نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کرناٹک کی اردو صحافت پر طنز مزاح کے اثرات ڈاکٹر حضور محمدمعین الدین، اسوسیٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج گلبرگہ

 

کرناٹک کی اردو صحافت پر طنز مزاح کے اثرات

ڈاکٹر حضور محمدمعین الدین، اسوسیٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج گلبرگہ

 

            ادب اور صحافت کے درمیان حدبندی کرنا مشکل ہے دونوں کے درمیان خط فاصل کھینچنا کہ یہاں سے ادب شروع ہوتاہے اور یہاں سے صحافت کی ابتداء ہوتی ہے۔ ایک دشوار گزار منزل ہے۔ یہ جورجحان عام ہورہاہے کہ صحافت اور ادب دوبالکل الگ الگ اصناف ہیں۔ کم از کم اردو میں قابل قبول بحث نہیں ہے کیونکہ اردو صحافت کی ابتداء ہی سے ادب کے گود میں پلی اور ادب ہی کے گود میں پروان چڑھی۔ دور جدید کے صحافی، صحافت کو ترسیل کا ایک ذریعہ بنانے کیلئے اور خاص طورپر عوامی احساسات کی ترجمانی کرنے کیلئے صحافت کو ایک مخصوص لب و لہجہ عطا کرتے ہیں۔  یہ لب ولہجہ نہ صرف عام پسندہوتاہے بلکہ عوامی مزاج کا حامل بھی ہوتاہے۔ کوشش اس بات کی کی جاتی ہے کہ آسان زبان اور آسان پیرائے بیان میں صحافتی ضروریات کی تکمیل ہو اس طرح اردو نثر جہاں ادبی نگارشات کیلئے اپنا ایک مخصوص انداز قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، وہیں پر صحافتی لب و لہجہ ایک مخصوص شکل میں نمودار ہواہے۔ یہ مخصوص شکل کیا ہے ایک اہم سوال ہے۔ جس کا ہر صحافی کو جواب تلاش کرنا پڑتاہے۔ ایک صحافی روز مرہ وقوع پذیر ہونے واقعات کو ہر وقت ادبی انداز سے بیان نہیں کرسکتا۔ اگر کبھی کوئی صحافی اپنے اندر چھپے ہوئے ادیب کے دباؤ میں آکر اپنے اخبار کے کالموں کو ادب میں تبدیل کردیتاہے تو ایسی تحریروں کو صرف چند طبعیتیں پسند کرتی ہیں عام لوگ اس وضع کی "ادبی صحافت" کو بھاری پتھر سمجھ کر اٹھا نہیں سکتے چوم کے رکھ دیتے ہیں مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد کا ہفت روزہ اخبار "الہلال" کا بار بار ذکر کیا جاتاہے۔ "الہلال" کی اہمیت کا ذکر اردو صحافت میں بھی کیا جاتاہے اور اردو ادب میں بھی مولانا کے رسائل اور ان کے طریقہ اظہار کا مختلف انداز سے جائزہ لیاگیاہے۔ لیکن اردو کا ایک عام قاری آج تک "الہلال" کی ترکیب بھی نہیں سمجھ پایا۔ وہ کسی مقدس چیز کی طرح اس وضع کے الفاظ کو سن کربوسہ دے سکتاہے دل میں اتار نہیں سکتا اسی لیے آج کل مجموعی طورپر یہ خیال ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ صحافت اور ادب دونوں حدود الگ الگ ہیں تاہم اردو بولنے والوں کی زندگی میں ادب کی قدروقیمت کچھ اس طرح سرائیت کر گئی ہے کہ ترجمانی حیات کے وقت شعروادب اکثر جگمگا تے نظر آتے ہیں لیکن آج کے مصروف دور میں صنعتی اور تجارتی ذہن ہر جگہ کام کرتاہے ادبی انداز کو کم سے کم استعمال کرنے کا رجحان عام ہوگیاہے یہ ذمہ داری اردو نثر نہایت اہتمام سے برداشت کررہی ہے۔ چنانچہ ادبی نثر کے ساتھ ساتھ کاروباری نثر اور اسی طرح صحافتی نثر الگ الگ اپنےجلوے دکھاتی ہے تاہم جیسا کہ مذکورہواکبھی کبھی ادبی انداز بیان بعد کو گیرائی اور گہرائی عطا کرتاہے کسی بھی واقعہ کو اس کی سطح سے اونچا کرکے اس کو وزن اور وقار عطا کرتاہے یہاں ایک دلچسپ مثال کو پیش کرنا مناسب ہوگا۔

            ہندوستان کی تقسیم نے کئی مسائل کو پیدا کیا غالباً سب سے اہم مسئلہ " مسئلہ کشمیر" ہے راقم الحروف چونکہ کوئی سیاست داں نہیں ہے اردو تحقیق کا ایک طالب علم ہے اسی لیے اس بحث میں گئے بغیر کہ کشمیر کا مسئلہ گذشتہ نصف صدی سے کیوں اب تک سلجھانہیں سکا۔ میری نگاہ اخبارات کے ان صفحات پر رہی جو اس مسئلہ کو ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔ بلکہ سچ پوچھئے تو دونوں ملکوں کی سیاست دانوں کی زندگی کا سارا مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے عوام کے جذبات کو برانگینہ کرنے کا کام ہمیشہ مسئلہ کشمیر سے لیاگیاہے۔ عوام سے ہمیشہ یہ وعدہ کیاجاتاہے کہ دونوں ممالک کے قائدین کی نیتیں صاف ہیں۔ نفرتوں کے بادل چھٹ رہے ہیں دوستی کی فضا تیار ہورہی ہے لیکن اربوں روپیہ دونوں طرف کی فوجوں پر خرچ کیاجاتاہے وقفہ وقفہ سے فوجوں کے لاشے دونوں طرف دکھائی دیتی ہیں تو پوں کی گھن گرج اور فوجی طیاروں کی اڑانوں کے مناظر روزمرہ کے معاملات ہیں۔ سب سے اہم بات جو نظر اتی ہے وہ ہے قائدین کے بیانات جو ظاہر ہے نثر میں ہوتے ہیں اورنثر کو ہر دومقامات کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کا فرض انجام دینا پڑتاہے۔ اس وضع کے موضوعات کے اظہار کیلئے طنزومزاح سے کام لیناناگزیرہوجاتاہے کرناٹک کی صحافت بھی اس روش اور روایات کا برابر ساتھ دے رہی ہے۔ یہاں ایک دلچسپ مثال پیش کی جاتی ہے۔

            "پاکستان کے فوجی حکمران جنرل مشرف نے ایک جذباتی بیان یہ دیاکہ "کشمیر کا مسئلہ لہو بن کر میری رگوں میں دوڑ رہاہے"۔ (٧/فروری ٢۰۰٤ء تمام قومی علاقائی اخبارات کی سرخی)

اردواخبارات نے جنرل مشرف کے بیان پر ادارے لکھے یہاں ادبی انداز اختیار کیاگیاہے۔ روزنامہ "سالار" نے اپنے ایک اداریہ میں یہ لکھاتھا۔ "رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل"۔

            یہ اندازِ بیان دراصل غالب کا ایک مصرعہ ہے جس پر انہوں نے اچھی شاعری کے اوصاف بیان کرتے ہوئے یہ لکھاتھا کہ

رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے توپھر لہو کیاہے

            یہاں غالب یہ فرماتے ہیں کہ اچھے فن کی تخلیق کیلئے خون جگر ایک کرناپڑتاہے تب کہیں جاکر فن کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس وضع کا خیال علامہ اقبالؔ کے پاس بھی ہے۔

چنگ ہو یا حرف وصوت خون جگر کے بغیر

اقبال سے متاثر ہوکر سکندر علی وجد نے بھی یہ بات کہی تھی

"یہاں خون جگر پیتے رہے اہل نظر برسوں"

            یہاں جو بات عرض کرنا یہ ہے کہ جنرل مشرف نے جو جذباتی بیان دیا کہ مسئلہ کشمیر ان کی رگ و پئے میں سرائیت کرگیاہے غلط ہے کیونکہ صحت مند سیاست میں خوش مندی کو گردش کرنا چاہئے تدبر کو خون میں دوڑایاجائے نہ کہ جذبات کو یہاں صرف ایک مثال کو پیش کیاگیاہے۔ روزانہ اردو اخبارات میں دلچسپ لب و لہجہ قارئین کو دعوتِ فکر دیتاہے۔ بنگلور کا ایک اخبار "نشیمن" اس وضع کی تحریروں کیلئے اپنا منفرد مقام رکھتاہے ہفت روزہ اس اخبار کا نام "نشیمن" کلام اقبال سے لیاگیاہے۔ اقبال فرماتے ہیں۔

نشیمن پہ نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے خود بیزار ہوجائے

اس اخبار کے صفحہ اول پر یہ شعر درج رہتاہے جو اردو والوں کی حالت زار کی ترجمانی بھی کرتاہے۔ اور ان کے جاندار رویے کو ظاہر کرتاہے اردو والوں کا رویہ ہمیشہ رجائیت سے بھرپور رہاہے۔ وہ کبھی حالات سے مایوس نہیں ہوئے کرناٹک کے اردو بولنے والے ٹیپوسلطان کی سلطنت خداداد کے خاتمہ کے بعد سے معروف جہد ہیں بغیر کسی بیرونی امداد کے یہ اپنی سلامتی کا اہتمام کرتے ہیں ان کے اس رویہ کا اظہار صحافت میں ہوتاہے۔ اور اردو نثر متذکرہ حالات کا بڑی خوبی اور خوبصورتی سے اظہار پر قدرت ہے۔

            کسی بھی اخبار کا مقصد طنزنگاری یا مزاح کی تخلیق نہیں ہوتا اخبار کو دلچسپ بنانے اور قارئین کا حلقہ وسیع کرنے کیلئے سنجیدہ صحافت، فکائیہ کالم سے استفادہ کرتی ہے اس طرح طنزاور مزاح صحافت کا مقصد نہیں ہوتے صرف اظہار بیان کی دلکشی ہوتے ہیں۔ یہ دلکشی مزاحیہ نظموں یا مزاحیہ غزلوں اور کارٹونوں کے ذریعہ سے پید اکی جاتی ہے۔ زیادہ تر حصہ نثر کا ہوتاہے کیونکہ وضاحت بیان کی ذمہ داری نثر انجام دیتی ہے۔ کرناٹک کی صحافت کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ وہ بھی ملک کے اردو اخبارات کی طرح اسی معیار اور مذاق کو برقرار رکھے ہیں جو گذشتہ ایک صدی سے اردو صحافت کی شناخت بن گئی ہے۔ یہاں بطور خاص اس بات کا ذکر ضروری ہے۔ کہ اردو صحافت نے طنزومزاح کو بھی اپنے کالموں میں جگہ دی ہے لیکن کسی کے مذہب یا کسی کا عقیدہ حتیٰ کہ سیاسی اور سماجی امور میں بھی کسی کی بے حرمتی نہیں کی یہ ایک ایسا وصف جمیل ہے جو اردو زبان وادب کے بولنے والوں کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو صحافت میں بھی سخت لب و لہجہ اکثر اختیار کیاہے۔ یہاں طنزکے تیز تیر چلائے گئے ہیں لیکن مقصد کبھی یہ نہیں رہا کہ کسی مذہب یا عقیدے کی بے حرمتی کی جائے اردو کا اہم ترین اخبار جس نے طنزومزاح کا لبادہ اوڑھ رکھاتھا غیرملکی حکومت کا دشمن تھا اور خاص طورپر مغربی تہذیب کو پسند نہیں کرتاتھا۔ ایسے اخبار نے بھی تہذیب اور شرافت کا دامن کبھی تار تار ہونے  نہ دیا اردو صحافت کی ایک اور مثال مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار "الہلال" کی ہے۔ اس اخبار کا لب و لہجہ بھی ادبی ہوتاہے لیکن شعلہ بیانی "الہلال" کی خصوصیت تھی اسی لئے ظفر علی خان کا اخبار بھی۔

            کرناٹک کے اردو صحافیوں نے بھی اردو صحافت کے اسی عظیم حصہ کو قبول کیا ہے اور اس روایت کو آگے بڑھایا ہے اور ان اقدار کی حفاظت کی ہے اردو صحافت کی ساری خصوصیات دراصل اردو نثر کا کارنامہ ہے۔ کیونکہ اردو ادب ہمیشہ صالح اقدار کا محافظ رہاہے اسی لیے صحافت میں بھی یہ روش اور روایت ہر وقت جگمگاتی ہے۔ متذکرہ فطری اتحاد کی وجہ یہ ہے کہ اردو ادب کی طرح اردو صحافت کو بھی پروان چڑھانے کیلئے ہندواور مسلمان دونوں اقوام کے صحافیوں نے اپنا خون جگر صرف کیاہے۔ اردو کے کئی صحافی اور پبلی کیشن یا اخبارکے مالک غیر مسلم تھے۔ جن کے پاس مذہبی بھیدبھاؤ نہیں تھا مثلاً منشی نول کشور نے لکھنو سے جو اخبار جاری کیاتھا وہ مذہبی حدود سے ماوراء تھا اس طرح روزنامہ "پرتاپ" اور روزنامہ "ملاپ" جیسے اخبارات جس کے قارئین کی تعداد کافی زیادہ تھی اکثر آریہ سماج یا ہندومہاسبھا کے طرفدار لیکن مذہب اسلام یا عیسائی مذہب کے خلاف کبھی ایسا مظاہرہ نہیں کیاجس کو دل آزار کہاجاسکے۔ صحافت کی آزادی کو اردو کے صحافیوں نے خوب استعمال کیا لیکن فن کی موہ پنپنے نہیں دیا۔ کرناتک کی اردو صحافت نے بھی طنز اور تنقید کو بارہا اختیار کیا لیکن اردو صحافت کی وضع داری کو مجروح نہیں کیا۔ کرناٹک کی سرزمین نے کنڑا زبان اور انگریزی کے کئی اخبارات نکلتے ہیں ان کا مقابلہ اردو صحافت سے نہیں کیاجاسکتا بے چاری اردو صحافت ایک کمزور اقلیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا مقابلہ بنگلور "دکن ہیرالڈ" سے نہیں کیا جاسکتا لیکن آزادی کے بعد سے کئی ایسی غلطیاں کی ہیں کہ مسلمانوں کو سخت احتجاج کرنا پڑا جس میں معصوم انسانوں کوزندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے برخلاف گذشتہ ایک صدی کے دوران جب سے اردو صحافت نے ملک اور قوم کی خدمت کا بیڑا اٹھایاہے، آج تک کوئی نا زیبا حرکت اس سے سرزد نہیں ہوئی جس کو صحافت کےآداب کی خلاف ورزی کہاجاتاہے۔

            یہاں ہم دنیا کے لیے ایک قابل احترام ہستی اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کوفی عنان کا بیان من و عن پیش کرتے ہیں ہر چند یہ بیان قدرے طویل ہے۔ لیکن ایک ذمہ دار شخص کا ہے۔ اور ایکسویں صدی کے آغاز کے بعد پیدا ہونے والے ایک حساس موضوع سے متعلق ہے اس لیے اس بیان کی اہمیت ہے۔ (اخبار منصف ١١/ فروری ٢۰۰٦ء بیان صفحہ نمبر٥)

"کارٹون کے ذریعہ اشتعال انگیزی نامناسب، آزادئ صحافت میں احتیاط کی ضرورت" (کوفی عنان)

            اقوان متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی عنان نے ان اخباروں پر تنقید کی ہے جنہوں نے توہین آمیز کارٹون شائع کیے مسٹر عنان نے کہا کہ ایک حساس اور اشتعال انگیز معاملہ ہے اس کاوبال ساری دنیا میں دیکھنے میں آتاہے۔ سکریٹری جنرل نے کہا کہ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیوں اخبارات ایسے جارحانہ اور اشتعال پیدا کرنے والے کارٹون شائع کرتے ہیں مسٹر عنان نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا  کہ وہ آزادئ تقریر اور آزادئ اظہار رائے کے مخالف نہیں ہیں لیکن جو کارٹون شائع ہوئے ہیں وہ اشتعال انگیز ہیں آزادئ اظہار کو کھلا لائسنس نہیں ہے اس معاملہ میں ذمہ داری اور صحیح فیصلہ کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیوں کسی ایڈیٹر نے اس نازک مرحلے میں ایسے کارٹون شائع کرنے کا قدم اٹھایا۔ اس مرحلے میں ایسے کارٹون کی اشاعت نے جلتے پر تیل چھڑکنے کا کام کیاہے۔ گستاخ رسول کارٹون آئیڈاڈنمارک کے اخبار نے شائع کیا اس کے بعد اس کارٹون کو بیس ممالک میں شائع کیاگیا اور انٹرنیٹ پر وسیع تر اسکے اشاعت کی گئی۔ ان کارٹونوں کی اشاعت پر پوری مسلم دنیا میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ اس ہفتہ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ کنڈالیزارایش نے ایران اور شام پر الزام لگایا کہ وہ اس معاملہ میں مسلم جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس کی تردید کرتے ہوئے شام کے سفیر برائے امریکہ عماد مصطفیٰ نے کہا کہ تشدد کیلئے لبنان اور دمشق کے شرپسند عناصر ذمہ دار ہیں تاہم مسٹر عنان نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ حکومتوں نے اس معاملے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیاہے۔

 

٭٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو