نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

★ درسِ قرآن ★ مولانا ابوالکلام آزاد ـ ترجمان القرآن ـ جلد سوم ـ صفحہ ـ ۸۸-۸۹)

★ درسِ قرآن ★ 

اور جب ان پر عذاب کی سختی پڑی تو کہنے لگے: اے موسیٰ! تیرے پروردگار نے تجھ سے( نبوت کا) جو عہد کیا ھے تو اس کی بناء پر ھمارے لیے دعا کر. اگر تیری دعا سے عذاب ٹل گیا تو ضرور ھم تیرے معتقد ھو جائیں گے اور بنی اسرائیل کو چھوڑ دیں گے کہ تیرے ساتھ چلے جائیں ـ لیکن پھر جب ایسا ھوا کہ ھم نے ایک خاص وقت تک کے لیے کہ (اپنی سرکشیوں اور بدعملوں سے) انھیں اس تک پہنچنا تھا، عذاب ٹال دیا تو دیکھو! اچانک وہ اپنی بات سے پھر گئے ـ (سورہ الاعراف ۱۳۴-۱۳۵) 

..................................................................  

ان ایات میں فرمایا " ایک خاص وقت تک کے لیے کہ انھیں اس تک پہنچنا تھا " یعنی ایک آنے والا وقت تھا جس کی طرف وہ اپنے اعمال کے ذریعے بڑھ رھے تھے اور بالآخر پہنچنے والے تھے ـ 

یہ آنے والا وقت کونسا تھا؟ ان کے ظلم و فساد کا آخری نتیجہ کہ خدا کے قانون جزا نے اس طرح کے نتیجہ کے لیے جتنی مقدار فساد عمل کی ٹھیرا دی ھے جب وہ مہیا ھو گئی تو نتیجہ ظہور میں آگیا اور فرعون اور اس کا لشکر ھلاک ھو گیا ـ 

یہی ظہور نتائیج کا وقت ھے جسے قرآن نے امتوں کی "اجل" سے تعبیر کیا ھے چنانچہ اسی سورت کی آیت ۳۴ میں اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے ـ 

اس سے معلوم ہوا ھر جماعت اپنے اعمال کے ذریعے ایک خاص نتیجے تک پہنچتی رہتی ھے جو اس کی مقررہ اجل ھے ـ اگر اعمال نیک ھوتے ہیں تو یہ اجل فلاح کی ھوتی ھے، برے ھوتے ھیں تو ھلاکت کی ھوتی ھے ـ 

فرعون کی ھلاکت اور بنی اسرائیل کی وراست: قانونِ الہیٰ یہ ھے کہ ظالم قومیں جن مظلوم قوموں کو حقیر و کمزور سمجھتی ھیں ایک وقت آتا ھے کہ وھی شاھی و جہاں داری کی وارث ھو جاتی ھیں ـ 

مولانا ابوالکلام آزاد ـ ترجمان القرآن ـ جلد سوم ـ صفحہ ـ ۸۸-۸۹) 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور