نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*ہمیں عادت ہو چکی ہے ؟* We are *used* to being *oppressed* and *beaten

*ہمیں عادت ہو چکی ہے ؟* 

We are *used* to being *oppressed* and *beaten* .

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب *گلوبل ہینڈز* پاکستان

 *کہانی تو پرانے زمانے کی ہے مگر اس کا سبق ہر زمانے میں نیا ہے اگر کوٸی سمجھنے والا سمجھے ۔ خیر ہوا یوں کہ جب انسان نے ترقی کرنا شروع کی تو سمندر میں بہنے والا ایک بڑا جہاز تیار کر لیا ۔* اس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ ایک ہی وقت میں بہت سارا سامان اور لوگ لے جاۓ جا سکتے تھے ۔ بحری جہاز مسافر لیے سمندر سے گزر رہا تھا کہ کپتان اور دیگر عملے کو طوفان کے آثار محسوس ہوۓ ۔بحری جہاز کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کے لیے انہوں نے قریب ہی ایک جزیرے پر جہاز کو روک لیا ۔ *طوفان سے تو بچت ہو گٸی مگر بحری جہاز پر ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار ہو گیا* ۔ رات ہوتے ہی وہ جہاز پر سوار کسی انسان کا خون پیتا اور یوں اپنی پیاس بجھاتا۔ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمند میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا۔ لوگ فوراً لائف بوٹس کی طرف بھاگے۔۔ *یہ ڈریکولا بھی ایک آدمی کی مدد سے ایک لائف بوٹ پر سوار ہو گیا* ۔۔اب قسمت کی خرابی یہ کہ اس کی لائف بوٹ پر صرف ایک ہی شخص تھا اور یہ وہی شخص تھا جس نے اسے بچایا اور بوٹ یا کشتی میں آنے میں مدد کی ۔ *اب رات ہوئی توڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس ہوئی۔* ڈریکولا نے کہا یہ بےشرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں۔ اس نیک بندے نے ہی تو مجھے ڈوبنے سے بچایا ہے۔میں کس طرح احسان فراموشی کروں؟

ایک دن دو دن تیں دن وہ اسی دلیل سے خود کو روکتا رہا۔ *بلاخر ایک دن دلیل پر فطرت غالب آ گئی۔اس کے نفس نے اسے دلیل دی کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب محسن نیند میں ہو گا* تاکہ اس کی صحت پر کوئی فرق بھی نہ پڑے اور میری پیاس بھی تنگ نہ کرے۔یہ سوچ کر روزانہ اس نے دو دو گھونٹ خون پینا شروع کر دیا۔ ایک دن اس کا ضمیر پھر جاگا اور اس پر ملامت کرنے لگا کہ تو اس شخص کا خون پی رہا ہے جو تیرا دوست ہے۔ *جس نے نہ صرف تجھے بچایا بلکہ جو مچھلی پکڑتا ہے اور اوس یعنی شبنم کا پانی جمع کرتا ہے اس میں سے تجھے حصہ بھی دیتا ہے۔* یقیناً یہ بے شرمی کی انتہا ہے۔ اس بے شرمی کی زندگی سے تو موت اچھی۔ *ڈریکولا نے فیصلہ کیا کہ اب میں کبھی اپنے محسن کا خون نہیں پیوں گا ۔* ایک رات گزری، دوسری رات گزری ، تیسری رات ڈریکولا کا محسن بے چینی سے اٹھا اور بولا تم خون کیوں نہیں پیتے۔ *ڈریکولا حیرت سے بولا* کہ تمھیں کیسے پتہ چلا کہ میں ڈریکولا ہوں اور تمھارا خون پیتا تھا۔محسن بولا کہ جس دن میں نے تمھیں بچایا تھا۔اس دن تمھارے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کر کے میں سمجھ گیا تھا کہ تم انسان نہیں ہو۔ڈریکولا ندامت سے بولا۔دوست میں شرمندہ ہوں جو میں نے کیا لیکں اب میرا وعدہ ہے۔ *میں مر جاؤں گا لیکن تمھیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔محسن بولا کیوں مجھ سے دشمنی کا اظہار کر رہے ہو۔* پہلے پہل جب تم خون پیتے تھے تو مجھے تکلیف ہوتی تھی لیکن میں چپ رہتا کہ کہیں تمھیں پتہ نہ چل جائے اور میں مارا جاوں لیکن اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے اور پچھلے تیں دن سے عجیب بے چینی ہے اب اگر تم نے خون نہ پیا تو میں مر جاوں گا۔ *کتنی حیرت کی بات ہے نا بحیثیت قوم ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے، ہم اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے خون پینے والوں کو منتخب کرتے ہیں اور پھر اپنا خون پلا پلا کر انہیں پالتے ہیں* ، تاکہ اگلی دفعہ بھی انہیں خون پینے والوں کو منتخب کر سکیں ، کیونکہ ہمیں بھی اپنا خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے ، *خون نہ پلائیں گے تو ہم بھی مر جائیں گے۔ ہمارے پھول سے بچے ہماری محنت کے مویشی ہمارے خون پسینے سے لگاۓ کھیت ہمارے دن رات ایک کر کے بناۓ کاروبار کوٸی سیلاب کی نذر ہوتے ہیں کوٸی بھوک افلاس بیماری کی نذر ہو جاتے ہیں* کہیں دوا موجود نہیں *کہیں* انصاف موجود *نہیں* کہیں غیرت موجود نہیں *کہیں* مجرم بادشاہ ہے *کہیں* چور حکمران ہے کہیں جھوٹا اسلامی ٹچ دیتا ہے *کہیں* خواتین کو نچایا جاتا ہے *کہیں* ہسپتال میں علاج نہیں *کہیں* سفارش ہے *کہیں* موروثی سیاست ہے کہیں نفرت بانٹی جا رہی *کہیں* غربت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو *کہیں* راتوں رات انقلاب لانے کے خواب دکھاۓ جا رہے ہیں *کہیں* ریاست کو دھمکی دی جارہی ہے تو *کہیں* ریاستی اداروں پر جملے کسے جاتے ہیں میرا آپ کا پاکستان تباہ کیا جا رہا ہے مجھے آپ کو لوٹا جا رہا ہے مگر مان جاٸیں ہم عادی ہو چکے ہیں ہمارا خون نا چوسا جاۓ تو ہم مر جاٸیں گے حقوق لینے نہیں آتے حق کے لیے آواز بلند نہیں کرتے ۔ اندر بے بے ایمان ہو چکے ہیں ۔ *ہم سب نے اپنے دلوں میں چھوٹے چھوٹے چور پال رکھے ہیں اگر نیک ہونے کی کوشش کی تو یہ چور مر جاٸیں گے ہمیں عزت نفس سے زیادہ یہ بت عزیز ہیں جن پر ہم دودھ کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں ان کے بغیر ہمارا جینا مشکل ہے* ۔ موجودہ سیلاب ڈیموں کا نا بننا بستیوں دیہاتوں کا اجڑ جانا یہ سب کس کا نتیجہ ہے یہ سب ہمارے سوۓ ہوۓ ضمیروں کا نتیجہ ہے ۔ *خدا را روٹی کپڑا مکان کی لالچ سے نکلیں اور صرف پاکستان سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاٸیں اپنے حق کے لیے آواز اٹھاٸیں ۔* کسی جلے جلوس ریلی کا حصہ بننے سے بہتر ہے اتنے پٹرول کی قیمت اپنے کسی ضرورت مند بھاٸی کو ہدیہ کر دیں ۔ اقتدار کی ہوس رکھنے والوں کے لیے اپنا وقت اپنے تعلقات اپنے رشتے اپنی روزی روٹی برباد مت کریں ۔ *اگر اب ہوش کے ناخن نا لیے تو ہم مقروض ہوتے جاٸیں گے عیاشی کرنے والے عیاشی کر کے امریکہ یورپ انگلینڈ بھاگ جاٸیں گے* ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو