نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اس میں کوٸی بہتری ہو گی* *I Don’t think* God wants us to get back to *Normal* . *I think* He wants us to get to *Better* .

 *اس میں کوٸی بہتری ہو گی* 

 *I Don’t think* God wants us to get back to *Normal* . *I think* He wants us to get to *Better* .

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی* کے راز سے انتخاب ۔ *اقصی نور* ۔گلوبل ہینڈز ۔پرانے وقتوں کی بات ہے ایک نامور بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ *بادشاہ کے وزیروں میں سے ایک وزیر بہت عقلمند تھا۔بادشاہ جب بھی کوٸی بات کرتا وزیر جواب میں کہتا اس میں کوی بہتری ھو گی* ۔

وزیر کو اس بات پر یقین کامل تھا کہ ہر کام میں قدرت کی طرف سے کوٸی نہ کوٸی بہتری ہوا کرتی ہے ۔اس لیے وہ تقریبا ہر معاملہ میں اس جملہ کا استعمال کر کے دل کواطمینان دیتا۔

 *ایک دن بادشاہ کی انگلی کٹ گئی بادشاہ تکلیف سے چلایا تو وزیر نے تسلی دیتے ہوۓ کہا جناب پرہشان نہ ہوں اس میں بھی اللہ کی طرف سے کوٸی بہتری ہو گی* ۔ بادشاہ کو وزیر کی اس بات نے بہت غصہ دلایا چنانچہ اس نے وزیر کو زندان میں ڈلوا دیا ۔ اب اس حکم کے جاری ہونے پر بھی وزیر نے بڑے اطمینان سے کہا اس میں بھی اللہ کی کوٸی بہتری ہو گی۔

بہرحال بادشاہ کا درد کم ہوا اور یوں دن گزرتے گٸے ۔ایک دن اچھا موسم دیکھ کر بادشاہ شکار کرنے نکلا ۔دوران شکار تیز طوفان آیا بادشاہ اپنے سپاہیوں سے الگ ہو گیا ۔ **جنگل میں مارا مارا پھرتا وہ ایک ایسے قبیلے کے قریب جا پہنچا جو سال میں ایک دفعہ ایک بہترین صحت مند انسان کی قربانی دیتے تھے* قبیلے کے ماہر جنگجووں نے بادشاہ کو پکڑا اور اپنے سردار کے پاس لے گٸے ۔اب قبیلے کے سردار نے بادشاہ کے ذبح کرنے کا حکم جاری کیا ۔بادشاہ نے انہیں لاکھ بتانے کی کوشش کی کہ میں بادشاہ ہوں میری سلطنت میں آپ کا جنگل بھی ہے مگر انہیں بادشاہ کی زبان کی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔

 *شام کو جب ایک بڑا آلاو جلایا گیا اور بادشاہ کو سجا کر سنوار کر قربان گاہ کے قریب لایا گیا تو بھی بادشاہ کی ساری کوششیں ناکام گٸی* ۔ بالآخر اسے موت کر پروانہ سمجھ کر قبول کرنے کو تیار ہو گیا کیونکہ اب اس سے سوا کوٸی چارا نہیں نظر آ رہا تھا۔ بادشاہ مکمل طور پر مایوس ہو چکا تھا اسے موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ جب قربانی کا وقت آیا اور بادشاہ کو ذبح گاہ کے مقام پر پہنچایا تو ذبح کرنے والے نے ایک درد بھری آواز لگاٸی جس پر سب پریشان ہو گٸے ۔ *دراصل اس نے بتایا کہ یہ انسان ناقص ہے اس کے ہاتھوں کی انگلیاں پوری نہیں ۔لہذا دیوتا کی بارگاہ میں اس کی قربانی قبول نہیں ہو گی ۔* یوں انہوں نے بادشاہ کو چھوڑ دیا ۔اس وقت بادشاہ کو یاد آیا کہ *میرا وہ وزیر ٹھیک کہتا ہے کہ ہر کام میں اللہ کی بہتری ہوتی ہے* ۔یہ کہانی ہمیں اپنے رب پر یقین کامل دلاتی ہے ہماری زندگیاں بھی بے یقینی سے بھری پڑی ہیں ۔ہم نے خدا سے سوا جب ظاہری اسباب پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا ہے ۔ *جب سے ہمارے یقین متزلزل ہوۓ ہیں ہماری پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے* ۔یقین ایک امید کی طرح ہے ۔ *اللہ فرماتا ہے ۔میں بندے کے گمان کے مطابق ہوں ۔مجھ سے اچھا گمان رکھو ۔میری رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔* یقین کی طاقت انسان کو حوصلہ دیتی ہے مضبوط بناتی ہے ۔ اللہ کا قرب دیتی ہے ۔ خود کو سمجھاٸیے آپ کا خدا آپ سے بہت پیار کرتا ہے وہ آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ وہ آپ کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے اس کے بناۓ قوانین میں سے ہر ایک میں کوٸی نہ کوٸی حکمت ہے۔ *اس کے عطا کرنے میں بھی حکمت ہے اور واپس لے لینے میں بھی کوٸی حکمت ہوتی ہے ۔* وہ اپنے بندوں کی بہتری ہی چاہتا ہے ۔ بس جب مساٸل آٸیں تو یقین رکھیے یہ دنیا ہے اور مساٸل کا گھر ہے ہمیں انہی مساٸل کے ساتھ جینا ہے اور *ہر مسٸلہ اپنے اندر کوٸی نہ کوٸی حکمت رکھتا ہے اور صبر کا دامن تھامے رکھنا ہے کہ اللہ نے خود فرمایا* ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ *اگر آپ چاہتے ہیں کہ خدا آپ کے ساتھ ہو تو صبر اور حکمت سے اپنے معاملات کریں* یقینا وہ ہی ہے جو دلوں کو طاقت دیتا ہے اور انسان کو قوت فیصلہ بھی ۔*شکریہ ... .

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور