نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تیل کی کہانی تیل کی زبانی

 

تیل کی کہانی تیل کی زبانی

 

            اسلم مضمون لکھنے کیلئے بیٹھا ہی تھا کہ لائیٹ چلی گئی۔ وہ بہت جھنجھلایا دوسرے روز اسکول میں مضمون نویسی کا مقابلہ تھا۔ اور ابھی تک وہ ایک لفظ بھی لکھ نہیں پایا تھا۔ مضمون نویسی کے مقابلوں میں وہ کبھی بھی ناکام نہیں رہاتھا۔ اس کے مضامین معلومات سے پر، دلچسپ اور دلکشن ہواکرتے تھے۔ خاص طورسے خیال کو نئے انداز سے پیش کرنے کے سبب اسے انعامات ملاکرتے تھے۔ لیکن آج اسے کوئی خیال سوجھ نہیں رہاتھا۔ بڑی مشکل سے ایک آئیڈیا آیاتھا کہ سارے شہر کی بجلی چلی گئی۔ گھپ اندھیرا، چاروں طرف بھی اور اس کے ذہن میں بھی۔

            اسلم کی امی ایک روشن قندیل اس کے ٹیبل پر رکھ گئیں۔ لیکن وہ خالی الذہن بیٹھارہا۔ وہ پریشان تھا کہ لکھے تو کیا لکھے۔۔۔۔۔۔۔۔اچانک ایک سرگوشی گونجی "سنو" وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کوئی بھی تو نہیں تھاکمرے میں۔ وہ گھبراساگیا۔ "ادھرنہیں میری طرف دیکھو" آواز پھر آئی اسلم نے غؤر کیا تو محسوس ہوا کہ آواز قندیل سے آرہی ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی اس کے بدن میں ایک خوف کی لہرسی دوڑ گئی "ت، تُ، تم قندیل" اس نے ڈرے ڈرے لہجے میں کہا۔

            "نانا۔۔۔۔۔ ڈرومت۔۔۔۔۔۔۔نہیں میں قندیل نہیں" لیکن میری ہی وجہ سے یہ قندیل روشن ہے اور اس کی بتی جل رہی ہے۔ سمجھے کچھ؟

            "یعنی تیل!"

            "ہاں تیل۔۔۔۔ مٹی کا تیل میں مٹی کا تیل تم سے مخاطب ہوں۔۔۔۔۔۔ تم کوئی مضمون لکھنا چاہتے ہونا؟ تو میری کہانی لکھو"

            "تمہاری کہانی!" اسلم نے حیرت سے پوچھا اس کا خوف آہستہ آہستہ دور ہوتاجارہاتھا اور اس کی جگہ دلچسپی لے رہی تھی۔

            "ہاں میری کہانی۔۔۔۔ لکھوگے"

            "سناؤ ضرور لکھوں گا"

            "لوسنو۔ میں مٹی کا تیل ہوں۔ صدیوں تک انسانوں کے ساتھ رہاہوں۔ جب بجلی نہیں بھی تو ان سے گھروں میں روشنی کرتاتھا اور آج بھی ان کے چولھوں میں کام آتاہوں۔ البتہ جب سے بجلی ایجاد ہوئی تب سے میرا اور انسان کا ساتھ کمزور پڑتاجارہاہے۔ لیکن میرے دوسرے بھائی بندوں کے ساتھ اس کارشتہ مضبوط سے مضبوط ہوتاجارہاہے۔ یہ انسان میرے خاندان سے ناتا توڑہی نہیں سکتا۔ "تمہارے دوسرے بھائی بندبھی ہیں!" اسلم کی دلچسپی بڑھنے لگی "کون ہیں وہ؟"

            "سب کچھ بتاؤں گا۔ پہلے میرے ٹھکانے کے بارے میں سن لو۔ میں سطح زمین کے نیچے، بہت نیچے بے حد گہرائیوں میں پایاجاتاہوں۔ تب میرا رنگ وروپ ایسانہیں ہوتا جیسا کہ تم مجھے دیکھتے ہو۔ بات یہ ہے کہ ہزاروں کروڑوں سال پہلے، جغرافیائی اتھل پتھل کے نتیجے میں، حیوانات اور نباتات، زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہوگئے۔ سڑگل گئے، زمین کے اندر کے بے انتہادباؤ اور حرارت کی وجہ سے ایک گاڑھے مائع میں تبدیل ہوگئے۔ وہ سیاہ سیال مادہ اندرونی چٹانوں سے رِس رِس کر زمین کی گہرائیوں میں جمع ہوتارہا۔ اس سیاہ گاڑھے مائع کو پٹرولیم کہتے ہیں۔ پٹرولیم کے معنی جانتے ہو؟ "نہیں" اسلم نے کہا "پیٹرولیم دولاطینی لفظوں Patra اور Oleum کا مجموعہ ہے۔ پٹیرا کے معنی چٹان اور اولیم کے معنی تیل کے ہیں پٹرولیلم یعنی چٹانوں اور پتھروں سے نکلنے والا تیل ہے جسے معندنی تیل بھی کہتے ہیں"

"پٹرولیم۔۔۔۔ "اسلم سوچتے ہوئے بڑبڑانے لگا" یہ لفظ سن کر مجھے پٹرول یاد آتاہے"

"ٹھیک یاد آیا پٹرول میرا بھائی ہے"

"ہاں وہ میرا بھائی ہے میں اور پٹرول ہم دونوں اسی پٹرولیم کے اجزا ہیں، اسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دراصل پٹرولیم میرا روپ ہے میرا ابتدائی روپ۔ میری خام حالت اور پٹرول کی بھی" "اچھا"

"ہزاروں سال تک میں اپنی خام حالت میں زمین کی گہرائیوں میں دبا پڑارہا" مجھے کوئی پہچانتانہ تھا۔ میری قدروقیمت جانتا نہ تھا۔ کچھ امیریکیوں نے مجھے زمین کی تہوں سے کھینچ نکالا۔ میری خوبیوں اور مصروف کو پہنچانا۔ پھر کیاتھا، وہ میری تلاش میں جٹ گئے۔ تم نے برمائے ہوئے کنوئیں (Bore Well) دیکھے ہیں نا؟" بالکل اسی طرح زمین کے سینے میں شگاف کرکے پمپ کی مدد سے مجھے کھینچ کر نکالا جانے لگا۔ اور کبھی کبھی انسان کی ذراسی چھیڑ پاکر میں خود ہی اچھل کر زمین کی تہوں سے باہر نکل آتاہوں۔

            میری ابتدائی حالت ایک گاڑھے چکنے کیچڑکی طرح ہوتی ہے مجھے اس حالت میں ٹینکوں میں بھرکر یاپائپوں کے ذریعہ صفائی کیلئے کارخانوں میں پہنچایا جاتاہے۔ وہاں بڑے بڑے استوانے جیسے برتنوں میں مختلف درجہ حرارت پر گرم کیاجاتاہے۔ مختلف مرحلوں میں مختلف درجات پرگرم کرنے کے سبب اس پٹرولیم کے مختلف اجزا ایک ایک کرکے الگ ہوتے جاتے ہیں سب سے پہلے مرحلےمیں گیس الگ ہوجاتی ہے"

"گیس!؟ کون سی گیس؟! " اسلم نے پوچھا

"وہی گیس جو پکوان کیلئے چولہوں میں استعمال کی جاتی ہے"

"اچھا۔۔۔۔۔ وہ پکوان گیس۔۔۔۔۔ تو کیا وہ اسی پٹرولیم سے حاصل ہوتی ہے" اسلم کے لہجے میں حیرت تھی۔

"ہاں اسی پٹرولیم سے، جسے لکھویڈپٹرولیم گیس (L.P.G) کہتے ہیں۔ یوں سمجھو کہ وہ میری بہن ہے"

دوسرے مرحلے میں پٹرول علاحدہ ہوجاتاہے۔ ذرا اِس تصویر کو دیکھو۔ اس میں پیٹرولیم کو گرم کرنے اور صاف کرنے اور پٹرول حاصل کرنے کا طریقہ سمجھایاگیاہے۔

اگلے مرحلے میں جب حرارت اور بڑھادی جاتی ہے تو میں بھی پٹرولیم سے الگ ہوجاتاہوں پھر مجھے بھی پاک و صاف کیا جاتاہے تاکہ بچے کچے مٹی کے ذرے اور دوسرے اجزا بھی نکل جائیں۔ تب مجھے کیروسین یا مٹی کا تیل کہتے ہیں۔

"اب سمجھا۔۔۔۔۔۔ چوں کہ تم مٹی کی تہوں سے نکلتے ہو، اس لیے تمہیں مٹی کا تیل کہاجاتاہے۔ حالانکہ صاف و شفاف ہو اور بے حد کام کے بھی"

"ہاں۔۔۔۔۔ لیکن مجھ سے زیادہ مفید اور کارآمدمیرے بھائی پٹرول اور ڈیزل ہیں جن کی مدد سے بہت سی صنعتیں اور تقریباً ساری مشینی، سواریاں چلتی ہیں۔ اس سواریوں میں وہ ایندھن کے طورپر استعمال ہوتے ہیں۔ بجلی کی ایجاد کی وجہ سے انسان مجھ سے کسی قدر دور ہوگیاہے لیکن میرے بھائیوں سے اپنا دامن چھڑانہیں سکتا۔ آگے پتہ نہیں کیاہو؟"

"اچھایہ بتاؤ۔۔۔۔ سطح زمین کے نیچے کیا تم ہرجگہ موجود ہو؟" اسلم نے پوچھا

"نہیں۔ میں زیادہ ترامریکہ، روس، عرب ممالک اور ہندوستان کی سطح زمین کے نیچے پایاجاتاہوں۔ لیکن ایک بات یادرکھو، تم انسان مجھے اور خصوصاً میرے بھائیوں کو ضرورت اور بغیر ضرورت کے اور جاوبے جا استعمال کررہے ہو، جس کی وجہ سے قدرتی ماحول بگڑتاجارہاہے۔ آلودگی بڑھ رہی ہے"

"واقعی تم صحیح کہتے ہو" اسلم نے تائید کی۔

"تمھاری خواہشوں اور سہولتوں کی لالچ کے آگے ہمارا وجود ہی ختم ہوجائے اور انسان ۔۔۔۔۔" اچانک بجلی آگئی اور مٹی کا تیل ایک دم چپ ہوگیا۔ مگر اسلم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"شاید تم سوچ رہے ہوگے کہ اب بجلی آگئی ہے۔ اب میں کیوں تمھاری سنوں گا۔۔۔ مگر یادرکھو، سائنس جتنی ترقی کرلے۔ تمھاری خاندان کی اہمیت کم نہیں ہوگی"

"شکریہ دوست! مٹی کے تیل نے خوشی سے کہا"

"واقعی تمہاری کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ کل اسے اپنے مضمون میں ضرور پیش کرونگا"

اور پھر اسلم نے قندیل بجھادی۔

 

٭٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو