نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

افسانہ *باپو کاکا* افسانہ نِگار : طاہر انجم صدیقی ( مالیگاؤں)

افسانہ 


                     *باپو کاکا*


افسانہ نِگار : طاہر انجم صدیقی ( مالیگاؤں) 

    

 ساٹھ پینسٹھ برس کے باپو کاکا میں نام کے علاوہ اور کو ئی عجیب بات نہیں تھی ۔ ’’باپو کاکا‘‘ نام ہی کہاں تھا؟ دو رشتوں کی پہچان تھا ۔ ویسے ان کا اصل نام رام داس تھا مگر ’’اہنسا پارک ‘‘میں رکھوالے کی حیثیت سے تقرری کے بعد وہاں تفریح کے لئے آنے والوں نے انہیں ’’باپو کاکا‘‘بنا دیا تھا ۔

لوگ پارک میں لگے مہاتما گاندھی کے قد آدم مجسمے کو دیکھتے اور پھر انہیں دیکھ کر کہہ اٹھتے ۔’’ارے باپو ۔۔۔۔۔ارے کاکا۔۔۔۔۔تم تو باکل باپو گا ندھی جیسے لگتے ہو ۔۔۔۔۔بالکل باپو لگتے ہو کاکا ۔۔۔۔باپو کاکا۔۔۔‘‘

جب وہ پارک میں آئے تھے تو کرتا پاجامہ پہنے تھے لیکن گاندھی جی کے چاہنے والوں نے انہیں دھوتیاں لا کر دیں اور پہنے پر مجبور کیا ۔ خود کے تئیں لوگوں کے پیار کو دیکھ کر باپوکاکا نے کرتا پاجامہ ترک کر دیا اور بخوشی دھوتی پہننے لگے ۔

دس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ اسلم نام کے ایک نوجوان نے ہی انہیں سب سے پہلے باپو گاندھی کے ہم شکل ہونے کا احساس دلا کر ایک گول فریم کی بغیر نمبر کی عینک انہیں پہننے کو دی تھی کیو نکہ بڑھاپے کے باوجود بھی ان کی بینائی کمزور نہیں ہوئی تھی. دوسرے روز اس کے دوست ارون نے ایک لاٹھی لا کر دی تھی ۔۔۔اور پھر ان دونوں نے مل کر ایک دھوتی بھی خرید کر انہیں دی تھی ۔ ان دوستوں کی تقلید میں دیگر اور بہت سے لوگوں نے بھی انہیں دھوتیاں لا کر دی تھیں ۔ اس طرح ان کے پاس اچھی خاصی تعداد میں دھوتیاں جمع ہو گئیں ۔ تب ہی تو وہ روزانہ صبح اشنان کے بعد دھوتیاں تبدیل کیا کرتے تھے لیکن ۔۔۔اس صبح انہوں نے اشنان نہیں کیا اور نہ ہی دھوتی تبدیل کی۔  

اس روز جب باپو کاکا کی آنکھ کھلی تو صبح کے دھندلکے مشرقی افق پر سنہری تھال چھوڑ کر جا چکے تھے ۔ پارک کی دس سالہ دیکھ ریکھ کے دوران پہلی مرتبہ ان کی آ نکھ اتنی دیر سے کھلی تھی ۔ ورنہ صبح صادق سے پہلے ہی اپنا پیوند زدہ بستر چھوڑ دینا ان کا معمول تھا ۔ وہ موسم کی شدت سے بے پرواہ اپنا بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ۔۔۔دھوتی ٹھیک کرتے ۔۔۔دھوتی کے پلے کو اپنے بائیں کندھے پر ڈالتے ۔۔۔دائیں طرف اڑسا ہوا بٹوا درست کرتے ۔۔۔۔۔سر ہانے لاٹھی او ر عینک کے پاس رکھی ہوئی پیتل کی بالٹی اٹھا کر اپنی جھونپڑی کا دروازہ کھولتے ۔۔۔۔اور سامنے دیکھتے ۔۔۔باہر تھوڑی ہی دوری پر دو فٹ اونچے چبوترے پر کھڑے مہاتما گاندھی کے قدِآدم مجسمے پر ان کی نظریں جاٹھہرتیں ۔۔۔پوسٹ لیمپ کی روشنی میں ماہر مجسمہ ساز کے ہاتھوں قائم کی گئی ابدی مسکراہٹ گاندھی جی کے ہونٹوں پر پھیلی صاف دکھائی دیتی ۔۔۔۔انہیں محسوس ہوتا کہ مجسمے کے ساتھ ہی کوئی ان کے اندر بھی مسکرا رہا ہے ۔۔۔اس کے ہونٹوں پر گاندھی جی کی ابدی مسکراہٹ ہے ۔۔۔وہ دھیرے دھیرے پھیل رہی ہے ۔۔۔۔اور پھیلتے پھیلتے خود ان کے ہونٹوں تک آ گئی ہے ۔۔۔۔باپو کاکا خود بھی مسکرانے لگتے ۔۔۔ان ہونٹوں پر وہی ابدی مسکراہٹ پھیل جاتی مگر اپنی مسکرا ہٹ سے لا علم باپو کاکا اطراف کا جائزہ لیتے ۔۔۔انہیں پارک کی ہر شئے مسکراتی دکھائی دیتی ۔۔۔۔بیل بوٹے ۔۔۔۔درخت ۔۔۔پودے ۔۔۔۔جھاڑجھنکاڑ ۔ دیواریں ۔۔۔زمین اور آسمان۔۔۔ سبھی مسکراتے محسوس ہوتے۔

 اس مسکراتی فضا میں باپو کاکا اپنے ہاتھ میں بالٹی لئے سیدھے پارک کی بورنگ پر چلے جاتے ۔۔۔۔وہاں تین چار بالٹی پانی سے اشنان کرتے ۔۔واپس اپنی جھونپڑی میں جا کر دھوتی تبدیل کرتے ۔۔۔۔اتاری ہوئی گیلی دھوتی باہر لا کر دیوار کے قریب پڑے پتھر پر رکھتے اور پاس ہی نیم کیے درخت کے نیچے آلتی پالتی مار کر پرایا نام کا آسن جما لیتے ۔۔۔ان کا رخ مہا تما گاندھی کے مجسمے کی طرف ہوتا ۔۔۔۔اس دوران ان کی زبان سے گاندھی جی کے بول الفاظ کی صورت میں نکلتے اور سوئی ہوئی چڑیوں کو جگاتے رہتے ۔۔۔ 

 ’’ایشور اللہ تیرو نام ۔۔۔۔۔ایشور اللہ تیرو نام ۔۔۔۔‘‘ 

اس بول کی تکرار کو سن کر بیدار ہونے والی چڑیاں جب دوسری خوابیدہ چڑیوں کو جگانا شروع کرتیں تو نیم کے درخت کے نیچے بیٹھے باپو کاکا اپنی آنکھیں موند لیتے ۔۔اور منہ ہی منہ میں کچھ بدبدانے لگتے اس دوران کبھی کبھی کوئل کی کوک اور کوؤں کی کائیں کائیں بھی ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکراتی رہتیں ۔۔۔تھوڑی دیر بعد جب چڑیوں کا خوشگوار شور اپنے شباب پر جا پہنچتا تو سورج چپکے چپکے مشرقی کنارے سے سر اٹھاتا ۔۔۔۔اور دھیرے دھیرے اوپر سرکنے لگتا ۔۔۔جیسے جیسے اجالا پھیلتا چڑیوں کا شور اس میں تحلیل ہوتا جاتا ۔۔۔جب سورج کی نرم گرم شعاعیں با پو کاکا تک پہنچیں تو وہ اپنی آنکھیں کھولتے ۔۔۔ان کی نظریں آہستہ آہستہ اوپر اٹھتیں اور گاندھی جی کے مجسمے پر سے رینگتی ہوئی ان کے چہرے پر جا ٹھہرتی ۔۔۔۔پھر وہاں سے پھسلتی ہوئی مجسمے کے پیروں تک چلی جاتیں۔۔۔۔وہ اٹھتے اور آگے بڑھ کر گاندھی جی کے پیروں کے پاس کی گرد اُٹھا کرآشیر واد کے طور پر بڑے احترام سے اپنے ماتھے پر لگا لیتے اور سیدھے اپنی جھونپڑی میں چلے جاتے.  

اندر جاکر اپنا بستر ایک کنارے رکھتے ۔۔۔۔عینک اپنی آنکھوں پر لگاتے ۔۔۔۔اور لاٹھی اٹھا کر جھونپڑی کے دروازے سے باہر نکلتے ۔۔۔۔پتھر پر رکھی گیلی دھوتی اٹھاتے ۔۔۔دوبارہ بورنگ پر جاتے ۔۔۔دھوتی کو اچھی طرح دھوتے اور سوکھنے کے لئے پھیلا کر پارک کی صاف صفائی میں جٹ جاتے ۔۔۔۔

لیکن اس روز جب ان کی آنکھ کھلی تو سورج طلوع ہو چکا تھا. چڑیوں کا خوشگوار شور کمزور پڑ چکا تھا اور ان کو محسوس ہورہا تھا کہ وہ بھی چڑیوں کے شور ہی کی طرح کمزور ہو چکے ہیں ۔ ان کی آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہو ئے تھے ۔۔۔آنکھوں کی سفیدی میں نظر آنے والے لال ڈورے صاف ظاہر کر رہے تھے کہ ان کی نیند پوری نہیں ہوئی ہے ۔۔۔اور واقعی اخیر شب تک انہیں نیند نہیں آئی ہے۔۔۔۔وہ جاگ کر کر وٹیں بدلتے رہے تھے ۔۔۔بے چین رہے تھے ۔۔۔۔انہیں رہ رہ کر احساس ہو رہا تھا کہ ان کے چاروں طرف آ گ ہی آگ ہے ۔۔۔۔آگ میں بہت سارے لوگ جل رہے ہیں۔۔۔چیخ رہے ہیں ۔۔۔وہ آگ دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے ۔۔۔انہیں بھی جلا رہی ہے ۔۔۔ان کی جھونپڑی ۔۔۔۔۔پورا پارک ۔۔۔خود گاندھی جی بھی اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔۔۔۔باپو کاکا گاندھی جی کو بچانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔گاندھی جی کی طرف بڑھتے ہیں ۔۔مگر گاندھی جی غائب ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔انہیں چبوترہ خالی دکھائی دیتا ہے ۔۔۔جس کے اطراف آگ ہی آگ ہے ۔۔۔۔پورے پارک میں آگ ہے ۔۔۔پارک کے باہر جہاں بھی ان کی نظر جاتی ۔۔۔۔۔آگ ہی آگ نظر آ تی ہے اور دور دور تک گاندھی جی انہیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔۔۔۔انہی احساسات میں کروٹیں بدلتے ہوئے ان کی رات گذری تھی ۔۔۔۔

وہ اپنے آپ کو بہت سمجھاتے رہے ۔۔۔دلاسے دیتے رہے ۔۔۔مگر ان کا دل نہ جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا کہ سمجھتا ہی نہیں تھا اور اسے جتنا بھی سمجھتاتے اتنا ہی الجھتا چلا جاتا ۔۔اور الجھتا بھی کیوں نہیں کہ شہر میں برپا ہونے والا فساد اُن کی آنکھوں کے سامنے ہی تو پھوٹا تھا۔ پارک میں اسلم اور ارون کے درمیان کوئی سخت قسم کی بحث جاری تھی باپو کاکا ان دونوں کی زور دار بحث سن ہی رہے تھے کہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے ۔۔۔۔باپو کاکا انہیں آوازیں دیتے دیتے لپکے مگر ان کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی لوگوں نے دونوں کو الگ کر دیا ۔۔۔اور پھر نہ جانے کیا ہوا کہ انہیں الگ کرنے والے لوگ ہی آپس میں الجھ گئے ۔۔۔ہاتھا پائی کا زور چلا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہندو مسلم فساد کی شکل اختیار کر گیا ۔

  پارک سے پھوٹنے والے فساد نے درجنوں لاشیں گرا کر ۔۔۔پچاسوں کو زخمی کرکے۔۔۔ سینکڑوں مقامات نذر آتش کرکے پو رے شہر کو آگ اور دھوئیں میں لپیٹ کر رکھ دیا تھا ۔۔۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کا اور مسلمانوں نے ہندوؤں کا دل کھول کر جانی و مالی نقصان کر نا جاری رکھا تھا لیکن حساس باپو کاکا بے چینی سے کروٹیں بدل بدل کر رات کے آخر پہر تک جاگ کر بس ذرا ہی دیر سو کر اٹھے تو سورج طلوع ہو چکا تھا ۔انہوں نے اپنی سوجی ہوئی آنکھوں کے پپوٹے دو ایک بار کھول بند کئے اور آہستگی سے اٹھ بیٹھے ۔۔۔ایک سرد آہ بھری اور بالٹی اٹھائے بغیر ہی بڑی نقاہت کے ساتھ جھونپڑی کے دروازے تک آئے۔۔۔دروازہ کھول کر باہر دیکھا اور چونک پڑے کیونکہ سامنے چبوترہ خالی پڑا تھا اور مہاتما گاندھی کا مجسمہ غائب تھا ۔۔۔وہ جلدی جلدی پارک کے گیٹ پر لگے پبلک ٹیلی فون کی طرف لپکے ۔ 

اپنی دھوتی میں اڑسائے بٹوئے سے ایک سکہ نکال کر ریسیوراٹھایا ۔سکہ سوراخ میں ڈالا۔۔۔پولس اسٹیشن کا نمبر ڈائل کیا اور جلدی جلدی مہاتما گاندھی کے مجسمے کے غائب ہونے کی رپورٹ دے کر گیٹ پر ہی پولس کا انتظار کرنے لگے ۔ 

پارک کے چاروں طرف دور نزدیک جگہ جگہ سے دھوئیں کے کالے کالے بادل اوپر اٹھتے صاف دکھائی دے رہے تھے ۔ ان پر افسوس کرتے ہوئے بس تھوڑے ہی دیر گزری تھی کہ کرفیو کی قائم کردہ خاموش فضا میں پولس جیپ کی آواز ابھر کر ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی ۔انہوں نے پارک کا گیٹ کھول دیا ۔ جیپ سیدھے پارک میں داخل ہوئی ۔ اس کا انجن خاموش ہو آ اور ایک انسپکٹر کے ساتھ ہی کئی کانسٹیبل نیچے اتر کر ان کی طرف لپکے ۔انسپکٹر نے باپو کاکا کو غور سے دیکھ کر پوچھا ۔

  ’’کون سا پتلا غائب ہوا ہے ؟۔۔۔۔۔‘‘

’’گا ندھی جی کا ساب ۔۔۔۔۔وہ اس چبوترے پر کا."   

باپو کاکا نے خالی چبوترے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ 

’’ابے بڈھے! یہاں شہر کی کنڈیشن خراب ہے اور تجھے مذاق سوجھا ہے۔۔۔۔وہ چبوترے پر تیرا باپ کھڑا ہے کیا ؟ ۔۔۔"

انسپکٹر نے گاندھی کے مجسمے کو دیکھ کر کہا

"کہاں ساب؟ وہ تو خالی ہے"

 انہوں نے حیرت سے چبوترے کو دیکھا. 

’’ابے اندھے ۔۔۔۔مذاق کرتا سالے بڈھے ۔۔۔۔‘‘ 

اتنا کہہ کر انسپکٹر نے ایک زور دار لات باپو کاکا کو دے ماری۔۔۔۔وہ چاروں خانے چت زمین پر گر گئے ۔۔۔۔مگر ان کے گرتے ہی چبوترے کی طرف سے کسی بھاری بھرکم چیز کے گرنے کی آواز پر انسپکٹر نے سر گھما کر دیکھا ۔۔۔۔چبوترے کے نیچے مہاتما گاندھی کا مجسمہ چاروں خانے چت پڑا تھا۔ 


   ختم شُد...

********************************************* 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو