نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ماہ نامہ شاداب کی علمی وادبی خدمات ڈاکٹر حضور محمدمعین الدین، اسوسیٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج گلبرگہ

 

ماہ نامہ شاداب کی علمی وادبی خدمات

ڈاکٹر حضور محمدمعین الدین، اسوسیٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج گلبرگہ

 

            اردو زبان باوجود اپنی کم عمری کے قدیم زبانوں کی طرح علم و ادب سے مالامال ہے۔ اس کی ترقی و ترویج واشاعت میں کئی عوامل اور عناصر نے حصہ لیاہے۔ اردو ادب کے ابتدائی دور میں صوفیائے اکرام نے اس زبان کو پروان چڑھانے  میں حصہ لیاتھا۔ ان بزرگوں سے ادارت رکھنے والوں نے اپنے اسلاف کے کارناموں کے بڑی جانفشانی سے محفوظ رکھا۔ سینکڑوں محفوظات جو حالات سے متاثر ہونے کے باوجود آج محفوظ حالت میں ہم تک پہنچتے ہیں یہ ہمارا قومی ورثہ ہیں۔ اس زمانہ میں طباعت کی سہولت نہیں تھی اس کے باوجود ہمارے بزرگوں نے مختلف علوم و فنون، تاریخ و ادب، فن و فلسفہ ہر قسم کے علمی وادبی سرمایہ کو بڑی ریاضت کو برداشت کرکے محفوظ رکھا۔ ہزاروں صفحات تلف ہوگئے جو بھی موجود ہیں اس سے ہماری قومی تاریخ لکھی جاسکتی ہے۔

            موجودہ دور میں علم وادب کی ترویج کا کام آسان ہوگیاہے۔ گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصہ گذرچکا۔ چھاپے کی مشین کی ایجاد کی وجہ سے طباعت اور اشاعت کی گرم بازاری ہوئی۔ ہندوستان مین چھاپہ کی مشین کا استعمال پوروپی مشنریوں کی وجہ سے ہوا۔ مذہب عیسوی کو اشاعت اور تبلیغ کیلئے یوروپی مشنریوں نے ہندوستان کی زبانوں میں چھاپے کی مشین کو استعمال کیا۔ اردو زبان کی اشاعت کیلئے چھاپہ خانہ ایک سہولت بخش ایجاد تھی۔ جس کی وجہ سے اخبارات رسائل اور کتب کی شاعت ہونے لگے۔

            زبانوں کی ترویج و اشاعت میں روزنامچوں کے علاوہ ماہ ناموں اور رسائل نے گرانقدر خدمات انجام دیں ہیں۔ علم و ادب کی اشاعت کیلئے چھاپہ خانوں کی خدمات ہمیشہ یادرکھی جائے گی۔ حیدرآباد میں شمس العمراء کا "سنگی چھاپہ خانہ" تاریخی اہمیت کا حامل رہاہے۔ اس چھاپہ خانہ کا اہم مقصد سائنسی موضوعات پر رسالہ جات کو شائع کرنا تھا۔ یہ تاریخی کارنامہ ہماری ادبی و علمی تاریخ کا زرین صفحہ ہیں۔ ان رسالوں کا صحت منداثریہ ہوا کہ چھاپہ خانوں سے مختلف رسائل شائع ہونے لگے۔

            حیدرآباد صدیوں سے علوم و فنون کا گہوارہ رہاہے۔ اردو زبان و ادب کیلئے اس شہر میں جو خدمات انجام دیں گئی۔ اس کی ایک مستقل تاریخ ہے۔ اس شہر میں اردو زبان وادب کی ترویج و اشاعت میں نہ صرف مقامی عناصر نے حصہ لیا بلکہ حیدرآباد سے باہر کی خدمات کو بھی فراخدلی سے قبول کیا۔ خاص طورپر شمالی ہند سے جو بھی تحریک اٹھی اس کے اثرات دکن پر بھی ہوئے۔ علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک اس ضمن میں شاندار مثالیں ہیں ۔ ان تحریکات کے ترجمان رسائل کو بڑی خندہ پیشانی سے دکن میں بھی قبول کیاگیا۔ اسی طرح اقطائع ہند کے مختلف شاعروں اور ادیبوں اور علمائے کرام کی خدمات کو حیدرآباد میں بڑے شوق و ذوق سے قبول کیاگیا۔ اس کا نتیجہ نکلا کہ حیدرآباد سارے ہندوستانی ذہن کا نمائندہ شہر بن گیا۔ حیدرآباد کو اس طرح مثالی شہر اردو کا گہوارہ علوم و فنون بنانے میں اخبارات ورسائل (ماہ نامہ ہفت روزہ اخبارات) نے بنیادی خدمات انجام دی۔ سرسید کے "تہذیب الاخلاق" آزاد کا "الہلال" مولانا محمد علی جوہر کا "ہمدرد" اور مولانا ظفر خاں کا "زمیندار" چند مثالیں ہیں۔ اس طرح لاہور پنجا ب سے شائع ہونے والا رسالہ "مخزن" خواجہ حسن نظامی کا دہلی سے "منادی" دیانرائن نگم کانپور سے "زمانہ" اور نیاز فتح پوری کا "نگار" حیدرآباد میں بڑے شوق سے پڑھاجاتاتھا۔ اس کے علاوہ بھی اور ماہ نامے تھے جو حیدرآباد میں ذہنی بیداری اور ادبی معیار کو بلند کرنے کا سب بنے۔ حیدرآباد میں بھی علمی و ادبی ماہ نامے شائع ہونے لگے ان کی بھی ایک مستقل تاریخ ہے۔ یہاں چند اہم ماہ ناموں کا صرف ذکر کیاجاتاہے۔

            ہندوستان کی آزادی سے قبل مملکت آصفیہ میں کئی ماہ نامے شائع ہوئے تھے۔ اس دور کے روزناموں کے خصوصی ایڈیشن اتنے ضخیم ہوتے تھے کہ ان سے ماہ ناموں کی ضرورت پوری ہوجاتی تھی۔ مثلاً روزنامہ "صحیفہ" نہ صرف روزنامہ تھا وہ اکثر اپنے خصوصی اشاعتوں میں وقیع مضامین بھی شائع کرتاتھا۔ اس دور میں مذہبی رسائل کی خاصی اشاعت ہوئی تھی۔ رسالہ "نور" اور مولاناعبدالوہاب عندلیب کا "ارشاد" اہم ماہ نامے تھے۔ عبدالقادر سروری نے "مکتبہ" جاری کیاتھا۔ حیدرآباد سے اتنے اردو کے ماہ نامے اور ہفت روزہ اخبار نکلے ہیں کہ اس شہر کو ان کی وجہ سے خاصی شہرت اور اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ جہاں چند علمی وادبی رسائل اور ماہ ناموں کے نام درج کئے جاتے ہیں۔ جن کے مطالعہ سے ہمارے بیان کی تائید ہوتی ہے۔ حیدرآباد میں دیگر مقامات سے آنے والے رسائل اور اخبارات کی فہرست بھی طویل ہے۔ حیدرآباد کے ہفت روزہ اور ماہ نامے حسب ذیل ہیں۔

            رہنمائے تلنگانہ، موج، راز حیات، شعور، نیامینار، آندھراپنچ، ریگل نیوز، سازادب، دوشیزہ، آئینہ، محب وطن، نورجات، ترانہ ہندی، مبصر، آئینہ خیال، اسباق دکن، دوماہ کامل، ترقی اردو، میزانالبیان وغیرہ۔ کامریڈ مخدوم محی الدین کی سرکردگی میں "نیادور" کافی مشہور ہوا۔اوج یعقوبی کی نگرانی میں "رابطہ اردو" اور "برگ آوارہ" شائع ہوتے رہے۔ "نیاآدم" امجد باغی نکالتے تھے۔ "یتشہ" ہفت روزاخبار تھا۔ جو اعظم راہی اور حسن فرخ کی ادارت میں شائع ہوتاتھا۔ ادارہ ادبیات اردو کا ترجمان "سب رس" آج بھی سارے ملک میں ایک اہم ماہ نامہ ہے۔ ماہ ناموں کی تاریخ میں بی ایم خان کا "ہندوستانی ادب" اور مختار کرمانی کا "ایوان" اہم ماہ نامے تھے۔ "سیوا" غیاث صدیقی کی ادبی دلچسپیوں کا مظہرتھی۔ سلیمان اریب کا رسالہ "صبا" نے کئی برس تک ادبی دنیا میں اپنا وجود قائم رکھاتھا۔ ناصر کرنولی کا "پونم" اور مصطفیٰ کمال کا "شگوفہ" دونوں ماہ ناموں نے ادبی صحافت میں نام اور مقام پیداکیاہے۔ خاص طورپر "شگوفہ" مزاحیہ ادب کے فروغ میں تاریخ ساز خدمت انجام دی ہے۔

            مختصر یہ کہ حیدرآباد میں علمی وادبی صحافت کی ایک تاریخ ہے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس طرح حیدرآباد کی اردو صحافت پر تحقیقی کام ہوئے ہیں اسی طرح حیدرآباد کے اردو رسائل کی علمی وادبی خدمات کے مطالعہ سے مفید اور مبسوط کام کی تخلیق ہوسکے گی۔

            حسب ذیل سطور میں رسالہ "شاداب" کی ادبی و علمی خدمات کا جائزہ لیاگیاہے۔ رسالہ "شاداب" کا پہلا شمارہ ڈسمبر ١٩٨٣ء میں شائع ہوا۔ اس کے مالک اور ایڈیٹر محمد قمرالدین صابری ہیں۔ یہ رسالہ دراصل ان کے قائم کردہ علمی ادارہ مکتبہ "شاداب" کا ترنمان ہے۔ اس ادارہ کے تحت ایک معیاری کتب خانہ ہے۔ اور مکتبہ "شاداب" سے کئی اہل قلم، دانشور، صحافی، شاعر اور ادیب وابستہ ہیں گذشتہ ربع صدی سے اس ادارے نے نہایت خموشی سے اور استقامت کے ساتھ اردو ادب کی خدمت انجام دی ہے۔ "شاداب ماہ نامہ ہے۔ جس پر کسی مخصوص مکتبہ خیال کی چھاپ نہیں ہے۔ اس کو مذہبی رسالہ بھی نہیں کہہ سکتے اس رسالے کے صفحات مذہب، ادب، شاعری، ادبی صحافت، تاریخ، فلسفہ غرض زندگی کے ہر شعبہ کی ترجمانی کی ہے۔ اس کے صفحات پر کہنہ مشق شاعروں اور ادبیوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کی گئی ہے۔ جن کی وجہ سے کئی نئے اہل قلم آگے بڑھ سکے۔ اس ماہ نامہ کی معنویت یہ ہے کہ ١٩٨٣ء سے تادم تحریر بلاناغہ یہ شائع ہوتے رہاہے۔ اس ماہنامہ میں اشتہارات نہیں ہوتے، حکومت یا کسی اور ادارہ کی مالی امداد سے یہ ہمیشہ محروم رہاہے۔ اس ماہ نامہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی بھی قسم کی معاصرانہ چشمک سے دور رہاہے۔ دوستی تو سب سے کی ہے لیکن دشمن ایک بھی نہیں، یہ صرف اس کے مدیر کی شخصیت کی وجہ سے ہے۔

            قمرالدین صابری ایک سنجیدہ اور مدبر شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ حکومت آندھرا پردیش میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائزرہ چکے ہیں۔ اس لیے ان کی طبیعت میں توازن اور فکر میں گہرائی ہے۔ انہوں نے "شاداب" کو کسی مالی منفعت کی خاطر جاری نہیں کیا اور نہ آج کل کے ماحول میں ادبی ماہ ناموں سے مالی فائدہ حاصل ہوسکتاہے۔ "شاداب" صرف اردو زبان و ادب کی خدمت کے تحت جاری ہوا اور اس کی خدمات اسی لیے بے لوث ہیں۔

            مکتبہ "شاداب" علمی وادبی محفلوں کیلئے بھی حیدرآباد میں مشہور اور مقبول ہے۔ "شاداب" نے گذشتہ ربع صدی میں جو مضامین شائع کئے اور جوشعری تخلیقات اس کے صفحات پر آئیں ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان سب کے مطالعہ سے حیدرآباد میں شعروادب کے تدریجی ارتقاء کا حال معلوم ہوتاہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے ادبی وشعری رجحانات کا بھی پتہ چلتاہے۔ ان مضامین میں تنوع ہے ہر قسم کے موضوعات پر مختلف اہل قلم حضرات نے خامہ فرسائی کی ہے۔

            "شاداب" کی ایک اہم خصوصیت اس کا سنجیدہ لب و لہجہ ہے اس رسالہ کی علمی وادبی شان اس کی متانت میں پوشیدہ ہے۔ "شاداب" نے جوخصوصی شمارے شائع کئے اس کی ایک مستقل تاریخ ہے۔ اس ماہ نامے کے کئی خصوصی شمارے اردو ادب میں ایک اضافہ ہیں مثلاً حیدرآباد کے شعراء اس کے خصوصی نمبر شائع ہوئے جس کو دستاویزی اہمیت حاصل ہوگئیں۔ مشہور عالم دین حمیداللہ (مقیم پیرس) کی حیات پر "شاداب" کا خصوصی نمبر ایک یادگار کارنامہ ہے۔ ہر چند کہ یہ مختصر ہے لیکن پروفیسر حمیداللہ کی گرانقدر خدمات کے مطالعہ کیلئے بنیادی معلومات فراہم کرتاہے۔ مشہور مورخ، ماہر تعلیم اور سماجی خدمت گذار پروفیسر بی شیخ علی کی خدمات کا احاطہ کرنے کے لیے "شاداب" کا ایک خصوصی شمارہ شیخ علی نمبر شائع ہواہے۔ پروفیسرشیخ علی منگلوروگوایونیورسٹیوں کے بنیاد گذار وائس چانسلر تھے۔ وہ بنیادی طورپر انگریزی زبان کے مورخ ہیں ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اردو میں بھی گرانقدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ ان کے فن اور فکر پر "شاداب" کا خصوسی نمبر معرکہ کی چیز ہے۔ اس خصوصی شمارے میں فکرونظر کی نئی نئی راہوں کو روشن کیاگیاہے۔ پروفیسر شیخ علی کی خدمات کو کچھ اس انداز سے پیش کیاگیاہے کہ بیسویں صدی کی علمی تاریخ اور اکیسویں صدی کے مطالباتِ زندگی کا مطالعہ اور محاسبہ ہوگیاہے۔

            مختصر یہ کہ رسالہ "شاداب" حیدرآباد کے اردو رسائل میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہاہے۔ ہر چند اس رسالہ میں ضخامت نہیں ہے لیکن باوجود اتنی تنگ دامنی کے اس میں غضب کا پھیلاؤ اور وسعت ہے جو اس کے ایڈیٹرکے خلوص کا نتیجہ ہے۔

 

٭٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو