نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اُردو کی تہذیبی روایتوں کا امین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلم چشتی

اُردو کی تہذیبی روایتوں کا امین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلم چشتی

اُردو دنیا میں اسی کی دہائی کے بعد جن لوگوں نے فنّی خوبیوں کے ساتھ شاعری و نثر نگاری کے میدان میں اپنی تخلیق سے اہل فن کو متوجہ کیا ہے اس میں اسلم چشتی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اسلم چشتی موجودہ وقت میں مہا راشٹر کے تاریخی شہر پونہ میں مقیم ہیں مگر ان کی ولادت تعلیم و تربیت اس سرزمین میں ہوئی ہےجہاں کی ذرخیز مٹی سے ابر احسنی گُنّوری ، رمز آفاقی ،ڈاکٹر اسلم حنیف ،ڈاکٹر الیاس نوید ، شمس رمزی ،انتظار حسین ،دعا ڈبائیوی،ندا فاضلی ، اُمیّد فاضلی ،کنول ڈبائیوی، ،پروفیسر ابنِ کنول وغیر ہ کا تعلق ہے۔اسلم چشتی کی سرشت میں سلسلہ چشت کا منبع عشق شامل ہے ۔محبتوں پر قربان ہونے والے اس شخص کی مَحبّت کو آپ کوئی بھی عنوان دے سکتے ہیں۔

اسلم چشتی پیشہ کے لحاظ سے تاجر ہیں مگر انہوں نے اپنی تحریروں کو بازارِ ادب کا حصّہ نہیں بنایا بلکہ بازارِ ادب کے جو قلندر اُردو کی جڑوں کو چوہے کے نکیلے دانتوں سے کترنے کا کام کررہے ہیں اس کی سرزنش بھی کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کا ادبی اسٹیج سے بائیکاٹ بھی کرتے ہیں۔وہ ادب برائے تعمیر کے قائل ہیں اور ہمہ وقت اسی فکر میں کمر بستہ رہتے ہیں کہ اردو زبان ،شعر وادبب کی آبیاری عملی طور پرکی جائے اور آئندہ نسلوں کو ایسا ادب پیش کیا جائے جس پر وہ فخر کر سکیں ۔ان کی تصنیف (سر حدپار کی توانا آوازیں) اسی سلسلہ کی مضبوط کڑی ہے ۔

اسلم چشتی کی کتاب( سرحد پار کی توانا آوازیں) میں کتابوں کی روشنی میں تجزیئے ،تبصرے اور جائزے کو شامل کیاگیا ہے۔ ۱۹۷ صفحات پر مشتمل کتاب میں اُردو کے انتالیس ادیبوں و شاعروں کی کتابوں پر تجزیئے ،تبصرے و جائزے کو شامل کیاگیا ہے جن کا وطن گرچہ ہند وپاک ضرور ہے مگر وہ لوگ کئی دہاہیوں سے اردو کی نئی بستیوں میں اردو زبان و شعر و ادب کی آبیاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ کتا ب میں ندیم ماہر کے فن کی مہارت ہی نہیں بلکہ اُردو تہذیب کی( دستکوں کے نشان) بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کتاب میں جہاں ڈاکٹر افروز عالم کی (فصلِ تازہ )کی جلوہ گری ہے وہیں عباس تابش کے( سلسلہ دلداری) کی تابناکی بھی موجود ہے۔ انہوں نے احمد اشفاق کے شعری مجموعہ( دسترس) اور باقی احمد پوری کی غزلیہ شاعری کا جس طرح سے وسیع سیاق و سباق میں جائزہ لیا ہے اس سے اردو ادب پر ان کے عمیق مطالعہ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ان کا قاری زبیر فاروق کی کتاب( سر دموسم کی دھوپ )کے سحر سے باہر بھی نہیں نکلتا ہے کہ اس کا سامنا میمونہ علی چوگلے کی( متاعِ فکر)سے ہوتا ہے اور وہ علیم خان فلکی کے ظرافتی فن کا مطالعہ کرتا ہوا اسلام عظمی کے تازہ ہوا کے جھونکوں سے شرابور ہوکرخالد سجّاد کی فکری کائنات کے دریا میں غوطہ زن ہوکر ایم زیڈ کنول کی کائنات کو اپنی مٹھی میں کرتاہوا وادیء سُخن سے شاداں و فرحاں گزر جاتا ہے ۔کتاب کے مطالعہ سے اسلم چشتی کاقاری فوزیہ مغل کے( بھرم )میں کہیں بھرم کا شکار ہوتا ہے تو کہیں فرزانہ سحاب ( کاش )کی حسرت میں نم دیدہ بھی ہوتا ہے۔وہ ثمینہ گل کی محبت پر آنکھ بھی رکھتا ہے اور عیسٰی بلوچ کے خوشبوؤں کے سفر پر ہم راہی بھی بن جاتا ہے۔

اسلم چشتی ان فنکاروں میں ہیں جو آگ میں پھول کھلانے کا ہنر جانتے ہیں۔وہ اردو شاعری میں روایتوں کے پاسدار ہیں مگر انہیں نئی رت کے سفر سے گریز بھی نہیں ہے۔وہ تکلم کے گونگے گھر کو اظہار کی روشنی عطا کرکے محبت کی دنیا کو اجالنا چاہتے ہیں۔اُردو کے نئے منظر نامے میں انہیں غم کا سورج نڈھال نہیں کرتا ہے بلکہ اپنے جوش جنون سے اردو کی بقا کی تحریک کو وہ اور تیز تر کرتے ہیں تاکہ اُردو کا کارواں ان کی دسترس سے باہر نہ جا سکے ۔

اسلم چشتی نے (سرحد پار کی توانا آواز یں )میں اُردو کے ان قلمکاروں پر اپنی تحریر رقم کی ہے جو میدان شاعری و نثرنگاری کے ثابت قدم مسافر ہیں۔ان کے یہاں محبت وہم نہیں بلکہ یقین کی منزل ہے اور جو لوگ اردو کو لیکر مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ حکومتوں کی عدم توجہی سے اردو پر پیمبری کا وقت ضرور ہے لیکن اگر اہل اُردو اپنی چاہت کی صداؤں کے ساتھ اپنے عملی اقدام کو تیز ترکردیں تو سنگلاخ زمین میں اُردو کی محبت کے رنگ کو نئے انداز نئے آداب کے ساتھ نمایاں کیا جا سکتا ہے ۔

اسلم چشتی کی کتاب کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے اُردو زبان و ادب کا مطالعہ گروہ بندی کے رتھ پر سوار ہوکر نہیں کیا ہے بلکہ ان کے پیش نظر جتنی بھی کتابیں آئی ہیں ان سب کا انہوں نے باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد اپنی آرا ءکو رقم کیاہے۔کتاب میں انہوں نے اردو کی نئی بستیاں جس میں کنیڈا،انگلینڈ،فرانس،دبئی،سعودی عرب،کویت،دوحہ قطر میں رہنے والے شہرت سے بے نیاز لوگوں کی ادبی نگارشات کا فن کی کسوٹی پر جس طرح سے جائزہ لیا ہے وہ اپنے آپ میں اہمیت کا حامل ہے ۔ کتاب میں صرف اردو کی نئی بستیوں کاہی انہوں نے جائزہ نہیں لیا ہے بلکہ اردو کی نئی بستیوں کے ساتھ ہندو پاک کے مستند شاعروں کا بھی فن کی کسوٹی پر جس دلچسپ پیرائے میں جائزہ لیا گیا ہے اس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلم چشتی کی شاعری کے فن پر دسترس بہت گہری ہے ۔یہ کتاب اُردو کی نئی بستیوں کے حوالے سے اُردو قارئین کے مطالعہ میں نہ صرف اضافہ کا سبب بنے گی بلکہ اہلِ فن اب اُردو کی نئی بستیوں کی شعری و نثری اصناف کا جائزہ سرسری طور پر نہیں لے سکیں گے ۔ اہل نظر اُردو کی نئی بستوں کی ادبی نگارشات کا جب بھی مطالعہ کرینگے تو یہ کتاب انہیں ٹھہر کر مطالعہ کرنے پر مجبور کرے گی ۔

ڈاکٹر مہتاب عالم 

پرنسپل کریسپا نڈنٹ ،

نیوزایٹین اردو ،بھوپال ،انڈیا 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو