نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

شیطان کی رسیاں💫 Your *degree* is just a piece of paper, your *education* is seen in your *behavior* .

💫شیطان کی رسیاں💫

Your *degree* is just a piece of paper, your *education* is seen in your *behavior* .

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب ۔ *گلوبل ہینڈز* 

 *کہتے ہیں کہ ایک دن شیطان بیٹھا رسیوں کے پھندے تیار کر رہا تھا.. کچھ موٹی موٹی رسیوں کے پھندے تھے ۔* کچھ باریک اور کمزور رسیوں کے پھندے تھے.. وہاں سے ایک علم والے کا گذر ہوا تو اس نے شیطان سے پوچھا.. *"ارے او دشمن انساں ! یہ کیا کر رے ہو..؟"* 

شیطان نے سر اٹھا کر دیکھا اور اپنا کام جاری رکھتے ہوئے بولا.. " *دیکھتے نھیں حضرت انسانوں کو قابو کرنے کے لیے پھندے تیار کر رہاہوں.."* 

ان حضرت نے پوچھا.. *"یہ کیسے پھندے ہیں کچھ موٹے کچھ ہلکے..؟"* 

شیطان نے جواب دیا.. *"پھندے ان لوگوں کے لیے ہیں جو شیطان کی باتوں میں نہیں آتے.. لہذامختلف قسم کے پھندے تیار کرنے پڑتے ہیں.. کچھ خوشنما' کچھ موٹے' کچھ باریک.."* 

ان حضرت کے دل میں تجسس پیدا ہوا.. پوچھا.. 

*"کیا میرے لیے بھی کوئی پھندا ہے..؟"* 

شیطان نے سر اٹھا کر مسکراتے ہوئے کہا.. 

" *آپ علم والوں کے لیے مجھے پھندے تیار نہیں کرنے پڑتے.. آپ لوگوں کو تو میں چٹکیوں میں گھیر لیتا ہوں.. علم کا تکبر ہی کافی ہے آپ لوگوں کو پھانسے کے لیے.."* 

ان حضرت نے حیران ہو کر پوچھا.. *"پھر یہ موٹے پھندے کس کے لیے ہیں..؟"* 

شیطان نے کہا.. 

" *موٹے پھندے اخلاق والوں کے لیے ہیں جنکے اخلاق اچھے ہیں.. ان پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے..* علم کا تکبر سب سے برا تکبر ہے اگر آپ کچھ جانتے ہیں تو اس پر عمل کیجیے علم کا حق عمل سے ادا ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنے علم سے نفع نہیں اٹھاتے وہ اس چراغ کی طرح زندگی جیتے ہیں جس کی روشنی سے دوسرے تو فاٸدہ اٹھاتے ہیں بیچارہ خود محروم رہتا ہے ۔ *موجودہ دور میں ایک بیماری عام ہو رہی جس کی وجہ سے بحث جنم لیتی ہے اور لوگ بحث و مباحثہ میں گھنٹوں اپنا وقت ضاٸع کرتے ہیں ۔ وہ بیماری یہ کہ یار جو میں جانتا ہوں اسے کہاں معلوم ۔ بس پھر ہر کوٸی اپنی اپنی معلومات ادھوری معلومات بنا ایک دوسرے کی سنے جھاڑنے لگتا ہے نتیجہ بحث میں ناراضی بد گمانی اور نفرت جنم لیتی ہے ۔* علم کا پہلا فاٸدہ ہی شعور ہے ۔ آپ کو سہی معنوں میں اہل علم نظر آٸیں گے جو علم کی وجہ سے عاجزی اختیار کیے ہوتے ہیں ۔ *والد گرامی اکثر کہتے ہیں جس درخت پر پھل لگتے ہیں اسے جھکنا آتا ہے ۔ جس درخت میں جتنی نرمی ہے آپ اسے اتنا ہی میٹھا پھل نفع مند پھل دینے والا پاٸیں گے ۔* ڈھول پر ہاتھ ماریں تو اس کی آواز بہت زیادہ آتی ہے شور مچ جاتا ہے اس کی وجہ کے وہ اندر سے خالی ہوتا ہے ۔ *سچے اور اصل علم والے اندر سے بھرے ہوتے ہیں علم کے سمندر کے سمندر پی کر بھی شور نہیں مچاتے ۔* وہ علم بھلا کیسا علم ہے جو آپ کو تکبر میں مبتلا کردے ۔ وہ کیسا علم ہے جو بد تمیز بنا دے ۔ بدتمیز انسان یا معلومات کا انساٸیکلوپیڈیا یاد رکھا ہوا انسان علم کی روحانی لذت سے محروم ہوتا ہے اس لیے وہ عاجز نہیں ہوتا ۔ *علم کا زیور اخلاق ہے عمل اس کا نور ہے مسجود ملاٸک میں تکبر نہیں ہونا چاہیے* ۔ اسے تو اپنے شب وروز بارگاہ خداوند میں بصد عجز و نیاز شکر بجا لانے میں بسر کرنے چاہیے ۔ زندگی ہے ہی کتنی اور اگر وہ بھی میں میں میں کی رٹ لگاتے گزار دی تو عمل نافع کب ہو گا ۔ آپ نے علم کے سمندر پی رکھے ہیں مگر کردار سے اظہار نہیں ۔ *زبان میں چاشنی نہیں دل میں عاجزی نہیں نظر میں حیا نہیں گفتار میں سچاٸی نہیں تو تقوی کہاں سے حاصل ہو گا ۔* علم تو تقوی کا منبع ہے بارگاہ لم یزل میں حاضری کیسے ہو ۔ عالم اور جاہل کا فرق کہاں سے ہو گا ۔ لہذا علم ادب کے ساتھ متصف رکھیں اور اخلاق کا دامن ہرگز مت چھوڑیں ۔ اخلاق سے متعلق حدیث شریف میں ہے کہ اعمال میں سب سے زیادہ وزنی چیز اخلاق ہوگا.." اللہ سے دعا مانگا کریں ۔ انسان بہت ضعیف ہے کمزور ہے بہک جاتا ہے اس کی بارگاہ بیکس پناہ میں صبح و شام ایسے عرضی پیش کیا کریں 

 *اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْاَخْلَاقِ وَالْاَعْمَالِ وَالْاَھْوَاءِ* 

اے ﷲ! بے شک میں برے اخلاق ، برے اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔. 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period