نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کالا دوست ,سفید دوست* An *Honest Friend* is a *Precious* Gift

*کالا دوست ,سفید دوست* 

An *Honest Friend* is a *Precious* Gift.

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب ۔ *حناروحی* ۔ 

 *میرے تعلقات میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک کو میں کالا دوست کہتا ہوں ایک کو سفید دوست مگر مجھے گولڈن دوست اچھے لگتے ہیں* .ہوا یوں کہ ایک دن ایک استاد نے دیوار پر ایک بڑا سا سفید کاغذ چسپاں کیا اور کارڈ کے درمیان میں مارکر کے ساتھ ایک نقطہ ڈالا، پھر اپنا منہ طلباء کی طرف کرتے ہوئے پوچھا:- " آپ کو کیا نظر آ رہا ہے؟"

سب نے ہی یک زبان ہو کر کہا:- " *ایک سیاہ نقطہ."* 

اس استاد نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سب سے پوچھا:-" *کمال کرتے ہو تم سب! اتنا بڑا سفید کاغذ اپنی چمک اور پوری آب و تاب کے ساتھ تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے، مگر ایک مہین سا سیاہ نقطہ تمہیں صاف دکھائی دے رہا ہے؟"* 

جی ہاں، لوگ تو بس ایسا ہی کمال کرتے ہیں: آپ کی ساری زندگی کی اچھائیوں پر آپ کی کوتاہی یا کمی کا ایک سیاہ نقطہ ان کو زیادہ صاف دکھائی دیتا ہے.اچھا تعلق بھی اللہ کی نعمت ہے اچھا تعلق وہ نہیں ہے جو آپ کی تعریف ہی کرتا رہے نا ہی برا تعلق وہ ہے جو آپ کے عیب آپ کو بتائے.بلکہ *_اچھا وہ ہے جو آپ کی تعریف بھی کرے اور عیب بھی بتائے مگر موقع مناسبت کے مطابق*_ .جی ہاں میرے وہ دوست جو میری تعریف ہی کرتے ہیں وہ میرے سفید دوست ہیں اور جو ہر وقت تنقید اور عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں وہ.میرے کالے دوست ہیں اور مجھے اچھے لگتے ہیں گولڈن دوست .گولڈن دوست تعریف بھی کرتے ہیں اور عیب بھی بتاتے ہیں. *شیخ سعدی فرماتے ہیں دوست وہ ہے جو نصیحت تنہائی میں کرے اور تعریف ہجوم میں* .بعض لوگ مزاح کے نام پر اپنے دوستوں کے عیب بولتے ہیں یہ دراصل کالے دوست ہوتے ہیں اور یہ مزاح نہیں مذاق کر رہے ہوتے ہیں جس سے دوست کے وقار اور عزت پر حرف آتا ہے کالے دوست مخلص بھی ہوتے ہیں مگر زیادہ تر منافق ہوتے ہیں .کیونکہ *اخلاص تو یہ ہے کہ عیب تنہائی میں بتاو مگر جب عیبوں کا ذکر محفل میں ہو چاہے اس کی کوئی بھی صورت ہو یہ کالے پن کی علامت ہے* .دراصل ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں تربیت کی بہت کمی ہے .میں نے سنا دیکھا ہے کہ بہت سے تعلقات اور *محبتییں فلمی دنیا کی طرح ہیں جیسا کہ آج کل دوستی میں کہا جاتا ہے ہم دوست ہیں اور دوستی میں 

No Thanks 

No sorry 

 *یہ ایک فلمی ڈائیلاگ ہے جبکہ دوست کا حق اس پر سب سے زیادہ ہے کہ اچھائی پر اس کا شکریہ ادا کیا جائے اور غلطی پر معذرت کی جائے** یہ دو چیزیں حسین تعلق کے لیے کھاد اور پانی کی حیثیت رکھتی ہیں .گولڈن تعلق میں اس چیز کا زیادہ خیال رکھا جائے اور اس پر عمل.کرنے سے گولڈن دوست جلدی بنتے *ہیں.میری بات یاد رکھیے گا جسے شکریہ کہنا نہیں آتا اس کےدوست بہت کم ہوتے ہیں تعلق تو بہت ہوتے ہیں مگر جن پر لفظ دوست صادق آتا ہے* وہ بہت کم ہوتے ہیں اور جن کو سوری کہنا نہیں آتا ان کے جنازے میں لوگ بہت کم ہوتے ہیں .کیوں جنازہ فرض کفایہ ہے ایسے شخص کے لیے لوگ کیوں وقت نکالیں جس نے ساری زندگی لوگوں کو تکلیف دی ہے. *اپنے اردگرد ایسے دوست جمع کریں جن کے آپ بھی قدر دان ہوں اور وہ بھی آپ کے قدر دان ہوں.* مطلب گولڈن دوست.سفید اور کالے دوست کہیں بھی مل سکتے ہیں.وہ عزت جو اپنے مطلب کے لیے دی جائے عزت نہیں منافقت ہوا کرتی ہے .باقی رہی بات لوگوں کی زبان کی تو کچھ حقیقت ہوتا ہے کچھ افسانہ ہوتا ہے. *ان کالے نقطوں کو آپ ختم کر سکتے ہیں اپنے سفید کردار کی چادر سے* .اب رہا سوال یہ کہ کردار کا اجلا لباس کیسے پہنا جائے تو یہ ان نصیحت اور باتوں پر عمل کرنے سے ملتا ہے جو *والدین اور اساتذہ کہتے ہیں.انہوں نے زمانہ پڑھا ہوتا ہے.* ان کے حروف الفاظ کی دھنک نہیں بلکہ رحمت کے وہ قطرے ہوتے ہیں جو اپنے پیاروں پر برستے ہیں اگر ان کو جذب کر لیا تو یقین مانیے.آپ اجلے کردار اور سیرت سے متصف ہو ں گے. *میری آنکھ میں آنسوآ جاتے ہیں جب آج کا بچہ کہتا ہے امی ابو تو ان پڑھ ہیں* او ظالموں نئی تہذیب کے پرورش کردہ انڈوں یاد رکھنا ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتا. تم دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی سے پڑھ آو ادب کا سبق . *احترام اور کی نوٹ بک آسانیاں اور محبتیں بانٹنے والا نصاب انہی کی درگاہ پہ پڑھایا جاتا ہے* .وہ زمانے کی حقیقت جانتے ہیں انہیں معلوم ہے زمانہ کیا ہے اور اس میں کیسے رہنا ہے .اجلا لباس پہنے اجلا کردار رکھیں اجلے دوست بنائے . *اچھوں کی قدر کریں .نعمت کا شکریہ ادا کریں .ان شاء اللہ آپ کے کردار پر کوئی داغ نا ہو گا* .پہلے خود گولڈن دوست بنیے اللہ آپ کو آپ کی قیمت ولیو اور معیار کا دوست دے گا .اصلاح کا سفر اپنی ذات سے شروع کریں .ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم نے ہمیشہ اصلاح کے لیے لکھا ہے اگر آپ کو اچھا لگے تو اسے شئیر کریں تا کہ ہمارے ساتھ ہمارا معاشرہ بھی اچھا ہو 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو