نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچے من کے سچے

 

بچے من کے سچے

            بچے من کے سچے، بچے بھگوان کا روپ، بچے دل کے صاف، بچے ماں پاب کے جینے کا مقصد،  بچے ملک کا مستقبل اور جانے کیا کیا بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ بچوں کی اہمیت ان سے پوچھیں کہ جن کے یہاں شادی کے کئی کئی سال اولاد نہیں ہوتی۔  اولاد کیلئے لوگ کیا کیا نہیں کرتے۔ حصول اولاد کیلئے درگاہ، مندر، مسجد، پوجاپاٹ، صدقہ خیرات، ہزاروں بلکہ استعطاعت کے مطابق لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں۔  لیکن مراد پوری نہیں ہوتی۔ یہ تو رہی بات چند لوگوں کی جنہیں اولاد نہیں ہوتی۔ اکثر کو شادی کے فوری بعد اولاد ہو جاتی ہے۔ اب اولاد ہو اور ان میں کوئی قدرتی نقص ہو، اولاد ہو ان میں کوئی بیماری ہو، اولاد ہو اور ڈاکٹروں کی غلطی سے ان میں کوئی ہمیشہ رہنے والی بیماری لگ جائے تو کیا ہو۔ ایسے والدین کی زندگی تو ایک عذاب کے مانند ہوتی ہے۔ زندگی کی ساری کمائی ان کے علاج میں ڈال دیتے ہیں۔ فیس بک پر آئے دن کئی ایسے اشتہار آتے ہیں کہ بچے کو فلاں بیماری ہے فلاں آپریشن ہے 16کروڑ کا انجکشن کی ضرورت ہے  یا کڑوڑؤں کا اپریشن کی کرنے کی ضرورت ہے مدد کریں وغیرہ۔

            کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ صحیح ہے۔ کیا واقعہ کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو دور کرنے کیلئے کروڑوں روپیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔  ہم کہتے ہیں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ کوئی بیماری ایسی نہیں ہے کہ جس کو دور کرنے کیلئے لاکھوں یا کروڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

            ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ بیماری کیوں ہوتی ہے۔ ہم جن چیزوں سے بنے ہیں یعنی ہوا، پانی، آگ (گرمی) یعنی مٹی میں رہنے والی چیزیں جو کی قدرتی طورپر ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ وہ کب داخل ہوتی ہیں یہ ہم نہیں جانتے اور جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ جب ماں کے پیٹ میں ایک نطفہ داخل ہوتا ہے تو اس نطفہ میں یہ تمام چیزیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پروان چڑھتی ہیں۔ اگر ماں صحیح غذا اور زندگی کے جینے کے صحیح طریقہ پر عمل کرتی ہے تو اس سے ہونے والی اولاد سو فیصد تندرست ہوتی ہے۔ جہاں ماں نے اپنے روزمرہ کی زندگی میں اور کھانے پینےمیں کچھ گڑبڑھ کرتی ہے تب اس کی صحت تو متاثر ہوتی ہی ہے اور اس سے ہونے والے بچے کی بھی صحت متاثر ہوتی ہے۔

            مقصد کلام یہ ہے کہ بچوں میں ہونے والی بیماری تھیلیسمیا جو کہ جان لیوا ہے یااب تک سمجھی جاتی تھی۔  اب یہ بیماری جان لیوا یا ہمیشہ رہنے واہی نہیں رہی۔ یہ صرف اور صرف ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری اور ڈاکٹر نمیتاکی کوششوں سے ممکن ہو پایا۔

            ڈاکٹر نمیتا اور ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری نے طبی تاریخ کو دوبارہ لکھا ہے۔ انہوں نے تھیلیسیمیا کا حل ڈھونڈ لیا ہے، جو اب تک موروثی اور لاعلاج سمجھا جاتا تھا۔

مریض، جو زیادہ تر صورتوں میں بچہ ہوتا ہے، کسی دوسرے کے خون پر زندگی بھر جینا پڑتا ہے اور جوان ہونے سے ایک دن پہلے مر جاتا ہے۔

جدید میڈیکل سائنس کے پاس اس کا کیا حل ہے؟ اس کا واحد حل باقاعدگی سے خون کی منتقلی اور دوسرا بون میرو ٹرانسپلانٹ ہے جو ایک عام مریض کیلئے بہت مشکل ہے۔

جب میڈیکل انڈسٹری - میڈیکل سائنس اب تھیلیسیمیا پر اپنی گرفت کو کم نہیں کرتی ہے تو ڈاکٹر بی آر سی اپنا ایک منفرد حل نکالتے ہیں جو ڈی آئی پی ڈائیٹ کے ساتھ 'لیونگ واٹر تھراپی' لال اور ہرا جوس  کا استعمال ہے۔ جن بچوں کو ابتدائی بچپن سے یا بعض اوقات اپنی پیدائش سے ہی باقاعدگی سے خون کی منتقلی سے گزرنا پڑتا تھا وہ تقریباً ایک ماہ کے اندر اس سے آزاد ہو گئے ۔ ان کی جان بچ گئی اور اب وہ 'زندگی کا رقص' کرتے نظر آ رہے ہیں۔

حل بہت آسان  ہے۔ R.O پانی کو جھرنے کے پانی سے تبدیل کرنا اور DIP ڈائیٹ پر انحصارکرنا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس کی پیروی کی اور پھر وہ ایک ماہ کے اندر ٹھیک ہو گئے۔ ان کے لیے سورج کی روشنی، زمین پر ننگے پاؤں چہل قدمی اور ورزش نے بھی صحت یابی کی رفتار کو تیز کیا۔

            اس حیران کن کارنامے کو دیکھنے کے لیے امریکا سمیت سات مختلف ممالک کے معززین آئے۔ ایک ماہ کے اندر سینکڑوں بچوں کی خون کی منتقلی بند ہو گئی۔ یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ مزید یہ کہ انہیں دکھایا گیا کہ کس طرح عام پانی کو صرف فطرت کی نقل کرکے 'زندہ پانی' میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پتھر،  لکڑی کے کوئلے اور ریت کی تہوں سے بہنے والا پانی کس طرح اپنے آپ کو 'زندہ پانی' میں تبدیل کرتا ہے۔

            آج سو ٹھیک ہو گئے ہیں۔ کل ہزاروں اور ایک آنے والا دن اور تھیلیسیمیا جیسی بیماری تاریخ کے ورق سے بالکل مٹ جائے گی۔

            اس کے لیے ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری طبی ماہرین کی ایک فوج تشکیل دے رہے ہیں جسے 'تھیلیسیمیا ایکسپرٹس' کہا جاتا ہے۔ اس وقت ان میں سے 404 ہیں، اور پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں جو کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔

            افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے لوگ اور یہاں تک کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی لوگ ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ تھیلیسیمیا قابل علاج ہے۔ ایک وقت تھا جب ذیابیطس، امراض قلب، کینسر، گردے جیسی کوئی بھی بیماری لاعلاج سمجھی جاتی تھی جس میں تھیلیسیمیا بھی شامل تھا۔ لیکن اب یہ یقینی طور پر قابل علاج ہے۔ لیکن یہ پیغام ان تک پہنچانا ہے۔ یہ میں اور آپ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس سارے واقعہ کو دیکھا اور اس کا یقین کر لیا ہے۔

اس طرح کے معجزے اس وقت ممکن ہیں جب انسان نفع نہیں بلکہ لوگوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ اب پوری میڈیکل سائنس غریبوں کی نہیں بلکہ امیروں کی خدمت میں ہے۔ جو ایسے حل پیش کرتا ہے جو اپنے آپ میں مشکوک، ناقابل اعتبار اور غیر محفوظ ہیں۔

             وہ دن دور نہیں کہ جب دنیا بیدار ہوگی اور جدید طبی سائنس کا دیوالیہ پن ہو جائے گا اور کسی بھی قسم کی بیماری کا علاج کرنے کی اس کی نا اہلی پر نگاہ ڈالی  جائے گی اور فطرت اور قدرتی پر زیادہ سے زیادہ انحصار کیاجائے گا۔

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو