نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*یہ میری زندہ لاش ہے راستہ دیجیے* *Give way* to an *Ambulance* Life doesn't *honk* for long!

*یہ میری زندہ لاش ہے راستہ دیجیے* 

 *Give way* to an *Ambulance* 

Life doesn't *honk* for long!

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب ابرش نور *گلوبل ہینڈز*

ہفتے کا دن تھا سرکاری اداروں سے ملازمین جوق در جوق نکل رہے تھے ۔ پراٸیویٹ اداروں کے ملازمین کو بھی سکھ کا سانس آیا ۔ ساٸیکل موٹر ساٸیکل سوار سے لے کر کار تک میں سوار ہر بندے کو گھر پہنچنا تھا شاید ہفتے کے دن کی اس ہاف چھٹی کے وقت کو سبھی بچا کر طویل بنانا چاہتے تھے ۔ ہر کسی کو اپنی سواری سے بھی پہلے گھر پہنچنا تھا اسی لیے روڈ پر ہر شخص سپر مین سپاڈر مین بیڈ مین اقواہ مین آٸرن مین کی عملی اور مطلبی صورت بنا ہوا تھا ۔ اختر صاحب بھی آفس سے نکلے اور ساتھ اپنے آفس کے چپڑاسی بابا کو بھی لے لیا ۔ بابا چلو آج میں تمھیں ڈراپ کر دوں گا بھٸی ہمیں بھی نیکی کا موقع دے دیا کرو ۔ چپڑاسی افسر کے سامنے دم سادھے سر جھکاۓ جی ہاں جی جناب کی سرگوشیاں کے سوا کچھ جواب نا دے پا رہا تھا ۔ ادب یا رعب خدا جانے ۔ بابا نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔تو صاحب نے کہا بزرگ ہیں آگے آ جاٸیں کوٸی بات نہیں۔گاڑی دروازے سے نکلتے ہی مین روڈ پر فراٹے بھرنے لگی ۔ بابا خود کو سمیٹے ہوۓ ہاتھ بغلوں میں دباۓ سر جھکاۓ آنکھوں کی کنکھیوں سے باہر کی دنیا دیکھ رہا تھا ۔ کیا بات ہے بابا اداس کیوں ہو ۔ صاحب اداس نہیں ناراض نہیں ہوں ہم کبھی اتنی بڑی گاڑی میں سفر نہیں کیے نا ہی اتنا جلدی یہ سٹاپ پر سٹاپ آیا جیسے ہم کسی بہت طوفان میں اڑ رہے ہیں افسر قہقہ لگاتے ہوۓ ارے بابا یہ تو سپیڈ ہی نہیں گاڑی تو اڑانے کا مزا آتا ہے ۔ اچھا تو تمھیں تیز گاڑی پر ڈر لگ رہا ہے اس لیے ایسے بیٹھے ہو ۔ کہاں اتاروں؟ صاحب آپ کی مرضی جہاں بھی اتاریں ہم پیدل چل کر چلے جاٸیں گے یا رشکہ تو ہر جگہ مل جاتا ہے ۔ او ہو گھر کے قریب سٹاپ کون سا ۔ صاحب کچہ سٹاپ ۔ وہ تو ابھی دور ہے ۔ ادھر سے کانوں میں ایمبولینس ساٸرن کی آواز پڑتی ہے ۔ بابا اونچی آواز میں إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ کا ورد کرنے لگتا ہے ۔ صاحب تم بھی نا ۔ اس میں کوٸی مرا تھوڑی ہے نا ۔ ان کی تو عادت ہے ۔ یہ ایسے ہی ساٸرن بجاتے رہتے ہیں روڈ کو باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں ۔ ابھی دیکھو اس کو مزا چکھاتا ہوں ۔ خالی ایمبولینس لے کر گھوماتا ہے ۔ صاحب نے گاڑی گھماٸی اور لے فاسٹ لین میں آ پہنچا ۔ ساٸرن مسلسل کانوں میں پڑ رہا مگر صاحب راستہ نہیں دے رہا ۔ ایمبولینس سے اسپیکر کال ۔ پلیز راستہ دیجیے ایمرجنسی ہے ۔ پلیز راستہ دیجیے ۔بابا صاحب کو دیکھ رہا اور مارے خوف کے کانپ رہا ۔ صاحب اس کا لطف لیتے ہوۓ دیکھا کیسے منت کر رہا ۔ صاب جی رستہ دے دیں یہ کسی غریب کی جان بچانے کو پہنچنا چاہتے ہیں ۔ صاحب بابا دیتا ہوں تھوڑا شغل تو لگا لیں ۔ بابا کی آنکھیں اس جواب پر پوری کھل جاتی ہیں مارے حیرت اور خوف کے سوچ کے سمندر میں ڈوبا جا رہا ہے کہ یہ امیر ہیں ان کے شغل ایسے ہی ہوں گے کیونکہ ایمبولینس تو ہم جیسے غریبوں کو بچانے کے لیے آتی ہے جن کے پاس رشکے کے پیسے نہیں ہوتے دوا خریدنے کی اوقات نہیں ۔ اچانک ہواوں سے باتیں کرتی گاڑی رک جاتی ہے بابا نے سر اٹھا کر دیکھا کہ ٹریفک جام ہے ۔ ادھر ایمولینس ساٸرن بجاتی عوام کی مدد سے دوسرا راستہ لے کر آگے نکل جاتی ہے صاحب قہقہ لگاتا ہے دیکھا ان کو مزہ چکھایا ۔ بابا نا صاب یہ تو خدا جانے مگر وہ لیٹ ہو گٸے ہیں ارے بابا ایسا نہیں ہے جس نے مرنا ہوتا ہے وہ ایمبولینس میں بھی مر جاتا ہے بس ان کو مزہ چکھانا ضروری تھا باپ کا روڈ سمجھا ہے ۔ بابا کچہ سٹاپ پر اتر کر پیدل گھر کی راہ لیتا ہے اور صاب میوزک کی آواز بڑھاتے ہوۓ اپنے محل کو روانہ ۔ بڑی سی کالونی اور اونچے اونچے شیشے کے گھروں کی اس دنیا میں جہاں کوٸی انسان نہیں نظر آتا نا ہجوم نا بھیڑ ۔ ہر انسان کی اپنی دنیا ہے ۔گھر کے دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر صاحب پریشان ہو جاتے ہیں گلی میں رش اور دروازہ پر ہجوم دیکھا تو گاڑی پارک کر کے بھاگا ۔ ادھر رونے کا شور بلند ہوا اور ماں کی آواز کان پڑی ہاۓ وہ ظالم ہاۓ وہ بے غیرت ہاۓ اس کا کچھ نا رہے تباہ ہو جاۓ ۔ اس کا سب کچھ برباد ہو جاۓ ۔ ادھر اس کی نظر بیوی پر پڑی ۔ بہتے آنسووں کے ساتھ صاحب سے لپٹ گٸی ۔ ارے ہوا کیا ہے اماں کس کو بدعاٸیں دٸیے جا رہی ہے کچھ بتاو تو سہی ۔ ابو کو ہارٹ اٹیک آیا تھا اور وہ ایمبولیس کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے چلے گٸے ۔ ایمبولینس والوں کو بہت فون کیا مگر انہوں نے کہا ہم راستے میں ہیں مگر کوٸی ظالم انہیں راستہ نہیں دے رہا ۔ ہاۓ ایسے ظالم بھی دنیا میں ۔ جن کی بدولت بے گناہ انسان مر جاتا ہے ۔ ماں اس آدمی کو بددعاٸیں دٸیے جا رہی ہے ۔ صاحب کے پاوں کے نیچے سے زمین نکل گٸی ۔ اندر کی طرف بھاگا تو چارپاٸی پر والد کی لاش دیکھ کر زمین پر گر پڑا۔ قصے میں درد کتنا ہے مگر یہ معاشرتی المیہ ہے کچھ درد ہمیں دکھاٸی نہیں دیتے کچھ آوازیں ہمیں سناٸی نہیں دیتی اور جن کو ہم سننا نہیں چاہتے ہر بار وہ کسی اجنبی کی نہیں ہوتیں کبھی کبھار کسی اپنے بہت اپنے کی ہوتی ہیں۔ایمبولینس زندگی کو بچانے کے لیے سڑک پر ہوا سے باتیں کرتی ہے کبھی سوچیے گا اس زندہ لاش کی جگہ آپ بھی آخری سانس لیتے ہوۓ اس میں ہو سکتے ہیں ۔زندگی کے تحفظ یا کسی مستقل معذوری سے بچانے کے لیے مریض کا پہلا ایک گھنٹہ سب سے قیمتی ہوا کرتا ہے ۔عزیزو اقارب سڑکوں پرمریض کی زندگی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ خود کو یہ سبق ازبر کروا دیں کہ پرہجوم سڑکوں پر’’ نوائے پریشاں ‘‘سنا کر راستہ مانگتی ایمبولینس کوئی عام گاڑی نہیں ہوتی ۔ اُمید یقین خوف شاید اگر مگر کاش کے درمیان کی یہ جنگ لڑنے والا آج کوٸی اور ہے کل آپ بھی ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے پاس سے گزرنے والی یہ گاڑی کسی آپ کے اپنے کے لیے راستہ مانگ رہی ہو۔ کبھی ضمیر سونے کی کوشش کرے تو اسے ٹھونک کر زبردستی سر تبسم کی لکھی کہانی سنا کر جگا دیجیے گا ۔ شاید اس کی غفلت سے کوٸی زندگی ضاٸع ہونے سے بچ جاۓ ۔اگر پھر بھی نا مانے تو اسے کہیے گا یہ میری لاش جا رہی ہے اسے راستہ دیجیے تا کہ میں زندہ رہ سکوں ۔راستہ دیجیے تا کہ میں اپاہج ہونے سے بچایا جا سکوں ۔  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور