نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*القرآنُ دَستورُنا:رجوع الی القرآن

*القرآنُ دَستورُنا:رجوع الی القرآن* 


*عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری*

9224599910


قرآن مجید کی تلاوت پر جہاں ایک ایک حرف کے پڑھنے پر نیکیاں ملتی ہیں، وہیں اس کو سمجھنے سے ہدایت نصیب ہوتی ہے۔اس کا تقاضا ہے کہ لوگ اس کا مطالعہ کریں، سمجھیں اس میں غور وتدبر کریں۔ یہ قرآن الله کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ *"میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، توجو لوگ اس ہدایت کی پیروی کریں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا"*(البقرہ:38)


*اور ہم نے قرآن کو آسان بنا یا نصیحت کے لیے، تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا*( القمر :27)


 برکت والی یہ کتاب قرآن مجید سمجھنے ،غور کرنےاور نصیحت حاصل کرنے اور ہدایت پانے کے لیے ہے۔قرآن ہی الله کی مضبوط رسی ہے جس کے ذریعہ ہم اّخروی کامیابی کے ساتھ ملّت میں اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں ۔

ہم رضاءے الہی کی خاطر اپنی اصلاح، اور فریضہ دعوت کی طرف رجوع ہوں یہی رجوع الی القرآن کا مقصد ہے ۔اس کی دعوت کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ زندگی کو قرآنی سانچے میں ڈھال دیا جائے اور روز مرّہ کی زندگی کے مسائل کو قرآن مجید کی روشنی میں حل کیا جائے۔ قرآن مجید بلاشبہ زندہ وجاوید کتاب ہے اور ہر زمانے کے مسائل کے سلسلے میں بنیادی راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔قرآن کی تعلیمات کی دعوت دینا بظاہر آسان کام ہے مگر قرآن کو زندگی میں اتارنا مشکل کام ہے لیکن جو شخص الله سے ڈرتا ہے وہ اس نصیحت کو قبول کرلے گا۔جو گریز کعے گا بڑا بدبخت ہوگا۔

قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس سے ہدایت پانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم ایک ایک آیت کو اپنے متعلق سمجھیں، ہر آیت کا مخاطب اپنی ذات کو بنائیں ۔دوسروں پر منطبق کرکے سکون محسوس کرنے کی عادت چھوڑ دیں۔یہ زبردست نادانی، افلاس فکراور بےبصیرتی اور اپنے نفس پر ظلم ہے کہ ہم قرآن کے بڑے حصّہ کو دوسروں پر منطبق کرکے خود کو اس فیض ہدایت سے محروم کرلیں ۔سوال یہ ہے کہ قرآن کا ایک بہت بڑا حصہ مشرکین، منافقین، یہود ونصاریٰ کے لیے ہے تو پھر ہمارا تذکرہ کہاں ہے؟

۔اس طرح کا جائزہ لینا ہر شخص کو اپنے بارے میں احتساب کاموقع فراہم کرے گا ۔جس کا لازمی نتیجہ اس کے اخلاق و کردار کو سنوارنے میں مدد گار ہوگا ۔


*اور یاد دہانی کرتے رہو بے شک یاد دہانی کرنا مومنین کو نفع بخشتا ہے*۔( الذاریات:55)


*خدائے رحمن نے قرآن کا علم عطا کیا*۔(الرحمن:2)


 سوال یہ ہے کہ 

کیاہمارے گھروں میں تلاوت قرآن مجید اور اس کے درس کا سلسلہ جاری ہے؟ ۔ 

ہمارے روز مرہ مشاغل میں جہاں بہت سے کام ہیں، بس فرصت نہیں ہے تو قرآن مجید کے تر جمہ کو پڑھنے کی؟ 

کیا قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ضروری نہیں؟ پھر اس سے غفلت کیسی؟؟ 

کیا قرآن صرف علماء کے سمجھنے کے لیے ہے؟؟ 

کیا غیر مسلموں کو مترجم قرآن دینا جائز نہیں؟

ایسے بہت سارے سوالات ہیں جس کی ضرورت نے قرآن کو مرکزیت دینے کی بجائے ملت نےاسے ایک متبرک کتاب بنادیا جو جزدان میں لپٹی طاقوں میں سجی ہر گھر میں بلیات سے حفاظت کے لیے بطور تبرک موجود رہتی ہے۔اس کے احترام میں اس کو پردے میں ملفوف رکھا جاتا تھا ۔اسے دستور زندگی بنانے کی بجائے بس بغیر سمجھے تلاوت کے دور تک محدود کر لیا گیا ہے۔


قرآن میں ہو غوطہ زن اے نرد مسلماں


الله عطا کرے تجھے جدت کردار


اب امت نے اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کی تلاوت، ناظرہ سے آگے بڑ ھ کر اسے تدبّر، تفّکر، تذکّر، تفہیم، دعوت، عمل ،غور وفکر کے ساتھ ساتھ اس کو بہت ساری زبانوں میں مترجم کیا ہے ۔درس قرآن کے حلقے، اجتماعی مطالعہ قرآن کی محفلیں، دعوت القرآن کے سینٹرز، فہم قرآن کی مجلسیں، تعلیم القرآن کی کلاسیں، التبّیان مراکز، چالیس چھوٹی قرآنی منتخبہ سورتوں کا نصاب، قرآن صحت اورمخارج سے پڑھنے کے گروپ، قرآنی عربی ورڈ ٹو ورڈ آن لائن تربیت، عربی گرامر ورک شاپ، لغت القران فورم ،رجوع الی القرآن سینٹر قائم ہونے لگے ہیں۔ اب بہت سی مساجد میں قرآنی دروس کی کوشش بھی ہونے لگی ہے۔


تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب


گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف


 جماعت اسلامی ہند کی ملک گیر، رجوع الی القران کی دس روزہ مہم (16تا24اکتوبر 22)کا مقصد بھی یہی ہے کہ ساری ملّت قرآن مجید سے جڑ جائے،اپنے تعلق کو الله سے مضبوط کریں۔قرآن کی طرف متوجہ ہوں۔اپنے مسائل کاحل اس کے احکامات وتعلیمات میں تلاش کریں۔اس کی دعوت کو بند گان خدا تک عام کریں۔اس کی تعلیمات پر عمل کریں اور اس کے پیغام کو پھیلائیں ۔


علم وعمل کا رستہ یارب ہمیں دکھا دے


جس سے ملے سعادت اس راہ پر چلادے


وہ علم دےہوجس سے دانش کا نور دل میں 


پروردگار دیکھیں تیرا ظہور دل میں 


عبدالعظیم رحمانی ملکاپور

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو