کس
لئے
جب
سمندر کی جڑوں تک حوصلہ ٹوٹا نہ تھا
سطح
پر آیا
توموجیں
پیٹتی
تھیں تالیاں
دیدہ ہوش و خرد کے سامنے تھیں وسعتیں،
دعوتِ
نظار گی دینے لگا تھا آسماں،
پھر
ہواکی سیٹیاں بجنے لگیں چاروں طرف
پھر
دلاسہ مل گیا دست تسلی سے
مگر
............
قُربِ
ساحل کا پتہ دیتی ہوئی
اک
موج نے چوما مجھے
اور
لب ساحل
زمیں
کی شاہ زادی
اپنی
باتیں کھول کر
بڑھنے
لگی میری طرف
چھٹ
گئی ہاتھوں سے میرے
کیوں
ردائے احتیاط؟!!
میں سمندر میں نہیں
ساحل پہ ڈوبا
کس لئے؟؟
٭٭٭٭٭
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں