نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

★درسِ قرآن ★ اور جب موسیٰ آیا کہ ھمارے مقررہ وقت میں حاضری دے اور

★درسِ قرآن ★ 

 اور جب موسیٰ آیا کہ ھمارے مقررہ وقت میں حاضری دے اور اس کے پروردگار نے اس سے کلام کیا تو ( جوشِ طلب میں بے اختیار ھو کر) پکار اٹھا: خدایا! مجھے اپنا جمال دکھا کہ تیری طرف نگاہ کر سکوں ـ حکم ھوا: تو مجھے کبھی نہ دیکھ سکے گا، مگر ہاں! اس پہاڑ کی طرف دیکھ ـ اگر یہ ( تجلئ حق کی تاب لے آیا اور) اپنی جگہ ٹکا رھا تو (سمجھ لیجیو تجھے بھی میرے نظارے کی تاب ھے اور) تو مجھے دیکھ سکے گا ـ پھر جب اس کے پروردگار ( کی قدرت) نمود کی تو پہاڑ ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ غش کھا کے گر پڑا ـ جب موسیٰ ھوش میں آیا تو بولا: خدایا! تیری ذات پاک اور مقدس ھے ـ میں ( اپنی جسارت سے) تیرے حضور توبہ کرتا ھوں ـ میں یقین کرنے والوں میں پہلا شخص ھوں ـ ( سورہ الاعراف ـ ۱۴۲-۱۴۳)  

........................................................................... 

اس اصل عظیم کا اعلان کہ انسان اپنے حواس کے ذریعے ذاتِ باری کا مشاھدہ و ادراک نہیں کر سکتا اور اس راہ میں معرفت کا منتٰہی مرتبہ یہ ھے کہ عجزونارسائی کا اعتراف کیا جائے ـ 

یہودیوں نے تورات کے متشابھات کو حقیقت پر محمول کرلیا تھا اور سمجھتے تھے حضرت موسیٰ نے خدا کی شبیہ دیکھی ـ قرآن نے یہاں اس غلطی کا ازالہ کر دیا ـ فرمایا " جب خدا نے موسیٰ سے کلام کیا تو اس نے کہا: میرے سامنے آجا کہ ایک نگاہ دیکھ لوں. " یعنی جب غیب سے نداۂ حق سنی تو جوشِ طلب میں بے خود ھو گئے اور لذتِ سماع کی محویت میں لذتِ مشاھدہ کے حصول کا ولولہ پیدا ھو گیا: حکم ھوا " پہاڑ کو دیکھ ـ اگر یہ تاب لا سکا تو تو بھی تاب لا سکے گا ـ " یعنی جو بات نظارے سے مانع ھے وہ خود تیری ھی ھستی کا عجز ھے، یہ بات نہیں کہ نمود حق میں کمی ھو ـ (مولانا ابوالکلام آزاد ـ ترجمان القرآن ـ جلد سوم ـ صفحہ ـ ۹۵-۹۷)  

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period