نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الطاف جمیل شاہ. جینا اسی کا نام ہے باتیں ہیں باتوں کا کیا

 جینا اسی کا نام ہے

Jeena isi ka nam hy

باتیں ہیں باتوں کا کیا 

Baten hain batoon ka kya

 بازار میں اک شخص آج ملا باتوں باتوں میں کہا بہت دنوں بعد آج مسکرایا ہوں کیوں کہ مسکرانا اب آتا ہی نہیں 

میں نے کہا

مطلب آپ انا ضد کے شکار ہوکر اکیلے جینے کے طالب ہیں 

کہا نہیں تو 

پھر مسکراہٹ کہاں گئی ۔باتیں جاری تھیں کہ جناب کی آنکھیں بھیگ گئیں اور ہلکی ہلکی ہچکیاں بلند ہونا شروع ہوئی 

تھوڑا ایک طرف ہٹ کر میں نے پوچھا تو وہی معاملہ جو ہم سب کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے 


گھر جاتا ہوں تو بیوی ہمیشہ غصے میں ہوتی ہے بچے پاس نہیں بیٹھتے سب اپنے اپنے خیالوں میں گم گھر میں بہت خوف آتا ہے کہ جینے کا مزہ پھیکا پڑا ہے اب باہر نکلیں تو انسان تو ہیں پر کیا کیجئے کوئی بھی ہمارا نہیں سب اپنی پی دھن میں چلے جارہے ہیں 

خیر 

یہ ہم سب کی وہ کہانی ہے جس سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا 

کیوں 

کیوں کہ ہم ہمیشہ اپنے لئے وہ سب چاہتے ہیں جو دوسروں کو دینے کے لیے ہماری جان نکلتی ہے 

چلتے ہوئے کبھی آپ کسی اپنے سے یا غیر سے دو پل کے لئے ہی صحیح مسکرا کر ملتے ہیں کیا کبھی اپنی اہلیہ کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں تمناؤں کو پورا کرنے کے لئے تھوڑی سے تیزی دیکھائی ہے کیا بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کبھی بچے آپ بنے ہیں تاکہ بچے آپ کہ موجودگی میں ہنسی خوشی سے کھیل کود سکیں 

نہیں 

مطلب یہ جو آپ ہم اپنی ناک کی نوک کی سیدھ میں نظریں جھکائے خراماں خراماں چلے جارہے ہیں انانیت اسی کا نام ہے کہ آپ کو ہر کوئی سلام کرے آپ سے حیاء کرے آپ کے سامنے اونچی آواز میں نہ بولے آپ کے احترام میں خاموش رہے آپ کی خوشی کے لئے آپ کی مرضی کے تابع رہے تو سنو

کیسے جیتے ہیں آپ یہ بلا کون سا جینا ہوا 

کہ 

آپ کے بچے آپ کو دیکھتے ہی دبک جاتے ہیں ڈر خوف کے مارے بھاگ جاتے ہیں آپ کی اہلیہ آپ کی گھر آمد پر بجائے خوشی کے غصے کے سبب کہتی ہے مصیبت آگئی آپ کے ہمسائے آپ کو دیکھ کر راستہ بدلتے ہیں 

محفل میں آپ کے ہم جولی آپ کی موجودگی کے سبب اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں 

یار یہ تو جینے کا نام نہیں ہے جیو تو ایسے 

کہ آپ دوسروں کے لئے خوشی و شادمانی کا ذریعہ ہوں آپ کی موجودگی باعث خوشی ہو دوسروں کا خیال رکھیں یہیں سے تعظیم و تکریم کا طریقہ اپنائیں 

اہلیہ خانہ سے ہنسی مذاق کے مواقع تلاش کریں 

سنو

اگر تم صرف خود کو لئے جیتے رہے

تو یاد رکھنا اکیلے پڑ جاؤ گئے پھر انا تمہاری چور چور ہوجائے گئی اور تمہاری دنیا خاموشی سسکیاں آہیں ہچکیاں سے وابستہ ہوکر تمہارے لئے عذاب بن جائے گی اور تم ہوکر خود کے ہونے کے لئے آمادہ نہیں کر پاؤ گئے خود کو 

خوب جیو دوسروں کے لئے تاکہ تمہارا جینا تمہارے لئے خوش کن احساس بن جائے اور ہر جانب صرف خوشیوں اور مسکراہٹ کی آوازیں بلند ہوں خاموش سسکیاں آہیں دب جائیں ایسے مسکرائے تو آپ 

اب جوں ہی میں گھر پہنچا تو جناب کا فون آیا مسکراتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آج میں نے پہلی بار اپنی اہلیہ کو گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کیا جواب میں اس نے مسکرا کر کہا لگتا ہے انسانوں سے مل کر آئے ہو 

جواب میں میں نے کہا نہیں زندگی سے مل کر آیا ہوں

تو اہلیہ نے چائے سامنے رکھ دی میں نے کہا سنو

جینا ایسے فضول ہے

تم ایک ہی بار دو کپ لے آؤ 

وہ بھوت کی طرح دیکھتی رہی اور دوسرے کپ میں چائے انڈیل کر لائی 

میں نے کپ اٹھایا اور اسے بیٹھنے کا کہہ کر اسے چائے کی پیالی تھما دی 

 وہ پگلی آج پتہ نہیں کیوں روئی 

جب میں نے کہا بہت تھک جاتی ہو تم کبھی اپنے لئے بھی جیا کرو نا 


میں نے مسکرا کر کہا سنو جینا اسی کا نام ہے 

کہ وہ تھک ہار کر آپ کے سامنے جی بھر کر آنسو بہا تو سکتی ہے نا 

بس 

اب دیکھے زندگی کی خوشیاں دستک دے کر ہی رہی گئیں آپ کے در پر 

فی امان اللہ 

الطاف جمیل شاہ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو