نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دکنی لوک گیت‘‘۔@-ڈاکٹرحامد اشرف / مبصر:پروفیسرمحمد نسیم الدین فریس

 

’’دکنی لوک گیت‘‘۔@-ڈاکٹرحامد اشرف / مبصر:پروفیسرمحمد نسیم الدین فریس

 

مثل مشہور ہے کہ ’’گانا اور رونا کسے نہیں آتا‘‘مطلب یہ کہ یہ دونوں کام سبھی کو آتے ہیں۔آدمی جب خوش ہوتا ہے تو گاتا اور گنگناتا ہے اور جب دکھی ہوتا ہے تر گریہ کناں ہوتا ہے۔یہ دونوں باتیں آدمی کی فطرت میں شامل ہیں۔انہیں سیکھنے کی ضرورت نہیں۔لوک گیت انسان کی فطرت کے اول الذکر پہلو کا مظہر ہوتے ہیں۔یعنی یہ انسان کے جذبات طرب و مسرت کے وہ ترسیلی پیکر ہوتے ہیں جو سادہ اور فطری لے اور آہنگ میں ڈھل کر نکلتے ہیں۔۔دنیا کے ہر معاشرے اور ہرسماج کی کچھ لوک روایتیں اور لوک گیت ہوتے ہیں جو اس سماج کے افراد کے جذبات و احساسات ٗ آرزوٌوں ٗ تمناٌو ں ٗ حوصلوں ٗ امنگوں ٗ کامرانیوں اور محرومیوں جیسے مختلف امور میں اُن کے طرز و فکر کے غماز ہوتے ہیں۔لوک گیتوں کی تاریخی ٗ تہذیبی اور لسانی اہمیت ہوتی ہےٗ جس کا کوئی انکاری نہیں ہو سکتا ۔ابتداء میں لوک ادب؍ لوک گیتوں کو ادب کے دائرے میں شامل نہیں کیا گیا۔لیکن جیسے جیسے علوم عمرانی اور بشریات میں تحقیق ہوتی گئی اور ان علوم کا دائرہ وسیع ہوتا گیا ویسے ویسے لوک گیتوں کی اہمیت اجاگر ہوتی گئی۔چناں چہ

آج یوروپ اور امریکہ کے کئی مما لک میں لوک ادب کی تحقیق اور مطالعات کے متعدد ادارے اور مراکز قائم ہیں۔اردو زبان کے علماء و ناقدین نے بھی اول ا اول عوامی شاعری اور لوک گیتوں کو لائقِ التفات نہیں گردانا ۔ چناں چہ ’’ آبِ حیات ‘‘ جیسی کتاب میں نظیر اکبر آبادی سے چشم پوشی اسی رویے کی دلیل ہے ٗلیکن مغرب کے اثر سے یہ رجحان ختم ہوا۔اور آج لوک ادب اور لوک گیتوں کی تلاش اور اُن کی تحقیق و تحسین معیاری ادب کی تحقیق و تحسین سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہو گئی ہے۔ہندی میں لوک ادب اور لوک گیتوں کو جمع کرنے کا کام بڑے پیمانے پر انجام دیا گیاہے لیکن اردو والے اس معاملے میں ہنوز پیچھے ہیں۔لوک ادب کی اہمیت کے احساس کے باوجود اردوکے چند ہی محقق ہیں جو اس طرف متوجہ ہوتے ہیں۔یہ بات مسرت آگیں ہے کہ دکن کے ایک جواں سال او ر ہو نہار محقق ڈاکٹر حامد اشرف نے اس طرف توجہ کی ہے۔


ڈاکٹر حامد اشرف مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر میں صدر شعبۂ اردو( یو۔جی ٗ پی۔جی )و اسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کا تعلق صوفیاو صلحا کی سر زمین گلبرگہ سے ہے۔وہی گلبرگہ جسے حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تبلیغی سر گر میوں کا مرکز اور آپ کی آخری آرام گاہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔دکن میں اسلامی تاریخ کے دورِ اول ہی سے شہر گلبر گہ علوم و فنون ٗ شعر و ادب اور مذہب و روحانیت کے انوار سے مالا مال رہا ہے۔اسی علم پرور فضاؤں میں حامد اشرف نے آنکھ کھو لی اور قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ استوار کیا۔اتحقیقی و تنقیدی مضامین پر ایک تصنیف ’’ تزئینِ ادب‘‘ شائع ہو چکی ہے۔پیشِ نظر کتاب اُن کی دوسری تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے اعماقِ نظر کے ساتھ حیدرآباد کرناٹک کے لوک گیتوں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔
پیشِ نظر کتاب نو (۹) ابواب اور ایک ضمیمے پر مشتمل ہے۔ان میں ابتدائی تین ابواب پس منظری ہیں۔بابِ اول کا عنوان دکنی ادب اور تہذیب و ثقا فت ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے سر زمین دکن کے قدیم حکمرانوں کا ذکر کرتے ہوئے دکن میں مسلما ن صوفیااکی آمد ٗ سلاطینِ دہلی کی فتو حاتِ دکن اور بہمنی سلطنت کے قیام کا جائزہ لیا ہے۔بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد دکن میں جو سلطنتیں قائم ہوئیں ان میں قطب شاہی ٗ عادل شاہی اور نظام شاہی سلطنتیں اہمیت رکھتی ہیں ۔مصنف نے ان سلطنتوں کے حکمرانوں کے علمی و ادبی خدمات ٗ تعمراتی شاہ کاروں اور تہذیبی و ثقافتی کارنا موں پر روشنی ڈالی ہے۔قطب شاہی اور عادل شاہی سلتنتوں کے انقراض کے بعد دکن میں سلتنتِ آصفیہ کا قیام عمل میں ؤیا ۔ اس خاندان کے سلاچین نے بھی علوم و فنون کی اشاعت میں اہم حصہ لیا۔مصنف نے قدیم عہد سے لے کر دورِ حاضر تک دکن کی تہذیب و ثقافت کے مختلف مظاہر عیدوں ٗ تہواروں ٗ رسم و رواج ٗ پکوان وغیرہ کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے دکنی گیتوں کے مطالعے کے لیے واضح پس منظر فراہم کیا ہے۔
دوسرا باب ’’ علا قہ حیدر آباد ۔کرنا ٹک کا ماضی و حال ‘‘ ہے۔ چونکہ پیشِ نظر کتاب کا اصل مو ضوع حیدرآباد ۔کرناٹک کے دکنی لوک گیت ہیں۔اس لیے مصنف نے اس باب میں علاقہ حیدرآباد ۔کرناٹک کی وجہہ تسمیع اور اُس کے مکانی و جغرافیائی حدود کی وضاحت کی ہےٗ تاکہ جو لوگ اس خطے کی تاریضخ سے نا واقف ہیں وہ بھی جان لیں کہ اس ریاست کرناٹک کے اضلاع گلبرگہ ٗ بیدر اور رائچور شامل ہیں ٗجو ۳۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ ء سے قبل مملکتِ آصفیہ کا ایک حصہ تھے۔یہ کنڑی زبان کے علا قے تھے اس لیے ۱۹۶۵ ء میں جب لسانی بنیادوں کی تقسیم عمل میں آئی تو ان اضلاع کو ریاستِ کرناٹک میں ضم کر دیا گیا۔لیکن صدیوں تک آصف جاہی اور اس سے قبل قطب شاہی نیز ؑ ادل شاہی اور اس سے پیشتر بہمنی سلطنت کے اہم مراکز ہو نے کے سبب یہ علا قے معاشی و تعلیمی پسماندگی کے با وجود تاریخی آثار اور تہذیبی و ثقافتی روایات کے تسلسل کے باعث بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
کتاب کے اگلے باب میں لوک گیتوں کا تعارف کروایا گیا ہے۔مصنف نے بجاطور پر لکھا ہے کہ لوک گیت ہر زمانے میں دھڑکتے دلوں کی ترجمانی کے لیے مستعمل رہے ہیں۔ان گیتوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بول چال کی زبان میں ہوتے ہیں اور تاریخی ٗ سماجی ٗ معا شرتی ٗ قومی اور مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ رزمیہ اور بز میہ بھی ہوتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ لوک گیت انسان کے جذبات و احسا سات ٗ حوصلوں اور امنگوں ٗ خوابوؓ اور تمنا ؤں کا فطری اظہار اور رائج الوقت تہذیب و تمدن کا آےئنہ ہوتے ہیں۔ایک عرصۂ دراز تک لوک گیتوں اور لوک ادب کو در خور اعتنا نہیں سمجھا گیا لیکن اب بین الا قوامی سطح پر ان کی اہمیت اور افادیت کا ادراک و اعتراف کیا جا رہا ہے۔۔اس پس منظر میں اردو والے بھی لاک گیتوں کی طرف متوجہہ ہوئے ہیں۔ڈاکٹر حامد اشرف کے بقول اردو لوک گیتوں پر سب سے پہلے دیویندر ستیارتھی نے قلم اآٹھایا ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر قیصر جہاں اور ڈاکٹر بسماللّہ بیگم نیازی نے اردو گیتوں پر مبسوط تحقیقی مقالے قلم بطند کیے ۔ڈاکٹر سیدہ جعفر نے ’’ دکنی گیتوں ‘‘ پر ایک جامع مضمون لکھا ۔ ان کے علا وہ اظہر علی فاروقی نے اتر پر دیش ٗ ڈاکٹر میمونہ دلوی نے بمبئی اور کوکن ٗ زینب مسعود زینت نے بہار ٗ ایس ایم انور نے اور ایم رفیق نے مشترکہ طور پر خاندیش کے لوک گیتوں پر کتابیں شائع کر کے اردو کے مٹتے اور فرا موش ہوتے ہوئے لوک گیتوں کو محفوظ کرنے کی کو شش کی۔
ہندوستان کے مختلف خطوں کی طرح دکن کے علاقے میں بھی دکنی زبان میں لوک گیت مو جود ہیں۔جو مختلف تقاریب ٗ سماجی رسوم ٗ عید برات مختلف پیشہ ورانہ کا موں اور روز مرہ زندگی کی مصروفیات کے دوران گائے جاتے ہیں۔پیشِ نظر کتاب کے چوتھے باب میں ڈاکٹر حامد اشرف نے دکن میں لوک گیتوں کی روایت اور اور اُن کی اہمیت کا محاسبہ کیا ہے۔یوں تو لوک گیتوں کے خالق نا معلوم ہوتے ہیں۔یہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہیں تاہم جہاں تک اردو کے لوک گیتوں کا تعلق ہے ان کی تصنیف و اشاعت میں عوام کے علا وہ صو فیائے کرام کا بھی اہم حصہ رہا ہے۔شما لی ہند میں عوامی شاعری کی جو روایت امیر خسرو نے قائم کی تھی دکن میں میں اس روایت کو آگے بڑھانے والے میں خانوادہ چشت ہی کے ایک صوفی با صفا حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز اور ان کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے صو فیا کا اہم حصہ ہے۔حضرت گیسو دراز کو دکنی گیتوں کے بنیاد گزار کی حیثیت حا صل ہے۔ان سے منسوب چکی نامہ ٗ حقیقت گیت اور سہیلے دستیاب ہوئے ہیں جو گیتوں کی مختلف اقسام ہیں۔
دکنی گیتوں کے فروغ میں صوفی سنتوں نے بھی نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔صوفیا نے مریدوں اور طالبوں کی ہدایت و تلقین کے تصوف و عرفان کے رموز و اسرار ٗ گیتوں کی ہےئت میں نظم کیے۔صو فیوں کے حلقو ں میں یہ صوفیانہ گیت نہایت مقبول رہے۔یہی وجہہ ہے کہ اکثر قدیم بیا ضوں میں صوفیائے کرام کے گیت ملتے ہیں۔اس ضم،ن میں بالخصوص شاہ برہان الدین جانم بیجا پوری اور اُن کے خا نوادے اور سلسلے کے صوفیوں کی خدمات نا قا بلِ فرا موش ہیں۔مسلمان صوفیا کی طرح بعض غیر مسلم سنتوں نے بھی لوک گیت کے پیکر کو تخلیقی اظہار اور روحانی خیالات کی تر سیل کا وسیلہ بنایا ۔پیشِ نظر کتاب کے پانچویں باب میں ڈاکٹر حامد اشرف نے صافیوں سنتوں کے لوک گیتوں کا جائزہ لیا ہے۔
دکن میں ماہِ محرم کے مرثیے اور نوحے ‘کتاب کا چھٹا باب ہے ۔عادل شاہی اور قطب شاہی دور ہی سے ماہِ محرم کے دوران خصوصاً پہلی تاریخ سے دسویں تاریخ تک دکن کے باشندے خواہ وہ سنتّی ہوں یا شیعہ ٗ سیدنا امام حسین اور آپ کے برادرو فرزند اور بھتیجے ٗ بھتیجوں نیز آپؓ کے ہمرائیوں کی دردناک شہادت کی یاد مناتے ہیں۔اس معا ملے میں دکنی ہندو بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔وہ بھی علم ایستادہ کرنے ٗ علم کا جلوس نکالنے ٗ الا وہ کھیلنے ٗ علموں سے نذر و نیاز وغیرہ کے معا ملے میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔حیدرآباد کرناٹک کے بڑے تعلقوں اور قصبات میں اردو میں اور چھوٹے چھوٹے قریوں میں کنڑا زبان میں مرثیے پڑھے اور شہدا کے لیے توصیفی گیت گائے جاتے ہین۔گلبرگہ میں مرثیہ خوانی کے مقا بلے ہوتے ہیںٗ جنہیں جھنڈوں کا مقا بلہ کہا جاتا ہے۔غرض یہ کہ محرم کے ماہِ عزا میں پڑھے جانے والیت مر ثیوں اور نو حوں کو بھی لوک گیتوں کی سی مقبولیت حٓ صل تھی۔لیکن آہستہ آہستہ علم کی ایستادگی ٗ عاشور خا نوں کے سامنے الاو دہکانے ٗ علم کی سواری بھرنے ٗ علم کی نذر و نیاز ٗ محرم کے خصوصی پکوان ٗ قبولی ٗ شربت ٗ روٹ ٗ چنگے ٗ بتّی ٗ ملیدو وغیرہ سب کا چلن ختم ہوتا جاتا ہے۔سائبردور کی اس نسل کے پاس اب اتنا وقت کہاں کہ محرم کی شادی اور غمی کے مراسمِ کہن کی پاسداری کرے۔
خالص اسلامی معا شرے میں انسان کی ولادت سے لے کر وفات تک کے سارے امور و معا ملات نہایت سادگی کے ساتھ تحتِ شریعت انجام پاتے تھے لیکن گزرتے وقت اور بدلتے ہوئے ظروف واحوال کی وجہہ سے مسلمانوں کی معا شرتی زندگی میں عجمی و ہندوستانی اثرات و عناصر شامل ہو گئے۔مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت بھی مختلف رسومات اور تکلفات سے مملو ہو گئی۔دکنی مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں بھی بہت سے عقائد ٗ توہمات ٗ تقاریب و اعیاد اور رسوم و رواج داخل ہو گئے۔ان میں خاص طور پر شادی بیاہ کے مو قع پر انجام دی جانے والی رسمیں اور ریتیں بڑی متنوع ٗ رنگا رنگ اور دلچسپ ہوتی ہیں۔زیرِ مطالعہ کتاب کے ساتویں باب میں لائق مصنف نے حیدرآباد کرناٹک کے علا قے میں مروج شادی بیاہ اور مختلف رسوم کے مو قعوں پر گائے جانے والے گیتوں کی تفصیل پیش کی ہے۔یہ اس کتاب کا نہایت اہم باب ہے۔جس میں ڈاکٹر حامد اشرف نے شادی کے لیے رشتہ دھونڈنے سے لے کر عقد و رخصتی اور اس کے بعد کی بہت سی رسموں کا ذکر کیا ہے۔دکنم میں اسم نویسی (حسب و نسب ٗ عمر ٗ تعلیم ٗ پیشہ ۳ ملا زمت ٗ آمدنی ٗ سکونت وغیرہ کی تفصیل ) کے تبادلے کے بعد رشتہ طے پاتا ہے۔پھر منگنی کی رسم انجام دی جاتی ہے۔اس مو قع پر منگنی کی رسم کے مخصوص گیت گائے جا تے ہیں۔اسی طرح عقد سے قبل بھی خاص آص رسمیں ادا کی جاتی ہیں ۔جیسے مانجھا ( مایوں بٹھانا) یا ہلدی کی رسم ٗ رت جگا ٗ مہندی کی رسم ٗ سانچق کی رسم ٗ چوک بھرائی ٗ عقد ٗ جلوہ ٗ وداعی ٗ جمعگی ٗ چھلہ ٗ عقیقہ ٗوغیرہ ۔فاضل مصں ف نے ہر رسم کی تفصیل بھی مرقوم کی ے کہ یہ رسم کس طرح اور کن لوا زمات کے ساتھ انجام دی جاتی ہے۔اس سے یہ ہوا ہے کہ یہ رسمیں جو آج کے زمانے میں قریب الختم ہیں ٗ تحریری شکل میں اس کتاب میں محفوظ ہو گئی ہیں۔رسموں کی تفصیل کے علا وہ مصنف نے ہر رسم سے متعلق دو دو ٗ تین تین گیت بھی درج کیے ہیں۔علا وی ازیں لوریاں اور بسم اللہ خوانی کے گیت و نیز دکن کے علا قے میں بچے اور لڑکیاں بالیاں مختلف کھیلوں کے دوران جو گیت گاتی ہیں یا جو بول ادا کرتی ہیں انہیں بھی اس باب کے آخر میں جمع کر دیا گیا ہے۔
کتاب کا اگلا باب(آٹھواں باب) ڈھولک کے گیتوں کی تفہیم کے لیے مختص ہے۔اس میں ڈاکٹر حا مد اشرف نے دکنی کے متعدد گیتوں کا متن پیش کرتے ہوئے اُن کی تشریح و تفہیم کی ہے۔انہوں نے نہ صرف گیت کے دکنی الفاظ کی وضا حت کی ہے بلکہ ان گیتوں میں اشاروں اور کنایوں میں جو باتیں کہی گئی ہیں اُن کی کی بھی تشریح کی ہے۔دکنی زبان میں لوک گیتوں کا جو ذخیرہ ہمیں ملتا ہے اُس کا بڑا حصہ ڈھولک کے گیتوں پر مشتمل ہے۔ڈھولک کے گیتوں وہ گیت ہیں جنہیں گاتے وقت ڈھول بجایا جاتا ہے اور ڈھولک کی تھاپ کے ساتھ کے ساتھ تالیوں کی آواز بھی ہم آہنگ ہوتی ہے۔ویسے تو ڈھولک کے گیت شادی بیاہ کے مو قع پر گائے جاتے ہیں لیکن شادی بیاہ کے علاوہ چھوٹی موٹی تقاریب یا خوشیوں کے مو قع پر جیسے سالگرہ یا امتحان میں کامیابی وغیرہ پر بھی گائے جاتے ہیں۔شا دی بیاہ کی رسموں میں ڈھولک کے جو گیت گائے جاتے ہیں اُن میں مختلف رشتہ داروں کے پُر لطف ذکر کے علا وہ دلہا اور دلہن والوں کی باہمی چھیڑ چھاڑ ٗ ساس سسر ٗ جیٹھ ٗ جیٹھا نی ٗ دیور دیورانی ٗ نند اور نندوئی کے تئیں دلہن کے خیالات ٗ سالے ٗ سالیوں اور بہنوی کے ہنسی مذاق ٗ دلہا کی بہنوں کی شکایات اور سب سے بڑھ کر رخستی کے جذبات کی بڑی سچی اور کھری تر جمانی ہوتی ہے۔شمالی ہنمد کے بعض علا قوں میں دلہا اور دلہن والوں والوں
کی باہمی ہنسی مذاق ٗ چھیڑ چھاڑ اور دلگی عریانی اور فحا شی کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔شمالی ہند میں اس طرح کی چھیڑ چھاڑ کے گیتوں کو گالیاں سیٹھنے یا سیٹھنیاں کہتے ہیں۔مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی آفتاب کے دو سیٹھنے دیکھیے جو اُن کے مجموعے ’’ نادراتِ شاہی ‘‘ میں شامل ہیں۔
سمدھن ملکِ زمانی نے کہوے رات پکار
سمدھی بس کر ٗ اب مجھے پھولن گیند نہ مار
۔۔۔۔۔۔۔
جب ڈالا سمدھی نے تب ہی چونک اُتھی سمدھن اک باری
ہار مذاق پڑا اُر میں اور شادی کے لوگوں میں آئے پکاری
دکن کے علا قے میں شادی بیاہ کے مو قع پر سمدھا وے میں ہنسی مذاق طنز اور اضحوکہ تو ہوتا ہے لیکن ایسے گیت نہیں ہوتے جنہیں سن کر تہذیب کی آنکھ نیچی ہو جائے۔
بات جب دکنی گیتوں کی ہو رہی ہو تو جدید دکنی کے شہرۂ آفاق شاعر سلیمان خطیب مر حوم کا نام خود بخود معرضِ بحث آ جاتاہے۔سلیمان خطیب کو جو گلبرگہ کے باشندے تھے کرناٹک کے دیہی علا قوں کی بولی ٹھولی پر بے حد عبور تھا۔انہوں نے اپنی شاعری میں اسی زبان کو ترسیل و اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ انہوں نے دکنی کے لوک گیتوں کی طرز پر گیت بھی لکھے
۔ کتاب کے نویں باب میں ڈاکٹر حامد اشرف نے سلیمان خطیب کے کلام ’[ کیوڑے کابن ‘] سے لوک گیتوں کی مہک کشید کی ہے۔سلیمان خطیب کو دکنی کے لوکگیتوں سے بڑی دلچسپی تھی۔انہوں نے بھی دکنی کے ڈھولک کے گیت جمع کیے تھے۔ڈاکٹر حامد اشرف نے سلیمان خطیب کی چھے نظموں ۳ گیتوں کو مطالعے اور تجزیے کا مو ضوع بنایا جو یہ ہیں۔’ موٹ کا پانی ‘ ’ کا ٹو کھیتاں کاٹو رے ‘ ’ بھوت مزہ ہے (ساون کا گیت) نھیو کالا ( بارش کا موسم ) بر ہا کاگیت‘ اور ڈھولک کا گیت ( ایک دکنی عورت بارگاہِ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ میں) ان گیتوں کے عنا وین سے ان کے مو ضوعات و مشمولات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔دکن کے سماجی اور تہذیبی سیاق میں ڈاکٹر حامد اشرف نے ان گیتوں کا نہایت خوبصورت تجزیہ کیا ہے۔
کتاب کے آخر میں فاضل مصنف نے ایک ضمیمہ بھی ملحق کیا ہے۔ اس میںؓ انہوں نے حیدرآباد ۔کرناٹک میں رائج لوک گیتوں (ڈھولک کے گیتوں) کا اچھگا خاصۃ ذخیرہ جمع کیا ہے۔ پتہ نہیں انہوں نے کہاں کہاں سے یہ گیت اکٹھا کیے ہیں۔ان گیتوں میں شادی بیاہ کی ہر رسم اور ہر مو قعے کے گیت ٗ مکمل متن کے ساتھ شامل ہیں۔جیسے ہلدی کے گیت ٗ رُت جگے کا گیت ٗ مہندی کا گیت ٗ مانجھے کا گیت ٗ شادی کے گیت ٗ جلوے کا گیت ٗ بارات کا گیت ٗ بابل کے گیت ٗ وداعی گیت ٗ چو تھی کا گیت ٗ جمعگی کا گیت ٗ بہن کا گیت ٗ نند بھا وج کی نوک جھونک ٗ سمدھن کے گیت ٗ چھلّے کا گیت ٗ لوریاں ٗ تسمیہ کے گیت ٗ عقیقے کے گیت ٗ چکّی کے گیت اور پ]تہ نہیں کس کس نہ نوع کے گیت ہیں جو حامد اشرف نے جمع کیے ہیں۔ان گیتوں کی جمع آوری میں انہوں نے جو کھکھیڑ اُٹھائی ہے اس کی داد نہ دینا بے داد ہے۔
پیشِ نظر کتاب کا مواد ڈاکٹر حامد اشرف نے مستند ما خذوں سے حا صل کیا ہے۔ہر باب کے آخر میں انہوں نے اپنے مصادر و مراجع کے حوالے دیے ہیں۔کاروانِ ہستی کے تیز گامی کے سبب تاریخ ٗ تہذیب ٗ زبان ٗ ثقافت ٗ نظرےۂ حیات ٗ اندازِ فکر غرض بہت کچھ بدل جات اہے۔وقت کی تیز خرامی اور انقلاباتِ دہر کی وجہہ سے انسانی تہذیبیں بنتی بگڑتی رہتی ہیں۔دکن کی تہذیب بھی اس کلیے سے مستشنٰی نہیں ہے۔پرانی تہذیب اچھی تھی کہ بُری جیسی بھی کچھ تھی اُس کی کچھ قدریں تھیں ٗ کچھ اُصل تھے۔خوشیاں منانے کے کچھ قرینے تھے۔عید اور تیو ہار منانے کے کچھ طورطریقے تھے ٗ مختصر یہ کہ اس کا اپنا ایک منفرد انداز اور خاص رنگ ڈھنگ تھا جو دھیرے دھیرے مضمحل اور متروک ہوتا جا رہا ہے۔لیکن اسی غائب ہوتی ثقافت کے احوال و آثار اور اثا ثے کو محفوظ کرنے کی ضرارت ہے تاکہ ذہنی سطح پرماضی سے ہمارا رشتہ بنا رہے اور ہم اپنے وجود کو خلا میں معلق نہ سمجھیں بلکہ یہ محسوس کرتے رہیں کہ ہماری نہایت گنجان تہذیبی جڑیں بھی ہیں جو ماضی میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔لوک ادب ؍لوک گیت نہ صرف کسی تہذیب کا اہم حصہ ہوتے ہیں بلکہ اپنی تہذیب کے متعدد مظاہر و عناصراور تہذیبی ورثے کے بڑے حصے کے امین و پاسباں بھی ہوتے ہیں۔لوک گیتوں کے ذریعے ہم کسی تہذیب کی روح میں جھانک سکتے ہیں۔اسی میں لوک گیتوں کی اہمیت و افادیت مضمر ہے۔دکن کے لوک گیت بھی نہ صرفدکنی زبان کے لسانی حوالے سے بلکہ دکنی ثقافت کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہیں۔ڈاکٹر حامد اشرف نے نہ صر ف علا قۂ حیدرآباد کرناٹک کے لوک گیت اور ڈھولک کے گیت جمع کیے ہیں بلکہ ان تقاریب اور رسومات کی تفصیلی کیفیت بھی پیش کی ہے جن کی انجام دہی کے دوران یہ گیت گائے جاتے ہیں۔انہوں نے ان تقاریب کی منظر کشی اس خوبصورتی کے ساتھ کی ہے کہ قاری اپنے آپ کو تقریب کے ما حول میں محسوس کرنے لگتا ہے۔اُن کی زبان معیاری اور اسلوب بیان نہایت دلکش ہے۔انہوں نے ان گیتوں کے متن کی تفہیم اور وضاحت بھی نہایت دلچسپ پیارائے میں کی ہے اور دکنی کے نا ما نوس الفاظ بھی سمجھائے ہیں۔مجھ نا چیز کی نظر میں یہ دکنی (علاقہ حیدرآّباد کرناٹک ) کے لوک ادب پر پہلا اور منفرد تحقیقی کام ہے جو منظرِ عام پر آیا ہے۔
ڈاکٹر حامد اشرف نے اپنی اس کتاب کے ذریعے نہ صرف دکنی لوک گیتوں کو بلکہ دکنی تہذیب اور اہلِ دکن کے مزاجو فطرت اور اُن کی نفسیات و ذہنیت کے متدد زاویوں کے تحفظ کا سامان کیا ہے۔اس اعتباعر سے یہ کتاب دستاویزی اہمیت کی حامل ہے۔ان کی یہ کتاب مستقبل کے محققوں اور مصنفوں کے لیے جو علا قہ دکن بالخصوص حیدرآباد کرناٹک کی تہذیب و ثقافت پر کام کرنا چاہتے ہیں ٗحوالے کا کام دے گی۔دکنی زبان و ادب اور دکنی تاریخ و تہذیب کا ایک طالبِ علم ہونے کے ناطے مجھے اس کتاب کی اشاعت پر بے حد وحساب مسرت ہے۔میں اس کی اشاعت پر لائق مصنف ڈاکٹر حامد اشرف کو دلی مبارکباد پیش کرت اہوں اور توقع کرتا ہوں کہ علمی و تحقیقی حلقوں اور دکنی زبان اور کلچر سے دلچسپی رکھنے والوں میں اس کتاب کو قبولیتِ عام خاص و عام ہوگی۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو