نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہر گھر ترنگا by Dr. Syed Arif Murshed Editor BISWAS

 

ہر گھر ترنگا

Dr. Syed Arif Murshed

            اس سے پہلے کے میں اپنی بات رکھوں شعروادب کے تمام پڑھنے والوں کو پندرا اگست کے اس خوشگوار موقعہ پر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ 

Dr. Biswaroop Roy Chowdhary

            عزت مآب وزیرعاظم  عالیجناب نرندردامودر داس مودی کا یہ اعلان کہ "ہر گھر ترنگا" یقیناً عزیزان ملک کے دلوں میں  ملک  کے لئے عزت عظمت اور ملک  کیلئے پیار محبت کو بڑھانے والا ہے۔  ویسے ہر سال 15 اگسٹ کو ہم ملک کی آزادی کا دن بڑے ہی شان و شوکت کے ساتھ مناتے ہیں۔ اسکول، کالج، و دیگر سرکاری دفاتر میں ایک خوشی اور عید کا سا ماحول دیکھنے میں آتا ہے۔ بچوں میں رنگ برنگے کپڑے، مختلف کھانے پینے کی چیزیں، مختلف کھیل کی مقابلے جات، انعامات، جلسے جلوس، یہ تمام چیزیں قومی یکتا و بھائی چارے میں چار چاند لگاتے ہیں۔ دیوالی آتی ہے، تو صرف ہندو کرسمس میں کسرچن، رمضان و دیگر مسلمانوں کی عیدوں میں صرف مسلمان علاقوں میں عید نظر آتی ہے اور متعلقہ مذاہب کے لوگ ہی اس میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن 15 اگست اور 26 جنوری  دو ایسے مواقعے میں جس میں تمام ملک کے باشندے بلا تفریق و مذہب و ملت حصہ لیتے ہیں۔

            عید کی خوشیاں اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن عید کے مقاصد اور بھی ہیں۔ جیسے دیوالی دسہراے کی عید وں میں برائی پر سچائی کی جیت، رمضان اور عید البقر میں خود احتسابی ، گناہوں سے معافی، قربانی وغیرہ اسی طرح دیگر عیدین میں انسانوں کو اپنے گناہوں سے معافی اور اگلی آنے والی زندگی میں گناہ نہ کرنے کا عزم مسمم ہوتا ہے۔

            ایک سوال آج کے اس موقعہ پر کہ اس 15 اگست جس کو قومی عید کہتے ہیں اس میں کیا ایسا کچھ ہوتا ؟  کیا  ہم اپنے پچھلے گناہ جیسے رشوت، دیش دروہ، اقتدار اور پیسے کیلئے دیگر مذاہب کے درمیان نفرت ڈالنا وغیرہ جیسے گناہ کبیرہ سے توبہ کرتے ہیں۔  اور آنے والے دنوں میں ایسے گھنونے گناہ نہ کرنے کا عزم کرتے ہیں؟  اگر نہیں کرتے تو کرنا چاہئے۔تب ہی اس "ہر گھر ترنگا" کا مقصد پورا ہوسکتا ہے وگرنہ یہ بھی صرف ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

            ایک مشورہ اور یہ کہ دیش تو 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا لیکن ہم پوری طرح آزاد نہیں ہیں۔ ہم آج بھی انگریزوں کے غلام ہیں۔ وہ کیسے؟ وہ ایسےکہ ہمارے پاس بہت ساری قدرتی وسائل ہونے کے باوجود بھی انگریزی دواؤں کے غلام ہیں۔قدرتی طورپر ہم اتنے خود کفیل ہیں کہ ہم ساری دنیا کو صحت دے سکتے ہیں۔ ہر بیماری کا علاج کرسکتے ہیں لیکن ہمارے ذہنوں اور اس طرح غلام بنا کر رکھ دیا گیا ہے کہ ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ وزیر اعظم سے یہ ایک مشہورہ ہے کہ جس طرح ہر گھر ترنگا کا نعرہ لگایا گیا اسی طرح "دیسی چکتسا" یا ہر گھر ایورید، ہر "گھر ایک درخت "کا نعرہ  بھی لگائیں اور ہر 15اگست کو ہر گھر ایک درخت لگانے کا عظم کریں۔ ایوروید کو بڑھاوا دیں۔ اپنا ڈاکٹر خود بننے کی طرف توجہ دلائیں  جو اس میگزین کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر بیسواروپ رائے کررہے ہیں۔ وہ اپنا تن من دھن سکھ چین سب داؤ پر لگا کر "اپنا ڈاکٹر خود بنو "کے مشن کو پورا کرنے کی طرف گامزن ہیں۔

 

ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو