نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نور الدین زنگی بنوں گا* I can Proudly say *I Love Prophet* Muhammadﷺ s.a.a.w. *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب

 *میں نور الدین زنگی بنوں گا* 

I can Proudly say

 *I Love Prophet* Muhammadﷺ s.a.a.w.

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب ۔ *مسکان رومی* 

 *کیا اس دور کی ماوں نے نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں ۔ آج پھر امت مسلمہ کو ایک عدد نور الدین زنگی کی تلاش ہے* ۔

 یہ چھٹی یا ساتویں جماعت کا کمرہ تھا اور میں کسی اور ٹیچر کی جگہ کلاس لینے چلا گیا۔ تھکن کے باوجود  کامیابی کے موضوع پر طلبا کو لیکچر دیا اور پھر ہر ایک سے سوال کیا *ہاں جی تم نے کیا بننا ہے ہاں جی آپ کیا بنو گے ہاں جی آپ کاکیا ارادہ ہے کیا منزل ہے* ۔ سب طلبا کے ملتے جلتے جواب ۔ ڈاکٹر انجینیر پولیس فوجی بزنس مین ۔ لیکن ایسے لیکچر کے بعد یہ میرا روٹین کا سوال تھا اور بچوں کے روٹین کے جواب ۔ *جن کو سننا کانوں کو بھلا اور دل کو خوشگوار لگتا تھا ۔لیکن ایک جواب آج بھی دوبارہ سننے کو نا ملا کان تو اس کو سننے کے متلاشی تھے ہی مگر روح بھی بے چین تھی ۔* عینک لگاۓ بیٹھا خاموش گم سم بچہ جس کو میں نے بلند آواز سے پکار کر اس کی سوچوں کاتسلسل توڑا ۔ہیلو ارے میرے شہزادے آپ نے کیا بننا ہے۔ آپ بھی بتا دو ۔کیا آپ سر تبسم سے ناراض ہیں۔ 

بچہ آہستہ سے کھڑا ہوا اور کہا سر میں نور الدین زنگی بنوں گا ۔ میری حیرت کی انتہإ نا رہی اور کلاس کے دیگر بچے ہنسنے لگے ۔ *اس کی آواز گویا میرا کلیجہ چیر گٸی ہو ۔ روح میں ارتعاش پیدا کر دیا ۔پھر پوچھا بیٹا آپ کیا بنو گے ۔ سر میں نور الدین زنگی بادشاہ بنوں گا ۔* ادھر اس کاجواب دینا تھا ادھر میری روح بے چین ہو گٸی جیسے اسی جذبے کی اسی آواز کی تلاش میں اس شعبہ تدریس کواپنایا ہو ۔ 

بیٹا آپ ڈاکٹر فوجی یا انجینیر کیوں نہیں بنو گے ۔ 

 *سر امی نے بتایا ہے کہ اگر میں نور الدین زنگی بنوں گا تو مجھے نبی پاک ﷺ کا۔دیدار ہو گا* جو لوگ ڈنمارک میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کررہے ہیں ان کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بچے کی آواز بلند اور لہجے میں سختی آرہی تھی ۔ *اس کی باتیں سن کر۔میرا جسم پسینہ میں شرابور ہو گیا ادھر کلاس کے اختتام کی گھنٹی بجی اور میں روتا ہوا باہر آیا ۔* 

مجھے اس بات کااحساس ہے کہ آج ماوں نے نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں اور اساتذہ نے نور الدین زنگی بنانا چھوڑ دیے ہیں ۔ *میں اس دن سے آج تا دم تحریر اپنے طلبا میں پھر سے وہ نور الدین زنگی تلاش کر رہاہوں* کیا آپ جانتے ہیں وہ کون ہے اس ماں نے اپنے بیٹے کو کس نورالدین زنگی کا تعارف کروایا ہو گا *یہ واقعہ پڑھیے اور اپنے بچوں میں سے ایک عدد نور الدین زنگی قوم کو دیجیے* ۔ایک رات سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللّه علیہ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے۔

اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا دوعالم ﷺ کو کون ستا رہا ہے .

 *آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھااور آج پھر چند لمحوں پہلے انھیں آیا جس میں سرکار دو عالم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں.* 

اب سلطان کو قرار کہاں تھا انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا .اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ ٢٠-٢٥ دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ ١٦ دن میں طے کیا. مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کرواے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا.

 *اب لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے ، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ چہرے نظر نہ آے اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں* .جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں . تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیح میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں.

 *سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے.* انکے گھر میں تھا ہی کیا ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیاء.کہ یکدم سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا. آپ نے چٹائی ہٹا کے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی.

 *آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا .وہ سرنگ میں داخل ہویے اور واپس اکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاک صلی اللہ علیھ والہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے،* 

یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت تری ہوگئی .آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاؤ کہ تم کون ہوں.

 *حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ یہودی ہیں اور اپنے قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کے گئے ہیں.* سلطان یہ سن کر رونے لگے ، اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں.

سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ

💞"میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا"💞

 *اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کہ لیے خاتمہ کیا جاۓ سلطان نے معمار بلاۓ اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کے پانی نکل آے* .سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا.💞

بعض کے نزدیک سلطان کو سرنگ میں داخل ہو کر قبر انور پر حاضر ہو کر قدمین شریفین کو چومنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔💞

 *تحریر لمبی ضرور ہے مگر آپ کو۔پسند آٸی توعشق آقا کےواسطے اسے شٸیر کیجیے گا ۔* ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم اسلام تیرا دیس ھے تو مصطفوی ھے۔۔  اس تحریر کو کاپی کرتے ہوئے آگے بڑھائیے۔اچھی بات اگے پھیلانا بھی صدقہ ہے  شکریہ ہمارے پیج کا لنک دستیاب ہے ...https://www.facebook.com/Dr.M.AzamRazaTabassum/

 *ڈاکٹر صاحب کی تحریریں .واٹس ایپ پہ حاصل کرنے کے لیے .ہمیں اپنا نام .شہر کا نام اور جاب لکھ کر اس نمبر پر میسج کریں .* 03317640164. 

شکریہ .ٹیم نالج فارلرن.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور