دیش خطرےمیں ہے!
سری
لنکا میں کیا ہو رہا ہے؟ اس کی معیشت مفلوج ہو چکی ہے، اس کے غیر ملکی ذخائر ختم
ہو چکے ہیں۔ وہاںسڑکوں پر حکومت مخالف مظاہرین ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے صدارتی
محل پر قبضہ کر لیا اور آگ لگادی۔ مہنگائی 50 فیصد سے اوپر پہنچ گئی۔ سری لنکا کے باشندے
خوراک، کھانا پکانے کی گیس، پیٹرول، کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ادویات اور دیگر
ضروری اشیاء، پیٹرول کی قطاریں میلوں تک پہنچ چکی ہیں۔ وبائی امراض نے تباہی مچا دی۔ سیاحت سے غیرملکی
کرنسی کی کمائی بند ہوچکی ہے۔ بین الاقوامی قرض کئی ارب تک بڑھ چکا ہے۔ ملک کے پاس اتنا بھی ایندھن نہیں بچا ہے کہ جس
سے ضروریات زندگی چل سکے۔ اسکول بند ہوچکے ہیں۔ بسوں اور ریل جیسے ضروری خدمات بھی
بند ہوچکی ہیں۔ لوگوں کو اپنے گھروں سے
کام کرنا پڑ رہاہے۔ ملک اپنے غیرملکی قرض کی
ادائیگی میں ناکام ہوچکاہے۔ IMF نے کہا ہے کہ ملک کی معیشت کو
بحال کرنے کیلئے شرح سود اور ٹیکس میں اضافہ کرنا ہوگا۔ سری لنکا اپنے غیر ملکی قرض دہندگان کا 50 ارب
سے زیادہ کا مقروض ہے۔ تاریخ میں پہلی بار غیرملکی قرضوں سے سری لنکا کی ساکھ کو
نقصان پہنچا ہے۔ یہی منظر پاکستان کے ساتھ
بہت جلد ہونے والا ہے اور ہمارا پیارا ملک ہندوستان بھی اسی سمت جارہاہے۔
ہندوستان اس وقت کہاں کھڑا ہے؟
ہندوستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 620 بلین امریکی ڈالر
ہے۔ IMF کا قرضہ 69 ارب ڈآلر ہے۔ IMF سے سب سے زیادہ قرض لینے والے
ممالک میں ہندوستان کا نمبر 17واں ہے۔
ہندوستان نے صرف کوئیڈ بحران پر قابو پانے کے لئے 2.75 بلین ڈالر قرض حاصل
کرچکا ہے۔ IMF بہت زیادہ
شرح پر قرض دیتاہے۔ یہ قرض لینے والے ممالک پر بہت زیادہ دباو ڈالتاہے۔ قرض دینے کے بعد ملک کے اندرونی معاملات میں
مداخلت کرتاہے۔ ملک پیسہ کہاں لگائے گا۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ پر کتنے
اخراجات کرے گا، سب پر کنٹرول کرتاہے۔ اگر
کوئی ملک بہت زیادہ مقروض ہوجاتا ہے تو ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ جاتی
ہے۔ شرح سود میں اضافہ ہوتاہے، غیر ملکی سرمایہ کار ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔ ملک پھر IMF کی طرف ہاتھ
پھیلاتا ہے اور IMF اپنے شرائط
پر قرض دیتاہے۔
کوئیڈ کے دوران ہندوستان میں کیا
ہوا؟
ڈاکٹر
بسواروپ رائے چودھری نے ملک کے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن سے کوئیڈ کے شروعاتی دور
میں ملاقات کی اور بتایا کہ کوئیڈ ایک عام فلو سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ کوئی خوف
کھانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خاص احتیاط کی ضرورت ہے۔ لیکن وزیر صحت نے
کہا کہ ہم بے بس ہیں اور ہمیں ڈبلیو ایچ او کے طے کردہ کوئیڈ پروٹو کول پر عمل
کرنا ہوگا۔ لاک ڈاؤن نافذ ہوا، لوگ مہینوں گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے، معشیت
تباہ ہوگئی، سکول کالج بند رہے، کاروبار ٹھپ ہوگئے، شہروں سےدیہاتوں کی طرف لوگوں
کی نقل مکانی ناقابل تصور تکالیف کے ساتھ ہوئی۔ جب ڈبلیو ایچ او سے قرض لیاجاتا ہے تو ملک اپنی
آزادی کھو دیتاہے۔ اس میں صحت کی پالیسی آزاد نہیں ہوسکتی۔ ممالک کی آزادی ڈبلیو
ایچ او یا کسی دوسرے قرض دینے والے کے پاس رہن ہوجاتی ہے۔ معاشی غلامی سے سیاسی
آزادی مجروح ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت بل
گیٹس اور ان جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی ہے۔ بل گیٹس فارما کمپنیوں کے
مالک ہیں اور فارما کمپنیوں نے اب ویکسی نیشن کے ذریعے پیسے کمانے کا ایک نیا
طریقہ ڈھونڈ لیاہے۔ انہوں نے ویکسی نیشن کے ذریعے اپنے لیے ایک بہت بڑی اور دنیا
بھر میں مارکیٹ دریافت کی ہے۔ اور یہ سلسلہ لامتناہی ہے، ہمیشہ بڑھ رہاہے اور اس وقت
تک رکنے والا نہیں جب تک کہ کافی تعداد میں لوگ ہلاک یا معذور نہ ہوجائیں۔ اس کے بعد بھی ملکوں کے مصائب ختم نہیں ہوں گے۔
بل گیٹ نے اس عزم کا اظہار کیاہے کہ وہ کبھی بھی ممالک کو کورونا کی مدت سے پہلے
کی اجازت نہیں دیں گے۔ مزید بیماریاں پھیلنی ہیں، مزید ویکسین آنی ہیں۔ اور کچھ
کہتے ہیں کہ پولیو واپس آنے والا ہے۔ ہم عالمی بینک کے شکنجے میں ہیں کیونکہ ہم نے
ان سے قرضہ لیاہے۔ ہم بل گیٹس اور ان جیسے لوگوں کے چنگل میں ہوں گے کیونکہ وہ
ورلڈ بینک کو کنٹرول کرتے ہیں، وہ فارما کمپنیاں چلاتے ہیں۔ ان سب کو محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر بسواروپ رائے
چودھری نے ملک کے نوجوانوں کو ایک ساتھ آنے اور آنے والی چیزوں کا ادراک کرنے کی
کال دی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اتنے تعلیم یافتہ ہوں کہ وہ میڈیا، سیاست دانوں،
سائنسدانوں، بیروکریٹس اور دیگر پر قابض ہونے والے پروپگنڈوں کے جال میں نہ
پھنسیں۔
ڈاکٹر
سید عارف مرشد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں