قلب وغیرہ کا سبب ہوتے ہیں ۔لہذا حفظ صحت کے لیے مثبت فکر کے ساتھ ساتھ نفسانی حرکت و سکون کا اعتدال میں رہنا ناگزیر ہے۔اور اگر کبھی منفی سوچ یا نفسانی عوارضات لاحق ہوں تو اس کے لیے پہلے دوا (Medication)کے بجائے (Meditation) جیسے کونسلنگ، عبادت،ذکر واذکار،مراقبہ ،مطالعہ، سیر وتفریح ، میوزک وغیرہ یا پھرعلاج بالتدبیر( جیسے دلک ،حمام، ریاضت، فصد، حجامت، ارسال علق، اوردیگر استفراغات  وغیرہ ) کی تدابیر استعمال کی جائیں ۔

۵۔نوم و یقظہ :۔(وجعلنا نومکم سباتا وجعلنا اللیل لباسا)دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد رات کو سکون کی نیند ناگزیر ہے اس لیے کہ نیند نہ صرف تکان کو دور کرتی ہے بلکہ یہ ہضم و استحالہ کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔معتدل نیند دوران خون کو اعتدال پر لانے کے ساتھ ساتھ بدن کو بھی تقویت دیتی ہے۔لیکن زیادہ نیندبدن کے اخلاط میں فساد ،مزاج میں برودت، کمزوری،سستی اور درد سر کے ساتھ ساتھ بدن میںبلغمی رطوبات کے اضافہ کے باعث بہت سے بلغمی امراض جیسے وجع المفاصل،سمن مفرط وغیرہ کا سبب ہوتی ہے ۔اسی طرح زیادہ جگنا بدن میں خشکی اور بد ہضمی کا باعث ہوتاہے ۔بقول ابن رشد:۔

’’واما النوم فان فعلہ الانضاج والترطیب،و السہر فعلہ التحلیل والاستفراغ واطفاء الحرارۃ الغریزیۃ،ولذلک اذا افرط النوم اطفاء الحرارۃ الغریزیۃ ورھل الاجسام وان افرط السہرایضا یبس الاجسام،وحل الحرارۃ الغریزیۃ‘‘۔(۱۱)

نیند حرارت غریزیہ کو بدن کے اند ر بند کر کے سارے قوائے طبیعیہ کو قوی کرتی ہے لیکن قوائے نفسانیہ کو اس لیے کمزور کرتی ہے کہ یہ روح نفسانی کے مسالک (راستوں )کو تر اور ڈھیلا کردیتی ہے اور تحلل کو روک کر جوہر روح کو مکدر بنا دیتی ہے۔(۳)نیند کے دوران جو مواد بدن میں ہضم اورنضج کے قابل ہو تے ہیں نیند انہیں خون بنا دیتی اور گرم کر دیتی ہے پھر یہ گرم چیز جب بدن میں پھیلتی ہے تو بدن میں طبعی گرمی پیدا کر دیتی ہے۔اور جب نیند گرم صٖفراوی اخلاط کو بدن کے اندر پاتی ہے اور یہ دیر تک رہتی ہے تو یہ بدن میں غیر طبعی گرمی پیدا کر دیتی ہے۔اسی طرح جب یہ کوئی ایسی خلط پاتی ہے جسے قوت ہاضمہ ہضم نہیں کر سکتی (جیسے بلحغم غلیظ)تو اس خلط کو بدن کے اندر پھیلا کر بدن میں برودت پیدا کر دیتی ہے۔‘‘ (۳)جب نیند بدن کو غذاسے خالی پاتی ہے تو روح کو تحلیل کر کے بدن میں برودت پیدا کر دیتی ہے۔(۹)

نیند کی کمی حرارت میں کمی، ذہنی کمزوری،ہضم و استحالہ میں خرابی کے سبب امراض کا سبب ہوتی ہے۔طبعی نیند خون کو معتدل رکھنے کے ساتھ ساتھ بدن کو تقویت پہنچاتی اور تمام قوی اور افعال کو معتدل رکھتی ہے۔

اطباء نے حفظ صحت کے لیے نیند کے تمام پہلوئوںجیسے سونے کی جگہ ،وقت اور سونے کے طریقے بھی بتائے ہیں ۔چنانچہ اطباء کے مطابق فرش زمین پر(نرم بستر کے بغیر)سونا اعصاب کے لیے مضر ہے،گاہے اس سے تشنج، تمدد اور فالج پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ زمین کی سختی سے اعصاب رگڑ کھاتے ہیں اور زمین کی برودت اعصاب تک پہنچتی ہے۔نرم بستروں پر سونا مسمن بدن ہے۔دھوپ مین سونا دماغ کو بھاری کر دیتا اور درد سر کا باعث ہوجاتا ہے۔ چاندنی رات میں سونامحرک خون،موجب رعاف اور شہوت باہ کا محر ک ہوتاہے کیونکہ چاندنی میںرطوبات بدنیہ جوش میں آجاتی ہیں۔(۳)

 رازی نے جالینوس کے حوالے سے لکھاہے کہ ’’طبعی نیند (۸۔۶ گھنٹے)سے اچھے اخلاط بنتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص زیادہ (۱۰۔۸ گھنٹے)سوتا ہے تو اس سے بدن میں فضلات کا اضافہ ہوتا ہے۔اور اگر کسی کو بے خوابی کی شکایت ہے تو اس سے بدن میں صفراوی خلط کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ (۱۰)جبکہ شیخ کے مطابق بے خوابی نہ صرف ہضم و استحالہ کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے قوت فکر اور فیصلہ بھی متاثر ہوتی ہے (۱۶)

سونے کا طریقہ اطباء کے مطابق یہ ہے کہ کھانا کھانے کے فورا بعد نہیں سونا چاہیئے کہ غذا معدہ میں تیر رہی ہو۔(۳) اور اگر سونا ضروری ہو تو پہلے نصف گھنٹہ داہنی کروٹ سوئے تاکہ غذا فم معدہ سے قعر معدہ میں اتر جائے اور کبد کو غذا کے جذ ب کرنے میں سہولت ہو اس کے بعد بائیں کروٹ زیادہ دیر تک لیٹا رہے تاکہ جگر معدہ پر حاوی ہو جائے اور ہضم جید ہونے کے بعد دائیں کروٹ لیٹے تاکہ غذاء منہضم اپنے میل طبعی کی وجہ سے جگر کی طرف بآسانی جذب ہو جائے۔اگر کوئی شخص کھانے کے اتنی دیر بعد سوتا ہے کہ غذا کیلوس بن کر منجذب ہونے لگی ہے تو وہ دائیں کروٹ سو سکتاہے۔ (۳؍۱۲)سونے کے دوران اگر سرہانہ بلند ہونے کے بجائے پست ہوتا ہے تواکثر ہضم خراب ہو جاتا ہے۔ (۳)پیٹ کے بل سونے سے ہضم تو اچھا ہوتا ہے کیونکہ اس سے حرارت غریزیہ گھٹ کر اور محصور ہو کر زیادہ ہو جاتی ہے لیکن آنکھ کے لیے یہ صورت مضر ہے۔چت سونااس لیے برا ہے کہ اس سے برے امراض کی استعدد پیدا ہو جاتی ہے مثلا سکتہ، فالج کابوس  وغیرہ کیونکہ چت لیٹنے سے فضلات (دماغ سے)پیچھے کی طرف چلے جاتے ہیںاور اپنے ان راستوں کی طرف بہنے سے رک جاتے ہیںجو سامنے کی طرف واقع ہیں،مثلا منخرین اور تالو کی جھلیاںجن کی راہ فضلات بلغمیہ خارج ہوا کرتے ہیں۔(۳)

دن میں سونا صحت کے لیے مضر ہے کیونکہ یہ بدن کا رنگ خراب کرتا ہے،طحال کو نقصان پہنچاتا ہے،منہ میں بدبو پیدا کرتا ہے اور تمام نفسانی قوتوں کو سست کر کے ذہن کو کند کرتا ہے،ان سب کا سبب طبیعت کا تحیر ہے۔لیکن دن میں سونے کی عادت کو اچانک چھوڑ دینا بھی صحت کے لیے مضر ہے اس لیے اس عادت کو رفتہ رفتہ اور بتدریج چھوڑنا چاہیئے کیونکہ اچانک چھوڑنے سے طبیعت میں ضعف پیدا ہو جاتا ہے۔ بد خوابی یعنی نیند و بیداری کی درمیانی حالت میںمحض کروٹیں بدلنا بھی صحت کے لیے مضر ہے اس لیے کہ اس کشمکش سے طبیعت متحیر ہو جاتی ہے اور وہ اندر کی طرف متوجہ ہو کرنہ تو ہضم غذا کا کام کر پاتی ہے اور نہ باہر کی طرف متوجہ ہو کر دفع فضلات کا کام کر پاتی ہے اور حرارت غریزیہ کبھی اندر طرف متوجہ ہوتی ہے تو کبھی باہر کی طرف ،جس کے نتیجہ میں غذا میں فساد ہوتا ہے اور اس فساد کی وجہ سے نفخ شکم، ریاح اور قراقر پیدا ہوتے ہیں۔(۹)

زیادہ سونے سے مزاج میں برودت پیدا ہو تی ہے جو کمزوری ،سستی اور درد سر کا سبب ہوتی ہے۔ نیند کی بے اعتدالی بہت سے   Life Style Disorders  Chronic andجیسے ذیابیطس،سمن مفرط ،امراض قلب اوردیگر امراض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔خالی پیٹ زیادہ دیر تک سونا حرارت غریزیہ کو کمزور کرتا ہے۔

جگنا بھی جسمانی حرکات اور ہاضمہ کے لیے ضروری ہے لیکن ضرورت سے زیادہ جگنا بدن میں خشکی ،بدہضمی کے ساتھ دماغ میں خشکی اور دماغی کمزوری کا باعث ہوتاہے جبکہ اعتدال سے جگنا حرارت غریزیہ کے انتعاش کے ساتھ حسی اور اعصابی افعال کو قوی کرتا ہے۔

 طبعی نیندسے طبیعت کو دو طرح کی تقویت حاصل ہوتی ہے ایک توذہنی و جسمانی سکون ،دوسرے ہضم جیدکے ذریعہ اچھے اخلاط کی پیدائش ہوتی اور ان کا نضج ہوتا ہے جس سے حرارت غریزیہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔لیکن موجودہ طرز معاشرت میں زندگی کی بھاگ دوڑ نے طبعی نیند کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جس کے نتیجہ میں بے شمار صحتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور گھریلو و معاشرتی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں اس لیے اچھی صحت کے لیے اچھی غذا کے ساتھ طبعی نیند کا بھی اہتمام کرنا چاہیئے ۔

۶۔احتباس و استفراغ :۔بدن کے اندر جن اشیاء کو بدن کی نشو ونما اور تولید کے لیے طبعی طور پر رکنا چاہیئے، جیسے ماکولات و مشروبات کو ہضم و استحالہ کے بعدجزو بدن بننے تک رکنا ،طبعی احتباس ہوتا ہے اور جن فضلات کا اخراج طبعی طور پر ضروری ہے، جیسے بول وبراز،لعاب دہن، پسینہ اور منی وغیرہ کا نکلنا،طبعی استفرغ ہو تا ہے۔احتباس و استفراغ کے اس عمل میں سب سے اہم اور بنیادی رول طبیعت کا ہوتا ہے اور طبیعت ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کن اجزاء کو بدن کے اندر روکنا اور کن اشیاء کا اخراج کرنا ہے۔صحت کے لیے مفید اور کار آمد اجزاء جیسے لحمیات،شحمیات،وٹامنز ، منرلس اور مائی اجزاء کو  بدن کی تقویت،توانائی، نشوو نماا ور تولید کے لیے طبیعت قوت ماسکہ کے ذریعہ بدن کے اندر روک لیتی ہے جبکہ بدن کے اندر موجود فضلات سے طبیعت کو تکدر ہوتا ہے تو وہ انہیں فوری طور پرقوت دافعہ کے ذریعہ دفع کر دیتی ہے جیسے بول و براز، لعاب دہن، منی،دم حیض اور بلغمی رطوبات وغیرہ۔یہ دونوں طبعی عمل صحت کی بقاء اورتحفظ کے لیے نا گزیر ہیںلیکن جب یہی احتباس و استفراغ غیر طبعی ہوجاتے ہیں تو امراض کا سبب بن جاتے ہیں۔

غیر طبعی احتباس سے امراض سوء مزاج جیسے عفونت ،حرارت غریزی کا احتقان اور شدت احتقان کی صورت میں حرات غریزیہ کا ٹھنڈا ہو جانا جس کے نتیجہ میں برودت  بڑھ جاتی ہے اور بدن میں رطوبت کا غلبہ ہو جاتا ہے ۔امراض سوء ترکیب جیسے سدہ،استرخاء،تشنج رطب وغیرہ ہو سکتے ہیں جبکہ امراض تفرق اتصال جیسے رگوں کا پھٹ جانااور ان سے اخلاط کا پھوٹ نکلنا وغیر،امراض مرکبہ جیسے اورام و بثور وغیرہ ہو سکتے ہیں ۔ امراض احتباس کے بد ترین اسباب میں سب سے اہم تخمہ ہے خصوصا وہ تخمہ جومستقل خلوء معدہ کی عادت (جیسے خشک سالی،قحط سالی اور رمضان وغیرہ) کے بعدہوتا ہے اور لوگ طویل مدت کے بعد بے احتیاطی کے ساتھ ڈٹ کر کھانے لگتے ہیںاور اکثر بیمار ہو جاتے ہیں۔غیر طبعی احتباس کا ایک اہم سبب سدہ (Embolus؍؍Obstruction)بھی ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں بہت سے امراض ہو سکتے ہیں،چنانچہ غذائی سدہ غذا کے راستوں (GIT)کو مسدود کرکے مہلک بیماریوں کا سبب ہو سکتا ہے،بلغمی یا ہوائی سدہ(Air Embolus) روح کے منافذکو مسدود کرکے صاف ہوا (Oxygen)کو اعضاء تک پہنچنے سے روک دیتا ہے جس کے نتیجہ میں بسا اوقات موت بھی ہو سکتی ہے۔(۵) دموی سدہ (Thrombus)دوران خون کے امراض خصوصا امراض قلب کا سبب ہو سکتاہے۔اسی طرح بلغمی رطوبات (خصوصا شحمیات )کے اعضاء میں غیر طبعی احتباس سے مزاج میں برودت اور بدن میں سستی و کاہلی بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجہ میں جسمانی قوی اور افعال بھی متاثر ہوتے ہیںاوربہت سے Life Style Disorders خصوصا سمن مفرط کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ (۵)

غیر طبعی استفراغ بھی بہت سارے امراض کا سبب ہوتا ہے۔غیر طبعی استفراغ مزاج میں برودت و یبوست کا باعث ہوتا ہے۔ مزید برآں خارج ہونے والی خلط کے لحاظ سے بھی عوارضات پیدا ہو تے ہیں ،چنانچہ اگر کسی ایسی خلط کا استفراغ ہوتا ہے جس سے حرارت غریزیہ کی پرورش ہوتی ہے اور حرارت غریزیہ میں اشتعال ہوتا ہے تو بدن میں برودت بڑھ جاتی ہے ۔اگر خارج ہونے والی خلط بلغم یا معتدل خون ہے تو اس سے بدن میں صفراء جیسی گرم خلط کا بدن میں غلبہ ہو جاتا ہے جس سے مزاج میں حرارت لاحق ہو جاتی ہے،اگر کسی یبوست پیدا کرنے والی خلط کا استفراغ اعتدال کے ساتھ ہوتا ہے تو رطوبت کا غلبہ ہو جاتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں حرارت غریزیہ کمزور ہو کر غذا کو مکمل طور پر ہضم کرنے پر قادر نہیں ہوتی اس لیے بدن میں بلغم کی کثرت ہو جاتی ہے ۔جبکہ کثرت استفراغ (خواہ کسی خلط کا ہو)سے جوہر اعضاء اور طبیعت میں برودت و یبو ست پیدا ہو تی ہے اگرچہ بعض استفراغات کے نتیجہ میںحرارت غریبہ اور غیر مفید رطوبات بھی پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔گاہے شدت استفراغ کے بعد امراض آلیہ (امراض تراکیب) میں سے سدہ اس لیے پیدا ہو جاتا ہے کہ عروق میں (افراط استفراغ سے)اتنی یبوست لاحق ہو جاتی ہے کہ یہ بندہو جاتے ہیں،اسی طرح گا ہے افراط استفراغ کے بعدتشنج اور کزاز بھی لاحق ہو جاتا ہے۔(۳)

عمومی زندگی میں احتباس غیر طبعی کی عام مثال قبض ہے جس کے نتیجہ میں بہت سے امراض پیدا ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے قبض کو ام الامراض بھی کہا جاتا ہے جبکہ استفراغ غیر طبعی کی عام مثال اسہال اورہیضہ (Cholera) ہے جس میں غذائی اجزاء کے ساتھ ساتھ مائی اجزاء،نمکیات اورElectrolites کے شدیداستفراغ کے نتیجہ میں Dehydrationاور دیگر عوارضات پیدا ہو تے ہیں۔

استفراغ کااستعمال معالجاتی مقاصد(Therapeutic Purposes) کے لیے بھی کیا جاتا ہے جس کابنیادی اور اہم مقصد بدن سے مواد فاسدہ (Morbid Materialsْ)یا Toxinsکا حسب ضرورت اخراج کرکے بدن کو Detoxifyکرناہے جس کے ذریعہ بہت سے Chronic and Life Style Disorders کا علاج کیا جاتا ہے ۔اس قسم کا استفراغ دراصل علاج بالتدبیر (Regimental Therapy) کا اہم حصہ ہے جیسے فصد، حجامت بالشرط،ارسال علق، اسہال، ادرار، قئے وغیرہ ۔

حفظ صحت کے لیے احتباس و استفراغ کا طبعی ہونا ناگزیر ہے جبکہ ان کا غیر طبعی ہونا امراض کا باعث،اس لیے ہر شخص کو قبض و یلئین پر خاص دھیان دینا چاہیئے کیونکہ اکثر بیماریاںان پر توجہ نہ دینے کے سبب ہی پیدا ہوتی ہیں۔

 ہر شخص کو حفظ صحت کے لیے اسباب ستہ ضروریہ پر حسب ضرورت و استطاعت عمل کرنا چاہیئے تاکہ امراض سے محفوظ رہنے کے ساتھ ہی ان کی روح ،حرارت غریزیہ ا ور رطوبت غریزہ کا تحلل کم سے کم ہو اور وہ اچھی صحت کے ساتھ اپنی طبعی عمر کو پہنچ سکے ۔

مراجع

۱۔ توضیحات اسباب ستہ ضروریہ۔حکیم ابو وارث جمیل بھارت آفسیٹ پریس،نئی دہلی۲۰۰۶ ؁ء،ص،۳، ۵۱،۶۳، ۶۵، ۱۲۷

۲۔کامل الصناعہ۔جلد اول و دوم،علی ابن عباس مجوسی۔ مطبع نولکشور لکھنئو  ۱۸۸ ؁ء،ص ۱۹،۸۴، ۲۰۳، ۲۰۵، ۲۲۸،۲۳۷، ۲۷۱، ۲۸۲، ۲۸۶، ۲۸۸، ۲۹۲، ۲۹۳

۳۔ ترجمہ و شرح کلیات قانون جلد،۱ول و دوم ۔ابن سینا،مترجمہ حکیم کبیرالدین،حیدرآباد،۱۹۵۴ ؁ء،ص ،۱۰۹، ۱۱۰، ۲۶۸، ۲۳۰، ۲۶۸،۲۳۰،۲۶۹،۲۷۱،۱۲۵،۱۲۶،۱۴۵،۲۹۸،۷۰،۸۲۔۱۸۱،۱۵۵،۱۹۳،،۳۱۳،۱۶۷،۷۸۱،۱۷،۱۸۰،۱۷۴، ۱۶۸،۷۸۶،۱۵۸،۱۵۹،۱۵۵،۱۶۵،۱۹۴،۱۸۰،۱۷۰،۱۷۴

۴۔کتاب المرشد۔زکریا رازی۔ترقی اردوبیورو،نئی دہلی،۲۰۰۰ ؁ء، ص۱۰۳،۳۷،۱۰۴،۱۱۲،۳۷،۳۸،۳۹،۴۳،۴۴

۵۔ کتاب الماٗۃ۔ابو سہل مسیحی۔سی سی آر یو ایم،نئی دہلی، ۲۰۰۸ ؁ء  ص۹۳،۴۶،۵۲،۸۵،۲۴۲

۶۔ذخیرہ خوارزم شاہی، جلد،اول۔اسمعیل جرجانی۔ادارہ کتاب الشفاء دہلی،۲۰۱۰ ؁ء ص۲۸۹

۷۔کتاب الکلیات۔ابن رشد،  سی سی آر یو ایم ،نئی دہلی ،ب ت ،ص،۱۶۳،۳۵۵،۳۶۵

۸۔فردوس الحکمہ۔ ربن طبری ۔ہمدرد فاونڈیشن پریس،کراچی،ب ت، ص، ۳۳،۳۴۳،۳۶۸،۳۲۷،۳۸۳،۲۸۳

۹۔کتاب الکلیات،جلد اول،حصہ عملی۔حکیم محمد حسن قرشی۔مکتبہ مشیر الاطباء، لاہور،۱۹۸۰ ؁ء، ص۱۱۸،۱۲۸،۱۲۷

۱۰۔کتاب الحاوی۔جلد،۲۳۔زکریا رازی،دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد، ۱۹۵۸ ؁ء،ص،۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۴،۲۷،۹۰،۶۸

۱۱۔کتاب الکلیات۔عربی  ایڈیشن۔ابن رشد،سی سی آر یو ایم،دہلی،۱۹۸۴ ؁ء،ص۳۹۵،۳۹۰

۱۲۔کلیات نفیسی جلد دوم ۔برہان الدین نفیس ۔ اردو بازار ،لاہور، ۱۹۹۴ ؁ء ،ص۱۹،۱۸، ۲۳،۳۱،۳۲،۸۴، ۱۸۸، ۱۸۹، ۲۱۴، ۲۳۴

۱۳۔عیون الانباء  فی طبقات الاطباء۔ابن ابی اصیبعہ ۔سی سی آر یو ایم، دہلی، ۱۹۹۵ ؁ء،ص،۷۴

۱۴۔            Dr Faiyaz Ahmad. Evalution of Water Purification Methods- International Journal of Unani and Integrative Medicine 2018; 2(2): 108-116

۱۵۔اصول طب۔حکیم سید کمال الدین حسین ہمدانی۔این سی پی یو ایل،دہلی،۲۰۰۶ ؁ء، ص، ۱۷۵،۱۷۶،۱۷۷، ۱۷۸،۱۸۷

۱۶۔The General Principles of Avicenna’s Canon of Medicine: Mazhar Husain Shah, Idara Kitabus Shifa, New Delhi: 2007: pp181.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو