نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

A less intelligent* person would have *forgotten* a *diamond* taken from another Is But he *remembers* his given *stone* .

*کم ظرف انسان سے بچیے* 

 *A less intelligent* person would have *forgotten* a *diamond* taken from another Is But he *remembers* his given *stone* .

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب *ابرش نور* گلوبل ہینڈز 

 *کسی گاوں میں ایک امیر نہایت امیر انسان رہتا تھا ۔اتنا کہ اس کے پاس ہیرے جوہرات کی کثیر تعداد رہتی وہ ان کی خرید و فروخت سے خوب کماٸی کر رہا تھا اس طرح مزید امیر بھی ہو رہا تھا ۔ دوسری طرف اس کا رویہ بھی اپنوں کے ساتھ تکبرانہ ہو رہا تھا* ۔ اس گاوں میں چوہے بہت تعداد میں پاۓ جاتے تھے بلکہ یوں کہہ لیجیے باہر سے آیا ہوا شخص یہ بات کہہ سکتا تھا کہ یہاں انسانوں سے زیادہ چوہے رہتے ہیں ۔ اب خدا کا کرنا ہوا یوں کہ ایک روز امیر آدمی ہیروں کی پوٹلی کھولے قیمتی چٹاٸی پر بیٹھا ہیرے گن رہا تھا اور ساتھ ساتھ فخریہ انداز میں اپنے نوکروں پر طنز کر رہا تھا ۔ *اتنے میں ایک چوہا کسی کونے سے آہستہ سے نکلا اور اس جانب بڑھا شاید بھوک کی بدولت اسے اس جانب کشش ہوٸی اس نے ایک ہیرا منہ میں دبایا اور چل نکلا* ۔امیر آدمی یہ دیکھ کر چلایا چیخا تو چوہے نے بھی جان بچانے کی غرض سے دوڑ لگا دی ۔ بجاۓ اس کے کہ مارے خوف کے چوہا ہیرا پھینک دیتا مگر کمرے میں ادھر سے ادھر امیر آدمی کو اپنے پیچھے بھگاتے ہوۓ اور اپنی جان بچاتے ہوۓ چوہا ہیرا نگل گیا اور قریب ہی اپنی بل سے اندر ہو لیا ۔ *امیر آدمی اس ہیرے کی وجہ سے خاصا پریشان ہوا اور سب نوکروں کو حکم دیا کہ ایک تو اس گھر کا کوٸی چوہا باہر نا جانے پاۓ اور دوسرا اس چوہے کو تلاش کرو جس نے ہیرا نگلا ہے* ۔ بھلا دونوں کام خاصے مشکل تھے مگر کرنے تو تھے ہی ۔ ایک بوڑھے نوکر نے امیر آدمی کو ترکیب دی کہ آج تک آپ نے انسانوں کی دعوت کبھی نہیں کی مگر ہیرے کے حصول کے لیے گودام میں تمام چوہوں کی دعوت کا انتظام کیا جاۓ تا کہ وہ تمام وہاں جمع ہوں اور اس دعوت میں وسیع لنگر کا انتظام ہو اور اتنا لنگر ہونا چاہیے کہ ہر چوہا سکون سے پیٹ بھر کر کھاٸے اور اتنا پیٹ بھر کھاۓ کہ وہاں سے حرکت کرنا ممکن نا ہو ۔ *امیر آدمی باوجود کہ کنجوس تھا پھر بھی بوڑھے نوکر کی یہ ترکیب ماننا پڑی اور چوہوں کی دعوت کا خرچہ اٹھانا پڑا ۔ اب تمام چوہے گودام میں جمع ہونے لگے اتنا زیادہ کھانا دیکھ کر خوش ہوۓ گودام میں ایک نیم چھتی پر امیر آدمی بیٹھا اس منظر کو دیکھ رہا تھا چوہے اس دعوت کا مزا اڑا رہے تھے ۔* اس دوران امیر آدمی نے نوکر سے کہا چوہوں کو جمع کرنے کی ترکیب تو درست ہے کامیاب ہے اس طرح چوہے تو جمع ہو گٸے ہیں مگر وہ چوہا کیسے تلاش کیا جاۓ گا جس نے میرا ہیرا نگلا ہے ۔ *بوڑھا نوکر مالک کو خاموش کرواتے ہوۓ چوہوں کو بغور دیکھ رہا تھا امیر آدمی نوکر کی اس حرکت کو حیرت سے دیکھ رہا تھا بھلا یہ کیسے جانے گا ۔* اتنے میں مالک نے چھلانگ لگاٸی اور ایک چوہے کو چوہے دان پھینک کر فورا سے پکڑ لیا اور مالک کو فخریہ انداز میں کہا لیجیے یہ وہ چوہا ہے جس نے ہمارے امیر مالک کو پریشان کر رکھا تھا ۔ مالک نے کہا تم کیسے یقین سے کہہ سکتے ہو کہ یہ وہی چوہا ہے تو *بوڑھے نے کہا حضور آپ کی خدمت کرتے کرتے سیکھ گیا ہوں کہ کم ظرف انسان جب امیر ہو جاۓ تو وہ متکبر ہو جاتا ہے اور خود کو دوسروں سے الگ شمار کرتا ہے اس چوہے کو ہی دیکھ لیجیے یہ جب سے ہیرا نگلا ہے الگ بیٹھا ہوا ہے اور تو اور اس نے کھانا بھی دستر خوان سے ہٹ کر الگ کھایا ہے اور اس کا انداز متکبرانہ ہو گیا ہے* ۔ مالک نوکر کی اس بات سے بہت شرمندہ ہوا اور سمجھ گیا یہ اس کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے ۔ یاد رکھیں کبریاٸی اللہ کو ہی زیب دیتی ہے بندگی نام ہے عاجزی کا ۔ *اللہ کو عاجزی بہت پسند ہے ۔ دنیا کی تاریخ فرعونوں نمردو اور شدادوں سے بھری پڑی ہے مگر سب کہاں ہیں ۔ منوں وزنی مٹی کے نیچے ۔ دولت امارت شہرت منصب آزماٸش کا نام ہیں ۔ ان سے سخت آزماٸش نہیں ۔* اللہ کسی کو دولت عطا کر کے آزماتا ہے کسی سے دولت لے کر امیر و فقیر بادشاہ و گدا سب اسی کی مخلوق ہیں ۔ جب دنیا فانی ہے اس کی نعمتیں فانی ہیں تو میاں غرور کس بات کا ۔ *کم ظرف انسان کو عزت راس نہیں آتی وہ اللہ کا نا شکرا ہو جاتا ہے ۔ اپنے متکبرانہ انداز کی وجہ سے وہ بہت سی براٸیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے* ۔ اوقات سے زیادہ ملی ہوئی عزت اور محبت کم ظرف کو راس نہیں آتی۔کم ظرف انسان کی مثال چھوٹے برتن کی سی ہے برتن چھوٹا ہو تو زیادہ چیز سنبھال نہیں سکتا، چھلک جاتا ہے چاہے علم ہو، دولت ہو، تقوی ہو، شہرت ہو، یا عزت ہو۔ *اسی لیے کہا جاتا ہے غرور ایک بیماری ہے جو کسی بھی کم ظرف کو لگ سکتی ہے۔ایک کم ظرف انسان اچھا وقت آنے پر جو چیز سب سے پہلے بھولتا ہے وہ ہے اس کی اوقات ۔* بہرحال کم ظرف انسان کی دوستی بھی نقصان دیتی ہے ۔ انسان اپنی اوقات میں رہے تو سب معاملات اچھے رہتے ہیں اچھے ایام میں شکر برے ایام میں صبر سے کام لیں اس طرح آپ خود بھی اور آپ سے دوسرے بھی اذیت سے محفوظ رہیں گے ۔ *کم ظرف انسان اپنی عزت خود کھو دیتا ہے لوگوں کی اس بارے راۓ ایسے ہی بدلتی ہے جیسے اس کا مزاج بدلتا ہے.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو