نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اُجالے یادوں کے۔۔۔ جائزہ || Book review of Dr. Ateeq Ajmal Ujaly Yadoon ke, by Dr. Syed Arif murshed

 

اُجالے یادوں کے۔۔۔ جائزہ

 ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ

           Book review of Dr. Ateeq Ajmal Ujaly Yadoon ke, by Dr. Syed Arif Murshed

            یہ بات روز روشن کی طرح ایاں ہے کہ شہرگلبرگہ اُردودنیا یعنی اُردو  شاعری اور اُردو نثر میں اولیت رکھتا ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اردو کے پہلے ادیب و شاعر ہونے کا سہرا حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کی طرف منسوب ہے۔دور حاضر میں واٹس اپ، فیس بک و دیگر سوشیل نٹورک کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ سب سے زیادہ ادبی ہلچل اور ادبی کاوشیں شہر گلبرگہ ہی میں ہوتی ہیں،جس کے ثبوت ہمیں یہاں روزمرہ کی ادبی کاوشوں میں ملتی ہیں۔ آئے دن یہاں ادبی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ ادبی کتب کے اجرائی عمل میں آتی ہے۔ شہری ،ریاستی و قومی سطح کے مشاعرے ہوتے ہیں۔ شہر گلبرگہ اولیاؤں کی سرزمین سے بھی تعبیر ہے۔  یہ شہر جہاں خواجہ بندہ نوازؒ کا مسکن ہے وہیں شرن بسویشر کا استھا بھی ۔جس کے چلتے یہاں  کی فضاء ہمیشہ صوفیانہ رہتی ہے یہاں کی فضا میں ہمیشہ حمدیہ، نعتیہ و منقبتی کلام گونجتے رہتے ہیں۔ کہیں قوالی تو کہیں بھجن ہماری سماعتوں کومحضوظ کرتے ہیں۔

           Book review of Dr. Ateeq Ajmal Ujaly Yadoon ke, Dr. Syed Arif Murshed

            کہا گیا ہے کہ "الشعراء تلامیذ الرحمٰن" یعنی شاعر اللہ کے براہ راست شاگرد ہیں۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "ان من الشعر الحکۃ"،  بہت سے شعر حکمت والے ہوتے ہیں" ان من البیان السحراً" بہت سے کلام جادوئی بھی ہوتے ہیں۔ سلیمان خطیب نے کہاتھا کہ

بات کہتے ہیں رب ارنی کو
بات ام الکتاب ہوتی ہے
بات بولے کلیم ہوجائے
سننے والا ندیم ہوجائے[1]

            شاعری ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس سے ایک طرف محبوب کے حسن کی تعریف کرکے اس کو اپنا گرودہ بنالیاجاتا ہے تو دوسری طرف شاعری سے محبوب حقیقی یعنی اللہ اور اس کے رسولﷺ ، صحابہ، اولیاء کی حمد ، نعت  و منقبت سے اپنی آخرت و عاقبت سنواری جاتی ہے۔اسی سے فوجیوں میں جوش دلانے کا کام بھی لیاگیا ہے، تو اسی سے حکومتوں کو گرانے اور انگریزوں کوبھگانے کا بھی کام لیاگیاہے۔ جس کی ایک مثال آج کےاس پر اشوب دور میں سب سے زیادہ گایا جانے والا فیض احمد فیض کا وہ نغمہ "ہم دیکھیں گے" پوری دنیا میں زیر بحث ہے۔

            گلبرگہ کا ادبی پس منظر، یہاں کی  شعری روایت شعراء اور ان کے کلام پر بحث کرکے مضمون کو طول دینا مناسب نہیں سمجھتا۔اس پر تو بہت سارے ایم فیل اور پی ایچ ڈی کے مقالے اور مضامین موجود ہیں۔

 

             اس مختصر سی تمہید کے بعد میں سیدھے نوجوان گلبرگہ کے معروف رومانی شاعر ڈاکٹر عتیق اجمل وزیر کی پہلی  شعری کاوش"اجالے یادوں کے" پر مختصر روشنی ڈالوں گا۔  بہت کم ادیب و شاعر ایسے ہونگے کہ جنہوں نے کسی خاص صنف میں طبع آزمائی کی ہوگی۔ اگر نثر نگار ہے تو وہ مختلف نثر پاروں میں اپنے جوہر دکھائے ہیں، اور اگر شاعر ہے تو اس نے شاعری کے مختلف اصناف کو اپنی بات پیش کرنے کیلئے  اپنے اظہار کا وسیلا بنایاہے۔اسی طرح عتیق اجمل جہاں ایک شاعر ہیں وہیں ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں۔ جیسے شاعری میں اپنے جوہر دکھائے ہیں وہیں نثر میں بھی اپنی خصوصیت کا لوہا منوانے کی کوشش کی ہے۔ بہت جلد انیکی ایک نثری تخلیق بھی ارباب ادب کے ہاتھوں میں ہوگی۔

 

            شاعری کے حوالے سے عتیق اجمل کی یہ کتاب"اجالے یادوں کے" ایک گلدستے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں جہاں غزلیں ہیں وہیں، نظمیں اور قطعات بھی شامل ہیں۔ کتاب کی شروعات روایت کے مطابق حمد سے ہوتی ہے ، پھر نعت پیش کی گئی ہے۔ انتساب اپنی دوست "نشاط انجم کے نام" کیاہے۔ انتساب کے بعد ساحر لدھیانوی کا بہت ہی رومانی شعر پیش کیاگیاہے۔ شعر ملاحظہ ہو۔

تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن
میری راتیں تیری خوشبو سے بسی رہتی ہیں

            اس کتاب کا پیش لفظ "پیش گفتار" انہی کے استاد "ڈاکٹر وحید انجم" نے لکھاہے۔ ایک مضمون ڈاکٹر جلیل تنویر، "رومانیت کا ترجمان: عتیق اجمل، اور رومانی غزل کا جدید شاعر: عتیق اجمل  مضمون نگار، واجد اختر صدیقی بھی شامل کتاب ہیں۔  

 

            کتاب کے تینوں مضامین پڑھنے سے یہ ظاہر ہورہاہے کہ عتیق اجمل کو ایک خاص طریقے سے پڑھنے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عتیق اجمل کی شاعری میں رومایت کا عنصر زیادہ ہے۔لیکن ان کی شاعری میں اصلاح معاشرے اور عصر حاضر کی ترجمانی بھی کافی کی گئی ہے۔  چند شعر ملاحظہ ہوں

 

 

مہماں کیوں میرے دل کی پناہوں میں نہیں آتے
خفا لگتے ہیں وہ مجھ سےکہ بانہوں میں نہیں آتے

تماشا ہے عجب خود کو سمجھتے ہیں جو قدآور
جو ہیں کم مرتبہ انکی نگاہوں میں نہیں آتے

مطلع سے قطع نظر پوری غزل میں اصلاح معاشرہ کی بات کی گئی ہے۔ غزل بھلے ہی شوق و چنچل انداز میں شروع ہوئی ہو لیکن اس غزل کے پانچ اشعار میں صرف مطلع کے علاوہ تمام چار شعر پنچ والے ہیں یعنی اصلاح معاشرہ  یعنی ایک ایک شعر میں گہرائی و گیرائی ہے دنیا کی حقیقتیں اور سچائیاں ہیں۔ اس غزل کا مقطع دیکھیں کہا ہے کہ

برائی جنم لیتی ہے جہاں ہر روز ہی اجمل
جنہیں ڈر ہو خدا کا، ایسی گاہوں میں نہیں آتے

            زیرنظر کتاب کے کلام کو اگر بحر ور وزن کے ترازو میں تولا جائے تو یہ بھی آج کی مروجہ روایت کی ڈگر پر جاتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جہاں ان چیزوں کو خاصی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر کسی کو کچھ کہنے اور سمجھانے جاو تو دشنام طرازی پر اتر جاتے ہیں۔ حال ہی میں اپنے آپ کو کہنا مشق شاعر کہنے والے واٹس اپ پر دو تین رباعیات ڈال دیں اور لوگوں نے بہت مبارکباد اور واہ وا بھی کی۔ ایک مشہور زمانہ کہنا مشق شاعر نے صرف اتنا کہا کہ آپ پبلش کروانے سے پلے کسی کو دکھالیں۔ اتنا کہنا تھا کہ انہوں نے ان کے ایسی دھلائی کردی کہ ان کی قابلیت، ذات پات، مذہب تمام چیزوں کو گن ڈالا، وہ بے چارے فوراً گروپ سے ہی لفٹ ہوگئے۔ لیکن عتیق اجمل کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ یہ حقائق کو سننے سمجھے اور اصلاح کرنے کے قائل ہیں۔ اس لئے میں تھوڑی سی جسارت کرہاہوں۔ کہ ان کے کلام پر تنقید کروں۔

 

مذکورہ غزل کی بحر "مجتث مثمن مخبون:: بنیادی وزن، مفاعلن مفعولن مفاعلن فَعِلاتن (غیر مستعمل وزن)

اسی بحر میں فیض احمد فیض  کی غزل کامعروف و زبان زد شعر جو اکثرمحفلوں میں گلپوشی کے موقعہ پر سنایا جاتا ہے ملاحظہ ہو

گلوں میں رنگ بھرے بادے نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کے گلشن کا کاروبار چلے

اس  کے علاوہ غالب ، جوش وغیرہ کے یہاں بھی اس بحر میں کلام ملتاہے۔

            عتیق اجمل کو صرف رومانی شاعر کہہ کر مختص نہیں کیاجاسکتا کیونکہ ان کےاس مجموعہ میں جتنی بھی غزلیں  اور نظمیں ہیں ان میں بیشتر غزلوں میں کئی اشعار ہمیں اصلاح معاشرا، زمانے کا شکوہ،  معاشرے کی بے راہ روی، خدا سے محبت، نماز کی اہمیت، وطن سے محبت  وغیرہ پر ملتے ہیں۔میرے اس دعوے کیلئے دلیل پیش ہے۔  ڈاکٹر جلیل تنویر کہتے ہیں کہ

"عتیق اجمل کےہاں رومان کی شدت کے علاوہ عصر حاضر کی بھی کہیں کہیں ترجمانی ملتی ہے۔ ملی و قومی احساسات بھی کہیں عیاں ہیں۔ اجمل نے غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی لکھی ہیں۔ نظم "میں نے سوچا تھا" اور "جشن آزادی" قابل ذکر ہیں"[2]

مذکورہ بالا دلیل کے بعد ثبوت کیلئے نمونہ کلام ملاحظہ ہوں

ذرا دیکھو تو میں یہ کیا مانگتا ہوں
گناہوں سے رب کی پناہ مانگتا ہوں

یہ شرط بھی تو کوئی مشکل نہیں ہے یارو
پاؤ گے تم بھی جنت فقط اک نماز سے

جشن آزادی ہم مناتے ہیں
گیت خوشیوں کے آج گاتے ہیں

ہندو مسلم ہوں سکھ عیسائی ہوں
سب سے ہم دوستی بڑھاتے ہیں

کوئی مذہب نہیں محبت کا
یہ زمانے کو ہم دکھاتے ہیں

           Book review of Dr. Ateeq Ajmal Ujaly Yadoon ke, by Dr. Syed Arif murshed


عتیق اجمل کی اولین تخلیق "یادوں کے اجالے "میں جملہ ١١٢ غزلیں  ٧ نظمیں ایک قطعہ ایک رباعی  موجود ہے۔ رباعی جس کو کہاگیاہے۔

سادگی حسنِ تکلم نے غضب ڈھایا ہے
حرف شیرین ترنم نے غضب ڈھایا ہے
سچ تو یہ ہے کہ مجھے ایک ہی لمحہ اجمل
تیرے کلیوں نے تبسم نے غضب ڈھایا ہے

یہ قطعہ ہوسکتا ہے ۔ یہ   بحر "رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع،  ہےاسکا بنیادی وزن ، فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن" ہے۔ اب تک اس بحر میں رباعی تو نہیں لکھی گئی بلکہ کلاسیکی شعرا نے اس بحر میں غزل اور نظمیں تخلیق کی ہیں۔

اسی بحر میں پروین شاکر کی نظم سے دو شعر ملاحظہ ہوں۔

آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی
رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پے تیرا پیار دمکتا ہے ابھی
میری سانسوں میں تیرا لمس مہکتا ہے ابھی

اسی طرح غالب  کی غزل سے ایک مشہور زمانہ شعر

بوئے گل، نالہ دل، دودِ چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا ،سو پریشاں نکلا

بھی اسی بحر میں لکھا گیاہے۔

 

            عتیق اجمل جس شاعری کیلئے مشہور ہیں وہ ہے رومانی اور چھیڑ چھاڑ والی شاعری۔ ایسی شاعری تقریباً ہر شاعر کے یہاں ملتی ہے۔ انسان کی سوچ مختلف عمر کے پڑاو میں مختلف ہوتی ہے۔ بچہ ہوتا ہے تو کھلونے اور کھیل کود کے متعلق سوچتا اور بولتاہے۔ جوان ہوتا ہے تو عشق و عاشقی و کچھ نیا کردکھانے کا جنون و جذبات طاری ہوجاتے ہیں۔ ایک عمر ایسی بھی آتی ہے کہ بیٹا بیٹی کی ذمہ داریوں کے چلتے جہیز کی لعنت، شادیوں میں بے جا اسراف، سادگی اور آسانی وغیرہ پر اس کی نظر مرکوز ہوتی ہے۔ زندگی کا ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اللہ اور آخرت کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیتاہے۔  عتیق اجمل زندگی کے جس پڑاو سے گزر رہے ہیں۔ اس میں ظاہر ہے کہ رومانی شاعری زیادہ ہوگی۔  چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

 

کیا ملا ہم کو محبت میں بھروسہ کرکے
بات سے اپنی مکرتے ہیں وہ وعدہ کرکے
انکی شرمیلی نگاہوں کا یہ عالم توبہ
خواب میں بھی چلے آئے ہیں پردہ کرکے
یہ نازک سا دل ہے نہ تڑپا کے دیکھو
بھری بزم میں یوں نہ شرما کے دیکھو
تنہائی  میں دل بہلانا ہم سے ہوا نہ تم سے ہوا
پیار محبت کرکے بھلانا ہم سے ہوا نہ تم سے ہوا
ستم انکا کبھی ہم پر نوازش ہو ہی جاتی ہے
بہک جاتا ہے دل میرا جو خواہش ہو ہی جاتی ہے
چلو اب معاف بھی کردو میری گستاخ نظروں کو
جوانی میں کبھی ایسی تو لغزش ہو ہی جاتی ہے[3]

            بہر حال شہر گلبرگہ کا یہ نوجوان البیلا رومانی شاعر کبھی اصلاح معاشرے کی بات کرتاہے تو کبھی طنزومزاح کے تیر و نشتر چھوڑ تاہوا نظر آتا ہے۔ کبھی خدا، حقیقت، سچائی، صلواۃ، دین دھرم کی بات کرتا ہے تو کبھی عشق مجازی کے گن گاتے ہوئے محبوب کے زلفوں کا اسیر ہوتاہوانظر اتا ہے۔فن شاعری کے متعلق حالی کے لگائے گئے تین کنڈیشنس میں دو ایک کنڈیشنس تو پورے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔  ڈاکٹر عتیق اجمل وزیر سے  یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ  مستقبل کا یہ ایک اچھا ادیب  ثابت گا، اُردو شعروادب کے حوالے سے پوری اُردو دنیا میں گلبرگے کا نام روشن کرے گا۔

             by Dr. Syed Arif Murshed,   Book review of Dr. Ateeq Ajmal Ujaly Yadoon ke



[1] ) کیوڑے کا بن از سلیمان خطیب

[2] ) اجالے یادوں کے۔ صفحہ ١١

[3] ) اجالے یادوں کے

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو