نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

"پروفیسر اعبدالحمیداکبر کی تحقیقی خدمات، ان کے تحقیقی مقالہ کے آئینے میں" (حضرت مولانا انوراللہ فاروقی) ڈاکٹر حضور محمدمعین الدین، اسوسیٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج گلبرگہ

 

"پروفیسر اعبدالحمیداکبر کی تحقیقی خدمات، ان کے تحقیقی مقالہ کے آئینے میں"

(حضرت مولانا انوراللہ فاروقی)

ڈاکٹر حضور محمدمعین الدین، اسوسیٹ پروفیسر۔ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج گلبرگہ

 

            جب کبھی تاریکی میں شمع روشن ہوتی ہے۔ روشنی تاریکی پر غالب آجاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال اس وقت دیکھا جاسکتاہے جب کسی شہر میں دانش گاہ یا یونیورسٹی کی شکل میں علم کی شمع روشن ہوتی ہے تو جہالت اور لاعلمی کااندھیرا ازخود دور ہوجاتاہے۔ گلبرگہ جو بہمنی دور حکومت میں نہ صرف جنوبی ہند کی سیاست کا مرکزتھا بلکہ اس شہر کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل تھا کہ گلبرگہ کو مشرقی وسطیٰ میں علوم و فنون کا گہوارہ سمجھاجاتاتھا۔ سوسوا سال کے بعد گلبرگہ میں جو علم کی شمع روشن کی گئی تھی وہ بیدر منتقل ہوگئی تاآں کہ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد یہ شمع بھی بے نور ہوگئی تاہم بہمنی سلطنت کی  کو کھ سے جنم لینے والی ریاستوں نے بہمنیوں کی روایات کو آگے بڑھایا۔ اسطرح گلبرگہ جو کبھی گہوارہ علم و ادب تھا، برسوں تک اجڑے دیار کی شکل میں اپنے ماضی کی یاد دلاتے رہا۔ آصف جاہوں کے دورحکومت میں یہاں عثمانیہ انٹرمیڈٹ کالج قائم ہوا یہ انٹرمیڈٹ کالج قائم ہوا یہ انٹرمیڈٹ کالج قائم ہوا یہ انٹرکالج دراصل گلبرگہ میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا بنیادی پتھر تھا "عثمانیہ یونیورسٹی کے تحت قائم کردہ گلبرگہ کا یہ کالج ایک ذہنی انقلاب کا باعث بنا یہیں سے گلبرگہ کا نیا تعلیمی دور شروع ہوتاہے۔

 

            گلبرگہ کالج کے اثر سے کئی دانشور قانون داں، افسانہ نگار اور شاعر پیدا ہوئے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد جب جامعہ عثمایہ کے کردار کو ختم کردیاگیا تو گلبرگہ کا یہ کالج ملک کے عام کالجوں کی طرح ایک گورنمنٹ کالج بن گیا آزادی کے بعد یہ کالج اردو زبان وادب کا ایک نمائندہ کالج تھا۔ اسکی بنیادوں میں اردو تہذیب و تمدن خاص طورپر سیکولرزم کی روایات کام کررہی تھیں۔ پھر گلبرگہ کو تعلیمی دنیا میں ابھرنے کا جو موقع ملاتھا وہ ختم ہوگیا گلبرگہ کو اہمیت دینے کے بجائے نئے حکمرانوں نے کرناٹک کے ایک شہر دھارواڑ کو انتخاب کیاوہاں ایک عظیم الشان کرناٹک یونیورسٹی قائم کی گئی۔ اس یونیورسٹی کے قیام میں اس علاقے کو ایک نئی زندگی عطا کی صرف چند برسوں میں اعلیٰ تعلیم کے اتنے شاندار مواقع نصیب ہوئے کہ ان سب کا اعتراف ضروری ہے لیکن اردو اور اردو والوں کیلئے کرناٹک یونیورسٹی سے وہ حق وانصاف حاصل نہ ہوسکا جو گلبرگہ کے عوام کا تھا۔ آخرکار حق کو فتح ہوئی گلبرگہ میں بھی ایک شاندار علم کی شمع روشن ہوئی اور یہاں جو اندھیرا پھیل رہاتھا۔ اس کا خاتمہ ہوا۔ گلبرگہ یونیورسٹی کو قائم ہوئے صرف 32 سال ہورہے ہیں لیکن اس جامعہ کے قیام کے بعد سے زندگی کے مختلف شعبہ روشن ہوگئے۔ یہاں اس جامعہ کی تمام خدمات کا جائزہ لینا مقصود نہیں ہے صرف شعبہ اردو کی خدمات کو اگر پیش نظر رکھاجائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں گلبرگہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو اردو بولنے والوں کی ضرورتوں اور تمناؤں کو بڑی حدتک پورا کیاہے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد اردو بولنے والوں کی معیشت متاثر ہوگئی تھی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے امکانات محدود ہوگئے تھے گلبرگہ نیورسٹی کے قیام کی وجہ سے کمزور سے کمزور خاندانوں کے طلبا اعلیٰ تعلیم کے حصول میں کامیاب ہوئے شعبہ اردو میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اعلیٰ تدریسی خدمات کی وجہ سے نئی نسل کی ذہنی ترتیب میں آسانی ہوئی۔ اردو شعروادب سے دلچسپی شہر گلبرگہ کی شناخت کا پیمانہ تھی۔ یونیورسٹی کے قیام کے بعد تشنہ لبوں کی پیاس کو بجھانے کا اہتمام ہوسکا۔

            گلبرگہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے قیام سے نہ صرف نئی نسل کو استفادے کا موقع ملاوہیں پر اس شعبہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسر صاحبان کا اجتماع ایک کہکشاں کی طرح نظر آنے لگا۔ اسکے ابتدائی دور میں پروفیسر محمد عبدالرزاق فاروقی، ڈاکٹر راہی قریشی، ڈاکٹر قیوم صادق اور ڈاکٹر لئیق صلاح جیسے اساتذہ وابستہ ہوئے۔ متذکرہ اساتذہ نے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق کے لئے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں اور یہ اعلیٰ روایت نہایت مستحکم بنیادوں پرقائم ہوئی۔ متذکرہ اساتذہ کے بعد اس شعبہ کا دوسرا دور شروع ہوتاہے۔ جسکے رہنماکا گراں قدر بار پروفیسر عبدالحمید اکبر کے کندھوں پر پڑا۔

            پروفیسر اکبرصاحب کی ساری زندگی جدوجہد کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ انہیں اپنے زندگی کے ابتدائی مراحل میں علم و ادب اور درس و تدریس سے عملی طورپر وابستہ ہونے کا موقع نہیں ملا۔ وہ مجبوراً بنک کی ملازمت کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ ملازمت انکی زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے ضرورایک سہارا تھی لیکن ان کی علمی ادبی اور خاص طورپر مذہبی سکون کیلئے بنک کی ملازمت موزوں نہیں تھی، لیکن انہوں نے برابر اپنے طورپر خود کو عملی اور مذہبی ماحول سے وابستہ رکھا۔ بنک کا غیر شاعرانہ ماحول ان کے درمیان حائل نہ ہوسکا ایک دلچسپ راز کا انکشاف ضروری ہے۔ وہ یہ کہ پروفیسر حمیداکبر بنک کے ملازم تو ضرور تھے لیکن انکی روحانی تڑپ اور علمی لگن کا اندازہ گلبرگہ کی چند بزرگ ہستیاں برابر محسوس کررہے تھے۔ ان کو مذہبی جلسوں میں مدعو کرتے اور خودحمید اکبر نہایت خشوع سے ایسی نورانی محفلوں سے خود کو وابستہ کرتے سب سے پہلے نیشنل گروپ آف کالجس والوں نے پہلی مرتبہ حمید اکبر کی شخصیت میں چھپے ہوئے استاد کو تلاش کیا اور تقرر کیا۔ یہیں سے حمید اکبر صاحب کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتاہے حمید اکبر نے اپنی طبیعت کے مناسب سے تحقیقی خدمات کا آغاز کیا اور پونہ یونیورسٹی نے ان کی خدمات کو قبول کیا اور ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے نوازا۔

            مندرجہ بالا تمہید کے بعد جب ہم حمیداکبر کی تحقیقی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں تو بغیر کسی ذہنی تحفظ کے یہ تسلیم کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹرحمیداکبر کا تحقیقی کام اردو کے عظیم تحقیقی خدمات کا ایک تسلسل ہے" انہوں نے اردو تحقیق کی ایک عظیم روایات کی نہ صرف خدمات کی ہے بلکہ اسکو آگے بڑھایاہے۔ یہ روایت بابائے اردو ڈاکٹر عبدالحق مرحوم نے قائم کی تھی ڈاکٹر مولوی عبدالحق کا گراں قدر تحقیقی مقالہ "ارو کی ابتدائی نشونما میں صوفیائے کرام کا حصہ "آج بھی خضرراہ ہے ڈاکٹر عبدالحق" ڈاکٹر زورؔ، پروفیسر سروری، امتیاز علی عرشی، مالک رام، سید مسعود حسن رضوی، ڈاکٹر قتیل، ڈاکٹر سیدہ جعفر، ڈاکٹرزینت ساجدہ اور بہت سے محققین کی خدمات مختلف موضوعات اور عنوانات کا احاطہ کرتے رہی لیکن ایک اہم بات بلکہ بنیادی بات ہر وقت جلوہ دکھاتی رہی وہ یہ کہ مذہبی تعلیم اور علمائے کرام کی خدمات نے اردو زبان و ادب کی حفاظت اور ترویج واشاعت میں گراں قدر خدمات برابر جاری وساری رہی ہیں۔ ڈاکٹر حمیداکبر نے حیدرآباد کی ایک اثرانداز مذہبی شخصیت حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی کو اپنی تحقیقی موضوع بنایا۔ بظاہر ان کا یہ مقالہ سوانح نگاری کی تعریف میں آتاہے۔ لیکن باریک بینی (Micro Analysis) سے مطالعہ کیاجائے تو راقم الحروف کا یہ نظریہ واضح ہوتاہے کہ بنیادی طورپر ڈاکٹرحمیداکبر نے صوفیائے کرام کی یاعلمائے کرام کی خدمات کو اردو زبان وادب کے ارتقاء کا ایک اہم حصہ ثابت کیاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انوار اللہ فاروقی جن کو فضیلت جنگ کا خطاب بھی حاصل تھا اپنے عہد کے ایک مشہور عالم دین تھے وہ آصف جاہی خاندان کے دوبادشاہوں کے استاد بھی رہ چکے تھے۔ اور ان کی اولاد کو بھی پڑھانے کا شرف رکھتے تھے انہیں مملکت آصفیہ کا وزیر مذہبی امور بھی بنایاگیا تھا انہوں نے کئی وقیع اور معیاری دینی کتابوں کی تالیف کا کارنامہ انجام دیا فضیلت جنگ شاعر بھی تھے اور ساتھ ہی ساتھ عالم دین ہونے کی حیثیت سے کئی دینی اور علمی کتابوں کے مصنف، مولف اور مرتب بھی تھے انکا سب سے اہم کارنامہ مدرسہ جامعہ نظامیہ کا قیام ہے۔ اس درس گاہ کا "ذریعہ تعلیم اردو" تھا۔ ہر چند یہاں دینی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی چونکہ یہ تعلیم اردو میں دی جاتی تھی اس لئے اردو زبان و ادب کے فروغ میں جامعہ نظامیہ کے خدمات کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔

            ڈاکٹر حمید اکبر کی تحقیقی خدمات نے اس بات کو واضح کیاہے کہ حیدرآباد میں انوار اللہ خاں فضیلت جنگ کی علمی خدمات اور خاص طورپر ان کے قائم کردہ جامعہ نظامیہ کے خدمات کسی طرح سے بھی جامعہ عثمانیہ سے بھی کم نہیں ہے۔ ڈاکٹر حمیداکبر نے اس خیال کو اپنے مقالے میں وضاحت سے بیان نہیں کیا کہ جامعہ عثمانیہ اور جامعہ نظامیہ دونوں الگ الگ تعلیمی ادارے ہیں وہ اس بحث میں گئے بغیر نہایت کمال ہوشیاری سے صرف جامعہ نظامیہ کی خدمات کو کچھ اس انداز سے واضح کیاہے کہ دیانت دارقاری فضیلت جنگ کے مقام اور مرتبہ اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ نظامیہ کے خدمات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ اس منزل پر راقم الحروف اپنی یہ ذمہ داری محسوس کرتاہے کہ جامعہ نظامیہ اور جامعہ عثمانیہ دونوں پر حقائق کی روشنی میں اظہار خیال کیاجائے۔ جامعہ نظامیہ دراصل اردو زبان و ادب کے انتہائی عروج کا ماحصل ہے جسکے کے پیچھے اردو بولنے والوں کا سماجی سیاسی اور تعلیمی شعور کارفرمارہا ہے ان تمام چیزوں کو حاصل کرنے میں جامعہ نظامیہ اور اس سے قبل حیدرآباد کے مدرسہ شجائیہ اور اس سے قبل حیدر آباد مدرسہ فخریہ کے کارنامے اور اس سے قبل مولانا قمرالدین کا قائم کردہ مدرسہ بنیادی خدمات انجام دے چکے تھے۔ شمالی اور جنوبی ہند کا صحت مند امتزاج اور اردو زبان و ادب کا ارتقاء جو دبستانِ اورنگ آباد میں زیادہ نشونما پاکر حیدرآباد منتقل ہواتھا۔ جس نے ایک نئے تمدن کی داغ بیل ڈالی تھی۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام کا محرک بنا۔

            اس طرح جامعہ عثمانیہ دراصل مملکت آصفیہ کے قدیم مدارس کا نقطہ عروج ہے جس میں مدرسہ جامعہ نظامیہ اور مدرسہ دارالعلوم اور مدرسہ شجائیہ کا زیادہ اثر دیکھاجاسکتاہے۔ بدلتے ہوئے تعلیمی مزاج اور مذاق کا اثر جس کو ہم یوروپی زبانوں کا اثریا انگریزی تمدن کا اثر کہہ سکتے ہیں وہ بھی جامعہ عثمانیہ کی بنیادوں میں شامل رہا اس طرح اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ اردو بولنے والوں کا کارواں روان دواں نظرآتاہے۔ حمیداکبر متذکرہ علمی و ادبی ارتقاء کی بنیادوں کو مولانا انور اللہ خاں فضیلت جنگ کی خدمات میں تلاش کیاہے۔

            کسی بھی علمی اور ادبی موضوع پر اظہار خیال کرنا ایک ذمہ داری کا کام ہے خاص طورپر تحقیقی مقالوں میں جب محقق کا تنقیدی شعور ابھرکر سامنے آتاہے تو احتیاط لازمی ہوجاتاہے۔ حمید اکبر بڑی پاکیزہ اور محفوظ راہ دکھائی ہے انہوں نے بحث و مباحثہ کا دراازہ کھولے بغیر صرف اپنے موضوع کے حدتک خود کو مرکوز کرلیاہے۔ اور فیصلہ اپنے قاری پر چھوڑ دیاہے انکا تحقیقی مقالہ حضرت انور اللہ فاروقی کسی متنازعہ بحث کو جنم نہیں دیتا بلکہ فضیلت جنگ کے صرف فضائل ہی کو بیان کرتاہے، انکی خدمات کا اعتراف کرتاہے اور نہایت وضاحت بیان سے ان کے جملہ تصانیف کا احاطہ کرتاہے۔ فضیلت جنگ کے دور کے مسائل اور معاملات کو بیان کئے بغیر صرف اپنے موضوع سے متعلق مواد پیش کرتاہے۔ یہی پروفیسر حمیداکبر کا تحقیقی رویہ ان کی شناخت کا پیمانہ بن گیاہے۔ پروفیسر حمیداکبر کے لئے یہ آسانی تھی کہ جامعہ نظامیہ کے پس منظر اور خود اس دانش گاہ کے بانی کی حیات کا پس منظر کو کچھ اسطرح بیان کیا جائے۔ بحث و مباحثہ کیلئے گنجائش پیدا ہو۔

            حمیداکبر اپنی تحقیقی رویہ میں اس وضع کی کسی گنجائش کو پیدا ہونے نہیں دیتے یہاں انکارویہ سنجیدہ اور شائستہ جو انکے اپنے مزاج کی غمازی بھی کرتاہے۔ حیدرآباد میں یا مملکت آصفیہ میں تعلیم اور علوم و مصارف کے ارتقاء کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے پروفیسر حمیداکبر نے اپنے مقالے کو اردو میں نہایت شاندار انداز سے اس طرح پیش کیاہے کہ نواب فضیلت جنگ مولانا انوراللہ خان کی سوانح حیات متذکرہ خدمات سے جگمگانے لگتی ہے۔ مختصر یہ کہ پروفیسر حمیداکبر کی یہ تحقیقی خدمات اردو والوں کیلئے ایک تحفہ ہے یہاں اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ پروفیسر حمیداکبر کا مقصد علوم و مصارف کے ارتقاء کا جائزہ لینا ہے لیکن انہوں نے اپنے تحقیقی مواد، راست ماخذاتِ اول حاصل کئے اسطرح شعبہ اردو گلبرگہ یونیورسٹی کا یہ دوسرا دور اس شعبہ میں جاری تحقیقی خدمات کا تسلسل ہے۔ اور پروفیسر حمیداکبر اس کارواں کے میرکارواں ہیں۔

*****

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو