نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اذکار واخبار : ایک خصوصی مطالعہ ڈاکٹر حضور محمدمعین الدین، اسوسیٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج گلبرگہ

 

اذکار واخبار : ایک خصوصی مطالعہ

ڈاکٹر حضور محمدمعین الدین، اسوسیٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج گلبرگہ

            حیدرآباد گذشتہ چار صدیوں سے اردو زبان وادب کا گہوارہ رہاہے۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام ١٩١٩ء سے اس میں علمی وقار کے ساتھ ساتھ تنوع اور ہمہ گیری پیداہوئی۔ ١٩٤٨ء کے انقلاب کے بعد جامعہ عثمانیہ کے ایک دور کا خاتمہ ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ اب یہ دور پھر نہیں آئیگا۔ لیکن زندگی کا کارواں ہمیشہ نموپذیر قوتوں کے سہارے آگے بڑھتاہے جامعہ عثمانیہ میں شعبہ اردو جن بزرگوں کے خون جگر سے سرخ روتھا وہ بانی رہا، ڈاکٹر عبدالحق، ڈاکٹر زور، پروفیسر سروری وغیرہ کے بعد دوسرا دور شروع ہوا۔ ڈاکٹر حفیظ قتیل، حسینی شاہد، زینت ساجدہ، ڈاکٹر رفیہ سلطانہ اور ڈاکٹر سیدہ جعفر وغیرہ نے دوسرے دور کی حفاظت کی اس کے بعد جو تیسرادور آیا اس میں پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر یوسف سرمست، پروفیسر بیگ احساس، پروفیسر عقیل ہاشمی وغیرہ نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا۔ جامعہ عثمانیہ کی روایات منجمدنہیں ہوئیں۔ اور آگے بڑھتے رہیں اس دوران حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کے متوازی ایک مرکزی جامعہ حیدرآباد یونیورسٹی کا قیام اردو زبان وادب کے حق میں مفید ثابت ہوا۔ یہ نئی جامعہ بھی نئی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے قائم کی گئی تھی۔ عوامی مطالبہ یہ تھا کہ جامعاتی تعلیم کو مزید وسعت دی جائے۔ جامعہ عثمانیہ کی برکات کو مزید وسعتیں حیدرآباد یونیورسٹی کے قیام سے حاصل ہوئیں۔ اس نئی جامعہ جو عثمانیہ یونیورسٹی کا مقابل نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اس کو اعلیٰ تعلیم کا تسلسل قرار دے کر قدیم نظام تعلیم میں مزید وسعتوں کی تلاش قرار دینا ضروری تھا۔

            حیدرآباد یونیورسٹی کے قیام نے ایک اور شعبہ اردو کیلئے راہ ہموار کردی۔ اس نئے جامعہ کے نئے شعبہ اردو میں جامعہ عثمانیہ ہی کی طرح ادبی، علمی اور فکری رجحانات کام کرنے لگے۔ خوش قسمتی سے اس کے ابتدائی دور ہی سے نیا صالح خون دوڑ نے لگا جب یہ نئی جامعہ قائم ہوئی ڈاکٹر گیان چند جین اور ثمینہ شوکت اس جامعہ سے وابستہ ہوئے۔ مغنی تبسم اور سیدہ جعفری بھی اس کارواں میں شامل ہوئے۔ ڈاکٹر گیان چند جین اور ڈاکٹر مجاور حسین رضوی کا تعلق حیدرآباد سے نہیں تھا لیکن ان دونوں نے اس شعبہ کو مستحکم کرنے میں پورے خلوص سے کام کیا دونوں اساتذہ نے اپنے بعد وفعال اور مستعد نوجوانوں کو تیار کیا تھا یہ دونوں تھے پروفیسر محمد انورالدین اور پروفیسر رحمت یوسف زئی، انہوں نے اس نئی جامعہ کی اس انداز سے خدمت کی جس انداز سے پروفیسر وحیدالدین سلیم اور ڈاکٹر عبدالحق، ڈاکٹر زور اور پروفیسر عبدالقادر سروری نے انجام دی تھی۔

            جامعہ عثمانیہ نے جن ادبی روایات کو جنم دیاتھا، اس کی شناخت صرف عثمانیہ یونیورسٹی تک محدود اور مرکوز نہیں ہوئی بلکہ وہ روایات اور کام کرنے اور اپنے تہذیب و ثقافت کی حفاظب کی ذمہ داری کو پورا کرنے کا کام اس نئی یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے بھی انجام دیا۔ حیدرآباد یونیورسٹی میں شعبہ اردو ایسے لوگوں کی نگرانی میں قائم ہواتھا جو اردو کو صرف سرکاری ضرورت کے تحت قبول نہیں کرتے تھے۔جامعہ عثمانیہ کے دور میں جامعہ کا ہر شعبہ ایک قومی ضرورت کی تکمیل کرتاتھا۔ خاص طورپر شعبہ اردو میں ہمارا مزاج، مذاق اور تمدنی ضروریات کی تکمیل ہوتی تھی۔ حیدرآباد یونیورسٹی میں شعبہ اردو کا قیام ایک اصول کی تکمیل تھا۔ یہ اصول سرکاری ضابطے کی تکمیل تھا لیکن محمد انورالدین اور یوسف زئی نے اس شعبہ کی کمان اپنے ہاتھ میں لی اس میں قومی شعور اور قومی زبان کی خدمت کے جذبہ کو فروغ ہوا۔ ظاہر ہے یہ عمل سرکاری قانون، قاعدے کے تحت انجام دیئے جانے والے کارناموں سے بالکلیہ الگ تھا اس میں خلوص کی گرمی اور قومی مقاصد کی تکمیل کا جذبہ شامل ہوگیا۔ پروفیسر محمدانورالدین اور پروفیسر یوسف زئی دونوں اس نئے جامعہ کے فرزند تھے اس لیے جذباتی طورپر وہ اس نئے ادارے سے وابستہ تھے لیکن وہ اس ماحول کے پروردہ تھے جس کو جامعہ عثمانیہ نے جنم دیا۔ اس نئے جامعہ کے قیام کے ساتھ ہی اردو درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کا کام بھی انجام پانے لگا۔

            پروفیسر محمدانورالدین، ڈاکٹر مجاور حسین اور ڈاکٹر گیان چند جین کے فیض تربیت سے سرشار ہوئے ڈاکٹر گیان چند جین میں تحقیق کا وہ انداز تھا جس کو باریک بینی کا نام دیاجاتاہے۔ یعنی ڈاکٹر جین تحقیق کے اس مکتبہ فکر سے وابستہ تھے جس میں بات کی تہہ تک پہنچنا ضروری سمجھا جاتاہے۔ جزئیات نگاری اور جستجو کیلئے خون جگر کو صرف کرنا جین صاحب کی تخلیقات کا وصف جمیل تھا۔ وہ بے تکان کام کرنے کے عادی تھے۔ کسی موضوع پر جب وہ قلم اٹھاتے اس کی تمام وسعتوں کو چھونے اور ان کو اپنے قابو کرنے کا عمل پورا کرتے تھے۔ مجاور حسین کی خدمات میں تنوع تھا وہ زبان و ادب کے پھیلاؤ اور اس کے محیط بے کراں کا شعور رکھتے تھے۔ پروفیسر محمدانور الدین اور یوسف زئی دونوں ان کے ارشد تلامذہ میں سے تھے ان دونوں نے اپنے اساتذہ سے متذکرہ اوصاف کو حاصل کیاتھا۔ پروفیسر انورالدین کی تحریروں میں اپنے اساتذہ کی طرح تنوع بھی ملتاہے اور کسی ایک موضوع پر پوری دل جمعی کے ساتھ سراغ لگانے کارجحان بھی ملتاہے۔

            پروفیسر انورالدین نے اردو زبان و ادب کا مطالعہ ایک دلچسپ انداز سے شروع کیا۔ پنڈت برج دتاتریہ کیفی نے اردو تحقیق میں یہ راہ دکھائی تھی کہ "ادب کا جائزہ لینے کیلئے اس کی صحافت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا"۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی نوجوان محققین نے صحافت کو اپنا موضوع تحقیق بنایا۔ محمد انورالدین صحافت کی بنیادوں پر ادبی مقام و مرتبہ کو تلاش کیا۔ پروفیسر انورالدین کی اردو صحافت سے دلچسپی محض قدیم اخبارات کے نام اور مقام اشاعت کی تلاش تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ اردو صحافت کو ہماری قومی مزاج کی تشکیل کا ایک اہم عنصر بنایا۔ اور اس کی شناخت اردو ادب میں تلاش کی پروفیسر انورالدین کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اردو صحافت دراصل اردو ادب کے اثرات کا "وضاحتی عمل" ہے۔ اردو بولنے والے اپنی ذات سے ادب کو کبھی جدا نہیں کرتے جب اردو صحافت نے ارتقاء کا آغاز کیا اس وقت صحافت اور ادب میں مربوط رشتہ تھا یعنی زندگی کی اعلیٰ اقدار سے وابستگی اردو بولنے والے ہر وقت اور ہر جگہ زندگی کی اعلیٰ قدروں سے وابستگی کو ضروری سمجھتے تھے۔ اس لیے جب ان کا سابقہ صحافت سے ہوا تو یہاں بھی انہوں نے اخلاق حسنہ، سچائی، راست بازی، معاملہ فہمی اور انسانی دوستی جیسے اوصاف کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ پروفیسر محمدانورالدین نے اردو صحافت کا مطالعہ ادب کے متذکرہ اثرات کو ملحوظ رکھ کر کیا خود ان کا یہ بیان ہے کہ

"راقم الحروف کو صحافت سے گہری دلچسپی رہی ہے چنانچہ اس مجموعہ میں بھی کچھ مضامین شامل ہیں۔ جیسے ادب اور صحافت، جدوجہد آزادی میں اردو صحافت کا حصہ" جوش کی ادبی صحافت، سردار جعفری کی ادبی صحافت، ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان کی صحافتی خدمات وغیرہ"۔ (پیش گفتار صفحہ نمبر ١، مشمولہ اذکار و اخبار)

            متذکرہ مختلف عنوانات دراصل ایک عنوان اردو صحافت کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر انورالدین نے صحافت میں ادبی قدروں کو تلاش کرکے ادب اور صحافت دونوں کو ایک وقار عطا کیاہے۔ صحافت سے مراد یہ زندگی کی وسیع و عریض قدریں ہیں۔ جو صحافت کے وسیلے سے بکھری ہوئی نظر اتی ہیں۔ پروفیسر انورالدین نے ہماری صحافت کو ہماری زندگی میں تلاش کیاہے۔ اگر ادب زندگی کا آئینہ ہوتاہے تو صحافت بھی اس کا مکمل "پرتو" ہوتی ہے۔

            ان کے اکثر مضامین کے موضوعات نئے نہیں ہیں۔ مثلاً غالب کا تصور حیات اور محمد قلی قطب شاہ بظاہر موضوعات ہیں جن پر کافی لکھاجاچکاہے۔ لیکن پروفیسر انور الدین نے ان موضوعات کو انداز اور نیا رخ عطا کیاہے۔ اور سوچنے کیلئے ایک طرح سے دعوت دی ہے کہ موضوعات قدیم یا جدید نہیں ہوتے بلکہ حالات بدل بدل کر ان میں نیاپن اور نئی بصیرت پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر زور کی مرتبہ تواریخ، پروفیسر انورالدین کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں ماضی حال میں تبدیل ہوجاتاہے۔ "قاضی عارف ابوالعلائی" ان کا ایک تاثراتی مضمون ہے جس میں پولیس ایکشن کے نام پر جو قتل و غارت گری کی گئی تھی اس کو مواثرانداز میں بیان کیاگیاہے۔ اس مضمون میں پروفیسر انورالدین ایک بے لاگ مورخ کی طرح گذرے ہوئے واقعات کو درد مندی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ تیس، چالیس معصوم انسانوں کے قتل کا منظر ان کی تحریروں کوا یک سند بنادیتاہے۔ جس میں گذشتہ خونیں واقعہ ایک مظلوم قوم کا منظر نامہ بن گیاہے۔

            پروفیسر انورالدین کا ایک مضمون "جدید اردو ادب اور دلت فکر" اردو زبان کی جامعیات اور اس کی اظہار کے بلیغ اظہار کا بیان ہے۔ گاندھی جی نے ہندوستان کی طبقاتی کشمکش کو اپنے فلسفہ حیات میں سمولیاتھا۔ بہ نسبت اس کے بعد پست کردہ اقوام کی اصلاح عام ہوئی تھی پھر یہی بات ہریجن یعنی "بری کے بندے" جنسی اصطلاح سے یادکیئے جاتے تھے آج کل "دلت" کا لفظ ان اقوام کیلئے استعمال ہوتاہے۔ "دلت" ایک استعارہ کی شکل میں ہماری قومی زندگی میں موجود ہے اردو ادب میں بچھڑے ہوئے طبقات کو اکثر افسانہ نگاروں نے بیان کیاہے۔ پریم چند اور ان کے عہد کے اکثر افسانہ نگار متذکرہ طبقاتی کشمکش کو اپنے افسانہ نگاری میں جگہ دیا کرتے تھے۔ پروفیسر انورالدین لفظ دلت کے استعمال پر اردو زبان کی جامعیت کی نشاندہی کی ہے۔ "کفرتمنا" انورالدین کا ایک تاثراتی مضمون ہے۔ یہ مضمون غزل کی دلپذیرقوت کا اظہار کرتاہے۔ ہرچندیہ مضمون دلی یونیورسٹی کے پروفیسر فریدی کی شاعری کا احاطہ کرتاہے لیکن اس مضمون میں پروفیسر انورالدین نے اردو غزل کے مزاج پرروشنی ڈالی ہے جو ان کی تنقیدی بصیرت کی نشاندہی کرتی ہے۔ فریدی کی شاعری میں انہوں نے اردو شاعری کے مزاج کی ترجمانی کی ہے۔ پروفیسر انورالدین کے افکار کی ایک جھلک ان کی حسب ذیل تحریر میں دیکھی جاسکتی ہے۔

"زمانہ دراصل حالات کے اتارچڑاؤ اور تبدیل و تقسیم سے عبارت ہے لیکن ہر تبدیلی انسان کے لیے موافق اور سازگار نہیں ہوتی ذات کی کوئی گردش اپنے جلوے میں خوشی اور مسرت کی بشارت لیکر آتی ہے تو کوئی انقلاب تباہی و بربادی کا نقیب ہوتاہے شاعر کی چشم بصیرت حالات کے بہاؤ کی تیزی و تندی کو دیکھ کر آنے والے طوفان کا اندازہ کرلیتی ہے اور اس کا درد مند دل بدلے ہوئے حالات کے کڑے تیور اور معائب و آلام میں یوں ماتم کناہوتاہے"۔

(کفرتمنا، ایک تاثراتی مضمون، ص٦٧، مشمولہ، اذکار واخبار)

            پروفیسرانورالدین اردو ادب کے ایک اسکالر ہیں لیکن انہوں نے تاریخ خاص طورپر دکن کی تاریخ سے اپنے افکار کو سجایا ہے۔ دکن کی تاریخ کے اہم مورخین مثلا عبدالمجید صدیقی اور ڈاکٹر زور ان کے پسندیدہ مورخ رہے ہیں ان کی تاریخ نگاری سے پروفیسر انورالدین اپنے لیے روشنی حاصل کی ہے۔ پروفیسر عبدالمجید صدیقی نے بہمنی سلطنت کے ساتھ ساتھ قطب شاہوں کی تاریخ پر بھی توجہ دی تھی۔ پروفیسرانورالدین عبدالمجید صدیقی کی تاریخ بہمنی سے جو بصیرت حاصل کی تھی وہ ان کے مطالعہ کو وسعت دینے  کا سبب تھا تاریخ گولکنڈہ اور مقدمہ تاریخ دکن کے مطالعہ سے پروفیسر انورالدین اپنے اصلاف کے کارناموں کو بڑی جامعیت سے سمجھا اور ان کے ادبی انکشافات کو معلوم کرنے میں حاصل اور روانی دریافت کی۔

            پروفیسر انورالدین کی زندگی کا سب سے روشن پہلو ان کی خلقی شرافت ہے وہ اس کو ادبی نگارشات میں بھی استعمال کرتے ہیں وہ کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کرتے وہ سب کی دلجوئی اور ان کی بلنداخلاق کو ڈھونڈ ڈھونڈ کرنکالتے ہیں۔ خاص طورپر اپنے اساتذہ کا وہ خیال رکھتے ہیں پروفیسر مغنی تبسم کے مضامین کے مجموعہ "لفظوں کے آگے" پروفیسر انورالدین کا ایک بہترین مطالعہ ہے جس میں انہوں نے اپنے سینئر استاد مغنی تبسم کا مطالعہ وضع داری سے لکھا ہے۔ ان کے مضمون سے چند سطور کو یہاں پیش کیاجاتاہے۔

             "پروفیسر مغنی تبسم اردو کے صف اول کے نقاد اور ممتاز دانشور ہیں جدیدیت کے صاحب بصیرت اور سلجھے ہوئے حامی و علمبردار کی حیثیت سے انہوں نے اپنی ایک منفرد شناخت بنائی ہے۔ ان کا مطالعہ نہایت وسیع، عمیق اور فکر نہایت بلند واقع ہوئی۔ انہیں بیک وقت ادب کے کئی شعبوں میں عبور حاصل ہے۔ جیسے معنی و بلاغت، صرف و نحو عروض وقافیہ، صوتیات و لسانیات وغیرہ۔ وہ اردو کے کلاسیکی سرمایہ اور جدید ادب دونوں پریکساعبور رکھتے ہیں۔ اردو کے علاوہ فارسی و انگریزی لٹریچر پر بھی ددسترس حاصل ہے۔ ان کی تنقید ی بصیرت ژرف آگاہی کا ایک زمانہ معترف و مداح ہے۔ ہر چند کہ ان کی ادبی شخصیت کے اور حوالے بھی ہیں۔ لیکن ان کی اصل شناخت بہ حیثیت نقاد ہے۔ وہ اسلوبیاتی تنقید کے اولین معماروں میں ہیں۔ انہی کے رشحات قلم کی بدولت اس نئے دبستان تنقید کو ایک وقار اور اعتبار حاصل ہوا۔ تنقید میں ان کی متعدد نصانیف منظر پر آچکی ہیں۔ لیکن "پیش آئین اوراق میں ان کی تصنیف "لفظوں سے آگے" کا مطالعہ کیاہے۔ یہ کتاب پروفیسر مغنی تبسم کے بیس تنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔ جن میں سے بیشتر مختلف ادبی سمیناروں میں پیش کیئے گئے اور موخر رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ ("لفظوں کے آگے" ایک مطالعہ، ص ٥٤، مشمولہ "اذکار واخبار")

            اس طویل اقتباس کے مطالعہ سے پرفیسر مغنی تبسم کی علمی وادبی خدمات کے ساتھ ساتھ خود مضمون نگار کی خلفی شرافت اور ملنساری کا حال معلوم ہوتاہے۔ مغنی تبسم کی علمی بصیرت کے ساتھ ساتھ خود پروفیسر انورالدین کے سوچنے کے انداز کا پتہ چلتاہے۔

            پروفیسرمحمد انورالدین کا مطالعہ صرف صحافت اور ادب کی سنجیدہ قدروں تک محدود نہیں ہے وہ ادب میں طنزومزاح سے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ ظرافت کو وہ زندگی کی اصلاح کیلئے ضروری سمجھتے ہیں طنزواصلاح کا کام لیتے ہیں، ان کا ایک مضمون "اردوکے صاحب طنزو مزاح نگار "یوسف ناظم پر بھی ملتاہے۔ یوسف ناظم پر ان کا مضمون "ورنہ" ان کے شگفتہ انداز بیان کا مظہر ہے انہوں نے طنزیہ انداز بیان کو پرلطف طریقہ سے بیان کیاہے۔ یوسف ناظم پر ان کی خامہ فرسائی دراصل اردو طنزومزاح کا اثرپذیر تجزیہ ہے۔ ان کے مضامین کے مجموعے "اذکار و اخبار" کا آخری مضمون "اردو ادب کے تدریس کے مسائل" کا تجزیہ کرتاہے۔ اس مضمون میں پروفیسر محمد انورالدین اپنے پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں آج پیشہ تدریس میں فنی دور کو دخل ہواہے۔ یعنی چھوٹے درجات کو پڑھانے کے مسائل کی طرح جامعات درجات میں بھی اردو تدریس کے مسائل درپیش ہیں۔ جامعہ کے اساتذہ ان مسائل سے بھی نبردآزماہوتے ہیں۔ اس مضمون میں پروفیسر محمد انورالدین نے طلباء کے ذہنی استبداد کا تجزیاتی مطالعہ کیاہے۔ یہ ایک طرح سے اس موضوع پر ان کی پہلی کوشش ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جامعاتی سطح پر اردو زبان و ادب کے تدریسی مسائل پر بھی توجہ دی جائے۔

            آج یہ مسئلہ اردو کی بنیادی تعلیم کی طرح ایک باضابطہ علمی نقطہ نظر سے جانچ اور مطالعہ کا موضوع بن گیا ہے۔ پروفیسر محمد انورالدین نے غالباً پہلی مرتبہ اس موضوع پر توجہ دی ہے۔ اگر دیگر ماہرین تعلیم بھی پروفیسر محمدنورالدین کے چھیڑے گئے موضوع پر توجہ دیں تو ایک لازوال اور دلچسپ موضوع پر مفید کام تدوین پاسکے گا۔

 

 

٭٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو