نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جنت کا راستہ

 

جنت کا راستہ

 

ایک شہزادہ تھا۔ ایک دن اُس نے خواب دیکھا۔خواب میں اس نے جنت دیکھی۔ خواب میں ہی وہ کھوگیا اور وہ جنت کی سیرکرنے لگا۔ جنت میں اس نے مختلف قسم کے پھل کھائے۔ مختلف قسم کے پھول دیکھے۔ مختلف قسم کی ندیاں دیکھیں۔ شہید کی ندی، دودھ کی ندی، وغیرہ۔

جو خواب میں "جنت" دیکھی وہ حقیقت میں دیکھنا چاہتاتھا۔ صبح اٹھتے ہی وہ جنت دیکھنے کی ضد کرنے لگا۔ شہزادہ بہت بھولاتھا۔ اس کی ماں رانی نے اسے بہت سمجھایا کہ انسان جیتے جی جنت نہیں دیکھ سکتا۔ یہ سن کر شہزادہ رونے لگا۔ روتے روتے ہی اس کو نیند لگ گئی۔

نیند میں اس نے ایک خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ اس کے پاس کھڑے ہوکر کہہ رہاہے۔ "بچے" جنت دیکھنے کیلئے اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ تم سفر کرتے ہو تو اس سفر کا کرایہ دینا پڑتا ہے نا؟ جنت دیکھنے کیلئے بھی تم کو اس کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا۔

شہزادہ نے کہا میں ماں کے پاس سے روپے لوں گا۔ اس فرشتے نے کہا۔ جنت میں تمہارے روپے نہیں چلتے۔ وہاں تو بھلائی اور اچھے کام کے روپ چلتے ہیں۔ یہ کہہ کر فرشتے نے کہا۔ یہ لومیں تم کو ایک "جادوئی ڈبیا" دیتاہوں۔ اسے اپنے پاس کھو۔

یہ کہہ کر وہ فرشتہ وہاں سے غائب ہوگیا۔ شہزادے کی نیند ٹوٹی تو شہزادے نے اپنے سرہانے سچ مچ ایک ڈبیادیکھی۔ ڈبیادیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ اس دن اس کی ماں نے اسے ایک پیسہ دیا۔ وہ ایک پیسہ لے کر باہر سیر کے لیے نکلا۔

راستے میں اسے ایک فقیرملا۔ وہ پیسے مانگنے لگا۔ شہزادہ فقیر کو پیسے نہیں دینا چاہتاتھا۔ اتنے میں اس نے اپنے استاد کو سامنے سے آتے دیکھا۔ استاد اپنے بچوں کی بہت ہمت افزائی، بھلے کام کرنے کی نیکی کرنے کی بچوں میں خواہش پیداکرتے تھے۔

شہزادے نے اپنے استاد کو دیکھ کر اس فقیر کو پیسے دیا۔ یہ دیکھ کر استاد نے اس شہزادے کو شاباشی دی اور اس کی تعریف کی۔ رات میں شہزادے نے اس ڈبیاکو کھولا، لیکن وہ تو خالی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کو بہت دکھ ہوا۔ وہ پھر روتے روتے سوگیا۔

خواب میں پھر سے وہی فرشتہ اس کو دیکھائی دیا اور بولا تم نے اپنے استاد کی شاباشی پانے کیلئے اس فقیر کو پیسے دیے تھے۔ تو تم کو شاباشی مل گئی ہوگیا سکون۔ اب روتے کیوں ہوں؟ کسی فائدے کیلئے جو اچھا کام کیا جاتاہے وہ تو تجارت ہے۔ وہ نیکی نہیں ہے۔ وہ نیکی تھوڑی ہی ہوسکتی ہے۔

پھردوسرے دن اس کی ماں نے اسے "دوآنے" دیے۔ شہزادہ نے ان دوآنوں سے دوسنترے خریدے۔ شام کے وقت شہزادے اپنے شہر کی سیروتفریح کیلئے نکلا۔ اس نے راستے میں ایک ماں اور بیٹے کو دیکھا۔ ماں بہت غریب تھی۔ وہ شہزادے کو دیکھ کر رونے لگی اور کہا میں مزدوری کرکے اپنا پیٹ بھرتی ہوں۔

اس وقت اپنے بیٹھے کی بیماری کی وجہ سے میں کئی دن سے کام کرنے نہیں جاسکی۔ میرے پاس میرے بچے کے علاج کیلئے ایک بھی پیسہ نہیں ہے۔ شہزادے نے یہ سن کر اپنے پاس کے دونوں سنترے بیمار بچے کی ماں کو دے دیئے اور ساتھ میں دوائی لانے کیلئے آنے دو آنے بھی دے دیئے۔ وہ عورت شہزادے کو دعائیں دینے لگی۔

آج رات جب شہزادے نے وہ "ڈبیا" کھولی تو اس میں "دوسونے" کے روپے چمک رہے تھے۔ ایک دن شہزادہ کھیل رہاتھا۔ اتنے میں اس کی بہن وہاں آئی اور اس کے کھلونے اٹھانے لگی۔ اس نے اس کو خوب روکا۔ لیکن وہ نہیں مانی۔ پھر شہزادے نے اسے مارا۔ شہزادے کی بہن رونے لگی۔

پھر شہزادے نے اپنی ڈبیا کھولی تو وہ سونے کے دو روپے غائب ہوچکے تھے۔ یہ دیکھ کر اسے بڑا دکھ ہوا اور وہ پچھتانے لگا۔ یہ واقعہ ہونے کے بعد شہزادے نے یہ فیصلہ کرلیا کہ آج کے بعد کوئی بھی برا کام، اللہ کی ناراضی والا کام نہیں کرونگا۔

ایک دن کی بات ہے جب یہ فیصلہ شہزادے نے سچ دل سے کیا۔ تو اسے راستے میں ایک بوڑھا آدمی ملا جو رورہاہے۔ یہ دیکھ کر وہ اس بوڑھے آدمی کے پاس گیا اور کہا بابا آپ کیوں رورہے ہیں؟ اس آدمی نے شہزادے سے کہا۔ بیٹا جیسی ڈبیا تمھارے ہاتھ میں ہے۔ ویسی ہی ڈبیا میرے پاس تھی۔

بہت دن محنت کرکے میں نے اسے روپیوں سے بھرا تھا۔ بہت خواہش تھی کہ ان روپیوں سے میں جنت دیکھوں گا۔ لیکن آج گنگامیں پانی نہاتے وقت وہ "ڈبیا" پانی میں گر گئی ہے۔

شہزادے نے کہا۔ بابا آپ رویئے مت میری ڈبیا بھی روپیوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ اسے لے لیجئے۔ اس بوڑھے شخص نے کہا۔ تم نے اس ڈبیا کو بڑی محنت سے بھرا ہے اور اس کو یہ دبیا دیتے وقت کوئی بھی دکھ نہیں ہورہاہے۔

شہزادے نے کہا۔ مجھے کوئی بھی دکھ نہیں ہورہاہے۔ کیونکہ بابا میں ابھی چھوٹاہوں مجھے ابھی زندگی گزارنی ہے۔ میں تو ایسی کئی ڈبیا اور روپے جمع کرسکتاہوں۔ لیکن آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ پتہ نہیں آپ دوسری "ڈبیا" روپیوں سے بھرپائیں گے یانہیں۔

آپ میری ڈبیالے لیجئے۔ اس بوڑھے آدمی نے ڈبیا لے کر شہزادے کی آنکھوں پر ہاتھ پھیردیا۔ تب شہزادے کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ اور اسے "جنت" دکھائی دینے لگی۔ ویسی ہی خوبصورت جنت جیسا اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ جب شہزادے نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اسے اس بوڑھے شخص کے بدلے خواب میں دکھائی دینے والا وہی فرشتہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ فرشتے نے کہا بیٹا جو لوگ اچھے کام کرتے ہیں جنت ان کا گھر بن جاتی ہے۔ تم اس طرح سے زندگی میں بھلائی کے کام کرتے رہو گے تو "جنت" تم کو "خوش آمدید" کہے گی تم کو۔

 تو پیارے بچو! ہمیں اپنی زندگی میں ہمیشہ اچھے کام کرنے ہوں گے۔ نیکیاں کرنی ہوں گی تب ہی ہمارا گھر جنت میں بن پائے گا۔ آمین۔

 

٭٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو