نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

The *essential* job of government is to *facilitate* , not *frustrate

*کیریئر* یا *اسٹینڈ* 

The *essential* job of government is to *facilitate* , not *frustrate* 

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب *ابرش نور* گلوبل ہینڈز 

 *کہا جاتا ہے جب ساٸیکل کا عروج ہوا اور ان دو پہیوں کو غریب کی مرسیڈیز کا درجہ ملا تو ہر شخص اس مرسیڈیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ۔ وقت کی بچت کے علاوہ اس کے فضاٸل میں سے ایک فضیلت انسان کو دبلا پتلا کرنا بھی بیان کیا جاتا تھا ۔ پرانے سناسی حکمیوں کی طرح اس کی عظیم مفید نفع بخش حکمت میں پٹھے مضبوط کرنا بھی شامل تھا ۔ سرکار نے اپنے ملازمین کی سہولت کے پیش نظر ایک سکیم نکالی کہ ایک خاص گریڈ تک کہ سرکاری ملازمین کو قسطوں میں ساٸیکل حاصل کرنے کی سہولت دی جاۓ گی* ۔اب ہوا یوں کہ دوسروں کے دیکھا دیکھی ایک مڈل کلاس کے سرکاری ملازم نے بھی بہت چاہت سے سائیکل خرید لی ۔ ویسے تو ساٸیکل بہت ہی خوبصورت تھی لیکن ایک بڑا اہم مسٸلہ تھا کہ اس کے پیچھے *کیریئر* نہیں تھا۔ اب یہ دیکھ کر اس نے اپنے بیٹے کو دوبارہ دکاندار کے پاس بھیجا کہ وہ اس کو کیریٸر لگا دے مگر جب سائیکل واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اب *کیریئر* تو ہے لیکن *اسٹینڈ* غائب ہے۔اسے اس بات پر بڑا سخت شدید غصہ آیا اسی غصے کے ساتھ اس نے خود ساٸیکل تھامی اور سیدھا دکاندار کے پاس جا پہنچا اور اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟

*اسٹینڈ* کیوں نکالا؟ 

دکاندار نے جواب دیا کہ صاحب جی! 

سرکاری نوکری میں ایک چیز مل سکتی ہے یا *کیریئر* یا *اسٹینڈ،* اگر *اسٹینڈ* لوگے تو *کیریئر* ختم اور اگر *کیریئر* بنانا ہے تو کبھی *اسٹینڈ* مت لینا۔ یہ دلچسپ لطیفہ ہماری نٸی نسل کے لیے مشعل راہ ہے جن کی آنکھیں بڑے خواب دیکھتی ہیں اور جن کے دل بڑی خواہشات سے بھرپور ہوتے ہیں قابلیت بھی ان کے ماتھے کا جھومر ہوتی ہے مگر معاشرہ اور اردگرد کی فضا انہیں سرکار کی نوکری کی طرف ماٸل کرتی ہے ۔ *پھر کیا ہوتا ہے بیٹھ کر کھانا روٹیاں پکی ہو جاتی ہیں ۔ ہمارے گورنمنٹ ادارے اور پراٸیویٹ اداروں کا موازنہ کریں تو آپ کو یہ جملہ سننے کو ملے گا کہ یار کام اتنا نہیں ہوتا ۔ نوکری محفوظ ہو جاتی ہے ۔ سرکاری چھٹیوں کا لطف اپنی جگہ ۔ سالانہ تنخواہ میں اضافہ بھی کنفرم ۔ کوٸی نکال بھی نہیں سکتا ۔جبکہ پراٸیویٹ میں نوکری محفوظ نہیں کام بھی دوگنا اور تنخواہ بھی زیادہ نہیں پینشن کی سہولت نہیں بڑھاپا مشکلات کا شکار چھٹیاں کم ۔* اس موازنے کے بعد پہلی بات تو یہ کنفرم کے ہمارا قابل سے قابل بچہ بھی سرکار کی گود میں بیٹھ کر آرام سے جینے کی خواہش کرے گا دوسری بات کام کرنے کا عادی بھی کام چور ہو جاۓ گا ۔ سر تبسم سب سرکاری ملازموں کو ایک تکڑی میں نہیں تول رہے بس ایک موازنہ بتا رہے ہیں ۔ *اب اگر کارکردگی کی بات کریں تو سرکاری ٹیچر بھی اپنے بچے کو پراٸیویٹ سکول کالج میں تعلیم دلواۓ گا ۔سرکاری آدمی بھی سرکاری ہسپتال سے علاج نہیں کرواۓ گا ۔ تھانہ کچہری عدالت کے حالات آپ کے سامنے ہیں بجلی سوٸی گیس پانی کے اداروں کا حال کیا بیان کیا جاۓ ۔ سرکار کی مجموعی کارکردگی سے آپ اور میں مطمٸن نہیں بے شک ہم خود بھی سرکار کے ملازم ہیں ۔* اس پر لطیفہ یہ کہ بچے پراٸیویٹ ادارے میں افسر بھی ہے تو اس پر سرکاری ادارے کے کلاس فور کے ملازم کو ترجیح دی جاۓ گی اور بروقت رشتوں کی لاٸن لگ جاۓ گی ۔ *المختصر ہمارا مجموعی چہرہ یہی ہے کہ اگر سکون سے جینا ہے مفت کی کھانی ہے تو سرکار کی بارگاہ میں پہنچ جاو ۔* ڈاکٹر کی مثال لو تو ہر عام اور خاص اتفاق کرے گا کہ *سرکاری ڈاکٹر* ایسےبات کرتا ہے جیسے زبان سے کانٹے لگے ہوں سرکاری نرس ایسے ٹیکہ لگاتی ہے جیسے بھینس کے بدن مبارک پر ٹیکہ ٹھوکا جاتا ہے اور برعکس پراٸیویٹ میں ڈاکٹر ایسے بات کرتا ہے *جیسے* *مریض* کو کہہ رہا ہو کہ حضور آپ نے ہسپتال آنے کی زحمت کی بتایا ہوتا میں خود حاضر ہو جاتا اور *نرس* ایسے بات کرتی جیسے لکھنوی لہجے میں فرما رہی ہو *عالیجاہ* آپ اجازت دیں تو آپ کے نرم و نازک مثل گلاب خوشبو دار بدن کے پہلو سے اوپر ذرا اوپر بازو شریف پر معمولی سے سرنج کے ساتھ انجکشن آپ کے خون میں مکس کر دیا جاۓ تا کہ آپ جلد از جلد صحت یاب ہو کر ہمیں مسکراتے ہوۓ نظر آٸیں اور *آپ مسکراٸیں گے تو پاکستان ترقی کرے گا ۔* *شکریہ ... ہمارے پیج کا لنک دستیاب ہے* ...https://www.facebook.com/Dr.M.AzamRazaTabassum/

ڈاکٹر صاحب کی *تحریریں .واٹس ایپ کے ذاتی نمبر پہ حاصل کرنے کے لیے* .ہمیں اپنا نام .شہر کا نام اور جاب لکھ کر اس نمبر پر میسج کریں . 03317640164. 

 *شکریہ .ٹیم نالج فارلرن.* 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو