نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بلندحوصلہ

 


بلندحوصلہ

 

            سیٹھ چمن لال اپنی دکان پر سرپکڑ بیٹھاہے چونکہ تھوڑی دیر پہلے ایک ٹرک بہت سامال اس کی دکان میں اتارگیاتھا۔

دوملازم کام پر نہیں آئے تھے جب کہ دھندے کا ٹائم ہورہاتھا اور دکان میں بڑے بڑے بنڈل بے ترتیب پھیلے ہوئے تھے۔

ایسے میں ایک لڑکا اس کی دکان پر آکر اس سے کہتاہے۔ "سیٹھ جی کوئی کام لے گا"۔

اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں کام پہلے تو سیٹھ چمن لال اس کو بغور دیکھتے ہیں۔ لڑکا تیرہ چودہ سال کا ہوگا مضبوط بدن کا لگ رہاتھا۔ سیٹھ نے پوچھا۔ "تیرا نام کیاہے"۔

"اعجاز" لڑکے نے اپنا نام بتایا۔

"چل اندر آجا اور اپنے کام پر لگ جا" دکان میں پہلے ہی سے تین ملازم تھے۔ اعجاز ان تینوں کے ساتھ کام میں جٹ گیا۔

            دکان میں گاہک آنا شروع ہوگئے۔ اعجاز کو جو بھی کام دیا گیا وہ سلیقہ سے کررہاتھا۔ اتنے میں سیٹھ نے اس کو آواز دی۔

"اعجاز"

"جی سیٹھ جی"

"یہ اٹیچی وکیل صاحب کو دے دینا"۔ اعجاز نے دیکھا کہ وکیل صاحب اپنی کار میں بیٹھ چکے تھے اور کار اسٹارٹ بھی ہوچکی تھی۔

اعجاز تیزی سے ان کی طرف لپکا لیکن کار آگے بڑھ گئی۔ وہ کار کے پیچھے انھیں آواز دیتا ہوا دوڑنے لگا۔

وکیل صاحب کی کارٹریفک کی وجہ سے رفتار نہیں پکڑ پارہی تھی۔ جس کی وجہ سے کار اعجاز کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوسکی۔ اعجاز آواز دیتا ہوا کار کے پیچھے دوڑتا رہا۔ آخر کار وہ سگنل پر رکی کار تک پہنچ گیا۔

اعجاز نے کہا "وکیل صاحب"۔

وکیل صاحب اس کی آواز پر چونکے اور بولے "کیاہوا"؟

اعجاز ان کی طرف اٹیچی بڑھاتے ہوئے بولا۔

"اسے آپ دکان پر بھول آئے تھے"

انہوں نے فورا لپک کر اس کے ہاتھ سے اٹیچی لے لی۔ پھر اس کو غور سے دیکھا۔ اعجاز کا سارابدن پسینہ میں شرابور ہوچکاتھا اور اس کی سانس بھی پھول رہی تھی۔

پہلے وکیل صاحب نے اپنی اٹیچی کھول کر دیکھی جو نوٹوں سے بھری تھی۔

پھروہ اعجاز سے مخاطب ہوئے "تم اتنا ہانپ کیوں رہے ہو؟ اور تمہارے کپڑے پسینے میں شرابور کیوں ہیں؟"

"میں دکان سے آپ کا پیچھا کررہاہوں"۔

"تم ہواں کیا کررہے تھے؟"

"میں وہاں ملازم ہوں۔" اعجاز نے وکیل صاحب کے سوال کا جواب دیا۔ "لیکن میں نے تمہیں وہاں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔"

"آج میرا وہاں پہلا دن ہے"۔

اعجاز پسینہ پونچھتا ہوا بولا۔

"اچھا ٹھیک ہے پہلے تم اندر آجاؤ دھوپ تیز ہے"۔ وکیل صاحب نے اپنی کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔

اعجاز پہلے تو ہچکچایا پھر کار میں بیٹھ کر دروازہ بند کرلیا۔ وکیل صاحب نے اپنی کار اسٹارٹ کردی۔

"تمہارا کیانام ہے"؟

"میرانام اعجاز ہے"۔

"بمبئی کب آئے؟" وکیل صاحب کی نظریں سامنے تھیں۔

"آج ہی صبح آٹھ بجے" اعجاز نے کہاں۔

"کسی لیے آئے ہو؟"

"میں پڑھنا چاہتاہوں" اعجاز پر اعتماد لہجہ میں بولا۔

"کیوں؟ تمہارے گاؤں میں اسکول نہیں ہے"۔

"ہے مگر میری سوتیلی ماں نے مجھے اسلوک جانے سے روک دیا اور مجھے گھر کے کام کاج میں لگادیا۔ میں ان کا ہر ظلم سہہ لیتا اور گاؤں سے اس طرح نہیں بھاگتا لیکن انھوں نے مجھے اسکول جانے سے منع کردیا تو مجھے مجبوراً ایسا کرنا پڑا۔ اعجاز نے اپنی بپتا سنائی۔ تم کو یقین ہے کہ تم بمبئی جیسے بڑے شہر میں پڑھ سکو گے جب کہ تمہارا کوئی ٹھکانا بھی نہیں ہے۔"۔

"جناب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ جس طرح اس شہر کی زمین پر قدم رکھتے ہی میری روزی روٹی کا بندوبست ہوگیا اسی طرح سے اللہ تعالیٰ میری چھت کا بھی انتظام کردیگے انشاء اللہ۔"

"اعجاز میاں پڑھ لکھ کر کیا بننا چاہتے ہو؟"

"آپ جیسا وکیل"۔

"وکیل ہی کیوں ڈاکٹر یا انجینئر کیوں نہیں"؟ وکیل صاحب نے بڑے پیار سے پوچھا۔

"تاکہ بے گناہوں کو انصاف دلاسکوں"۔

اعجاز نے جواب دیا۔

معصوم اعجاز کی باتوں نے وکیل صاحب کا دل جیت لیا۔ وہ اعجاز کے سرپر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔

"اعجاز میاں اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سن لی"۔

آپ کے کھانے، رہنے اور پڑھنے کا سب بندوبست ہوگیا۔ آج سے آپ ہمارے گھر پر رہو گے"۔

"اور وہ سیٹھ جی؟"

اعجاز نے پوچھا "ان کی فکر نہ کرو۔ ان کو فون پر بتادوں گا"۔ یہ کہہ کر وکیل صاحب نے اپنی کار کو اپنے گھر کی طرف موڑلیا۔

اعجاز کو وکیل صاحب کے گھر پر بہت پیار ملا، عزت ملی، دن رات محنت کرکے اعجاز نے وکالت کی ڈگری حاصل کرلی، لمبے عرصہ بعد جب وہ اپنے گاؤں پہنچاتو اس نے دیکھا کہ اس کے والد بہت کمزور اور ضعیف ہوچکے تھے۔ وہ اپنے بیٹے سے لپٹ کر خوب روئے۔

پھر اعجاز اپنی اس ماں سے ملا جس کی وجہ سے اسے گھر بار چھوڑنا پڑاتھا۔ وہ اعجاز سے نظریں نہیں ملاپارہی تھی اس کو اعجاز کے ساتھ کی گئی وہ تمام بدسلوکیاں اور برابرتاؤیاد آرہاتھا لیکن اعجاز وہ سب بھول چکاتھا۔

اعجاز نے اپنی ماں کو قیمتی شال اڑھائی تو اس کا سر ندامت سے جھک گیا۔

 

٭٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور