نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*پھر بڑے مقصد کے لیے جیو* If You Go Through The Wars,You Get The Medals.

 🌿 *پہلے اپنے لیے جیو* 🌿

اور 

 *پھر بڑے مقصد کے لیے جیو* 

If You Go Through The Wars,You Get The Medals.


 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب ۔ ابرش نور *گلوبل ہینڈز*

*آپ نے سمندر کنارے بحری جہاز دیکھے ہوں گے جو بندر گاہ پر محفوظ کھڑے ہوتے ہیں مگر آپ اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ انہیں یہاں کھڑا رہنے کے لیے نہیں بنایا گیا* ۔ بحری جہاز گہرے پانیوں میں اترتے ہیں اور طوفانی موسم سے لہروں کے تھپیڑوں سے لڑتے ہیں کیونکہ ان کو کناروں پر کھڑا رہنے کے لیے نہیں بلکہ بڑے مقاصد کے لیے بنایا گیا ہوتا ہے ۔ *اسی طرح ہواٸی جہاز فضا میں اڑنے کا رسک لیتے ہیں کامیاب پرواز ان کی تعریف اور تعارف کی وجہ ہوتی ہے* ۔ بالکل اسی طرح آپ یاد رکھیے تمغہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو جنگ لڑنی پڑے گی ۔ اپنی قوت بازو آزماۓ بغیر کوٸی بڑا مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔ *یہ جنگ تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔* 

💙خود سے جنگ یعنی خود کو جنگ کے لیے تیار کرنا 

💙میدان جنگ میں اترنے کا مقصد بڑا سوچنا 

💙میدان جنگ میں تسلسل سے پاوں جماۓ رکھنا 

تو پھر مایوسی کی پوست اتاریے اور زندگی کی جنگ لڑنا شروع کیجیے ۔ 

 *پہلے اپنے لیے جیو* 

اور 

 *پھر بڑے مقصد کے لیے جیو ۔* 

یہ دو جملے زندگی کی نظم کا مرکزی خیال ہیں ۔ اکثر جب سر تبسم ان دو جملوں کا کسی کو کہتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں دعا کیجیے گا ۔ *نصیب اچھے ہوں ۔ ہم جینا چاہتے ہیں مگر شاید ہمارے مقدر میں نہیں ۔* تو مجھے پنجابی کا ایک جملہ یاد آتا ہے *من حرامی حجتاں ڈیر* ۔۔۔۔ کہ جب نیت نا ہو تو ایک بے شمار بہانے عذر پیش کر دٸیے جاتے ہیں ۔ *ایک منٹ ذراسوچیے ہم مقدر کا رونا ۔ قسمت کو کوسنا ۔ نصیب کو گالیاں دینا ۔ حالات کا گلہ کرنا ۔ دوستوں کا ساتھ نہ دینا ۔ اسباب کی کمی کی پسوڑی ڈالنا ۔* ایسے جملے ایسے ہی مواقع پر کہتے ہیں جب ہمیں خود کام کرنا پڑے ۔ بنیادی طور پر کہہ لیں کام کرنے سے موت پڑتی ہے ۔ مثال دیتا ہوں ۔ *اکثر کسی دوست کو کہا جاۓ آو سینما چلتے ہیں فلاں فلم دیکھنے وہ تیار ہو جاتا ہے آو فلاں پارک چلتے ہیں چلو چلتے ہیں اگر کسی مجبوری میں ہے تو اکثر مجبوری کو پس پشت ڈال دیتے ہیں یہ کہہ کر یار مجبوریاں  او ہو یہ کام تو زندگی کے ساتھ چلتے رہیں گے فی الحال تھوڑا انجواۓ کرتے ہیں پھر موقع ملے نا ملے* ۔ اب ذرا دوسری طرف نظر ڈالیں ۔ آو یار مسجد چلیں ۔ نماز کا وقت ہے ۔ او ہو میرے کپڑے خراب ہیں ۔ یار تم جاو میرے لیے بھی دعا کرنا توفیق ملے ۔ آو یار فلاں کی عیادت کرنے ہسپتال چلیں  او ہو یار ضرور جاتا ابھی نا ایک اہم کام ہے ۔ اس *طرح کی کٸی ہزار مثالیں ہیں بنیادی طور پر یہ سب بہانے ہم اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ہمیں کسی کو ٹالنا ہو یا کسی کے حقوق دینے ہوں یا کسی اچھے کام کو انجام دینا ہو ۔ بعد میں پچھتاوا بھی ہوتا ہے مگر ہم اس بہانے اور پچھتاوے کے اتنے عادی ہو گٸے ہیں کہ اسے بھی نصیب کے خانے میں ڈال کر مطمٸن ہو جاتے ہیں ۔* کچھ لوگوں کی مثال ہے انہیں کہو نا یار یہ لاش پڑی ہے اس کے کفن کا انتظام کرنا ہے تو وہ سر پکڑ لیں گے اور کہیں گے او ماٸی گاڈ ۔ اتنا بڑا حادثہ یہ تو دل ہل گیا اس جیسا حادثہ میں نے پہلے نہیں دیکھا مجھے بہت افسوس ہے میرا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے ۔ اگر یہ ایک مہینے بعد ہوتا تو اس کے کفن دفن کا انتظام میں خود کرتا ۔ 😉 آپ سمجھ گٸے دراصل یہ بھی معاشرے کا ایک کردار ہے جو باتیں کمال کرتے ہیں عمل زیرو پرسنٹ ۔ باتوں سے آپ کو ثابت کریں گے امت قوم عوام کا درد ان کے گوڈے میں ہے😥 ۔ *اب آپ ان کرداروں میں سے اپنے آپ کو تلاش کیجیے ۔ ناکامی اور بد ترین ناکامی دونوں کا وجود مرکز و محور بہانہ ہے ۔* آپ اگر اچھاٸی کے ہر کام میں دعا کا کشکول پھیلا دیتے ہیں اور نصیب کو کوستے ہیں تو آپ کو دنیا کی کوٸی طاقت نہیں بدل سکتی ۔ *ساری عمر یونہی ایڑیاں رگڑتے گزرے گی ۔ جینا ہے تو اے ون جیو ۔ عام عادات سے ہٹ کر چلو ۔ رسمی طور طریقوں اور ہچکولے کھاتی زندگی سے نکلو ۔ قدرت کی ان پگڈنڈیوں پر چلو جو ابتدا مشکل ہیں مگر ان کا ربط بڑی کامیابیوں پر مشتمل شاہراوں سے ہے ۔ آپ چلنے والے بنیں ۔* راستے خود آپ کے منتظر ہوں گے ۔ منزلیں خود خوش آمدید کہیں گی ۔ ایک عدد صاف صفحہ اٹھاٸیں مساٸل کی فہرست بناٸیں ۔ اسی صفحہ کے پچھلی جانب اپنے خواب اور منزل لکھیں پھر ایک دو تین چار کر کے نمبرنگ کریں ۔ کس کو کتنا پہلے حاصل کیا جا سکتا ہے پھر کوشش کرنا شروع کر دیں ۔ زندگی کا لطف ملے گا ۔ یاد *رکھیے چاند پر بھی جانا ہو تو پہلا قدم اٹھانا ضروری ہے ۔ دنیا  میں وہ دوسرا آدمی جس نے آپ کو کامیاب کرنا ہے وہ بھی آپ خود ہیں ۔* سر تبسم نے تو آپ کو ترو تازہ رکھنا ہے اپنے الفاظ کی دھنک سے آپ کو قوس قزح کا مسافر بنانا ہے تا کہ آپ زندگی کے تمام رنگوں کا لطف اٹھا سکیں ۔ یاد رکھیں بس یہی یاد رکھیں ۔ *اپنے لیے جیو* 

اور 

 *پھر بڑے مقصد کے لیے جیو* 

Then live for a greater purpose

ہم محبت اور سہاروں کی بیساکھیاں لے کر چلنے نہیں نا ۔۔ تو پھر ان امیدوں اور قیاسوں سے باہر

والے لوگ ہوتے ہیں۔ *کوئی آخر ہمارے لیے کیا کرسکتا ہے کیا کوئی ہماری قبر میں جاکر لیٹ سکتا ؟ تو آ جائیں اپنے لیے خود جینا شروع کریں* ۔آپ حالات کے تقاضوں کے ساتھ ضرور چلیں پر خود سے محبت کرنا نہ چھوڑیں۔آپ دوسروں کے ساتھ اپنے آپ سے بھی شدید محبت کریں۔۔خوش باش رہنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ آپ پہلے خود سے محبت کرنا تسلیم کریں، محبت کو شرف قبولیت بخشیں اور اپنے آپ سے محبت کرنے اور زندگی گزارنے کا ہنر سیکھیں، *دنیا کو تبدیل کرنے کی کوشش مت کریں ۔ ایک شخص جسے آپ تبدیل کر سکتے ہیں کامیاب بنا سکتے ہیں جسے ہر بات منوا سکتے ہیں وہ آپ خود ہیں ۔ خود کو وقت دیں خود کے لیے جینا شروع کریں ۔* پھر جب آپ خود کو بدل لیں گے لفظ کامیابی آپ کا تعارف بن جاۓ گا بڑے مقاصد حاصل کر لیں گے پھر دوسروں کے دلوں پر راج ملے گا پھر انہیں تبدیل کیجیے گا ۔خوش رہنا سیکھیں خود سے محبت کرنا سیکھیں۔ *دوسروں میں خوشیاں مت ڈھونڈیں دوسروں کے سہارے رہیں ھے تو اپنی شناخت بھی کھو دو گے پہلے خود کو تو جانچ لیں پر کچھ لیں آپ کیا چاہتے ہو اپنے لیے تو جینا سیکھ لیں یقین کر میں آپ سے بڑھ کر آپ کا اپنا کوئی نہیں ۔*

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period