نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Urdu Editorial of Biswas Magazine بسواس کا اردو اداریہ از ڈاکٹر سید عارف مرشد مدیر بسواس

آداب!

            دوستو! دو ہزار انیس کی بیماری جس کا پرچار و پرسار ۲۰۱۷ سے ہی ہورہاتھا۔ تبھی کٹ خریدی گئی تھی۔ اور بہت سارا مال سرکاروں نے ان پی پی ای کیٹ خرید نے کے بہانے جماع کیا۔ اور بیماری کا یہ ڈھونگ بھی بخوبی چلا۔ عوام بھی اس کے جھانسے میں آگئی اور بہت ساروں نے  اپنے چاہنے والوں کو کھویا۔ کئی بچے یتیم ہوگئے۔ کئی عورتیں بیوہ ہوگئی۔  دیش کی معاش تباہ ہوگئی۔ ایک طرف بسواروپ اور ان کی ٹیم لگاتار عوام کو جگانے کی کوشش کرتی رہی۔ کچھ جاگ۔ اور کچھ نہیں جاگے۔ کچھ بہت سارا نقصان ہونے کے بعد جاگے۔ بحر حال ان دو تین سالوں میں جو ہوا بہت برا ہوا۔ غریب اور غریب امیر اور امیر ہوا۔ ایسے میں میڈیکل مافیا نے بھی اپنی دکانیں چمکائی۔ کئی ایک نئے نئے دواخانوں کی اوپننگ بھی ہوئی۔ کئی ایک کاروباری اپنے دیگر کاروبار کو چھوڑ چھاڑ کر اپنا پیسہ میڈیکل انڈسریز میں لگایا۔ اور معقول منافع کمایا۔

            شاید دنیا کی یہ پہلی بیماری ہوگی جو پہلے ہی اطلاع دے دے کر آتی ہے۔ پہلے پہلی لہر جو بزرگوں پر آئی۔ پھر دسری لہر ادھیڑ عمر یا نواجوانوں پراور تیسری لہر بچوں پرآئی۔ اور اب یہ ڈرامامہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہاہے اور اب چوتھی لہر کی بات کہی جارہی ہے۔  چوتھی لہر کا میڈیا کے ذریعہ پرچار کیا جارہاہے۔ مختلف تاریخ بھی بتائی جارہی ہے۔ Urdu Editorial of Biswas Magazine

            دوستو  اب ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ اب کون بچا ہے۔ بوڑھے بھی ہوئے، نوجوانوں میں بھی یہ فرضی بیماری آکر چلی گئی اور بچوں میں بھی یہ بیماری آکر چلی گئی۔  اب یہ چوتھی لہر کس پر آئے گی پتہ نہیں۔ کئی دیشوں میں مویشیوں اور پالو جانوروں کو ویسکن لگائی جارہی ہیں۔

            ایسے میں ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟Urdu Editorial of Biswas Magazine

            دوستو! ہمیں اپنا ڈاکٹر خود بننا چاہئے۔ اور کم از کم یہ چھوٹی موٹی بخار کھانسی وغیرہ کا علاج تو گھر میں ہی کیا جاسکتاہے۔  یہی کوئی چالس پچاس سال پہلے کئی دہاتوں میں کوئی ڈاکٹر میسر نہیں ہوتا تھا۔ تو کیا وہاں لوگ بیمار ہوتے تھے اور اگر بیمار ہوتے بھی تھے تو کیسے ٹھیک ہوتے تھے۔ جب کئی کئی سو کوس پر کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا تھا۔ بچے پیدا بھی ہوتے تھے کوئی انجکشن یا دوائی کے بغیر ڈلیوریاں بھی ہوتی تھیں۔ لوگ بیمار بھی ہوتے تھے اور وہی گانوں کے وید یا حکیم ان کا علاج کرتے تھے اور وہ بغیر کسی مذر اثرات  اور بغیر کسی بھاری رقم کے ٹھیک بھی ہوتے تھے۔

            اس ماڈرن دوریا ڈیجیٹل دور کی دین یہ ہوئی کہ اب لوگ زیادہ بیمار بھی ہوتے ہیں اور گانوں گانوں ڈاکٹروں اور دواخانوں کی بھرمار، مریضوں کی کثیر تعداد، مرنے والوں کی کثیر تعداد، میڈیکلس جدید آلات سے لیس دواخانے، ہر عضوع کا ایک ڈاکٹر الگ، دانت کا ڈاکٹر، کان کا ڈاکٹر، گردے کے مختلف امراض کے مختلف ڈاکٹر، دل کا ڈاکٹر، ہڈکا ڈاکٹر، جوڑوں کا ڈاکٹر وغیرہ وغیرہ ان تمام سہولیات کے باوجود پھر بھی مریض ٹھیک ہی نہیں ہوتے۔ ایک مرض کا علاج کروانے جائیں تو کئی سارے دوسری بیماریوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ ہر ہر دوائی کے مذر اثرات کے لمبی لمبی فہرست دوائی پر لکھابھی ہوتا ہے لیکن ہندوستان کی زیادہ تر عوام پڑھی لکھی نہیں ہے وہ ان مذر اثرات کو پڑھ نہیں سکتی دوائی کو امرت اور ڈاکٹر کو بھگوان سمجھتی ہے۔Urdu Editorial of Biswas Magazine

            اس لئے دوستو لوٹو ماضی کی طرف اور اپنے اصلاف کا جائزہ لو اور اپنی تاریخ کوکھنگالو، اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھو اور سیکھو کہ وہ کیسی زندگی گزارا کرتے تھے۔ ان کے روزمرہ کے معاملات کیسے تھے، ان کا اٹھنابیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، کھانا پینایہ تمام چیزیں ہمیں بیماریوں سے بچاسکتی ہیں۔ اور تندرست زندگی گزارنے میں مدد کرسکتی ہیں۔

 

مدیر: ڈاکٹر سید عارف مرشد

Urdu Editorial of Biswas Magazine

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...