نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

 وھاٹس ایپ گروپ: دیـــــارمیــــــــر


سلسلہ : گـــــــرہ لـــــــگائیں



تاریخ : 25.10.2022


مصرع نمبر : 198


میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا


پورا شعر :


گلہ نہ کر مری رفتار کا یہ بوجھ بھی دیکھ

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(اقبال انجم)


گـــــــرہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔


عزیز تر مجھے منزل سے ہمسفر ہیں مرے

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(احمد کمال حشمی)


اسی سے جان لے ! کتنا وفا شعار ہوں میں

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(احمد مشرف خاور)


مرے خلوص و وفا نے رکھا مجھے پیچھے

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(مقصود عالم رفعت)


عجیب کیا ہے کہ رستہ بدل بھی سکتا تھا

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(اشرف یعقوبی) 


مرا مزاج, مری سوچ, میرا ذوق بھی دیکھ

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتــا تھا

(مشتاق انجم)


مرا مزاج ہے جاوید رہ روی کا مزاج 

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا 

(جاوید مجیدی)


میں اتحاد کا قائل ہوں اسلئے شعلہ

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(حسام الدین شعلہ) 


وہ خود بڑھے نہ مجھے راستہ دیا ، سو اب

میں سب کے ساتھ ہوں ، آگے نکل بھی سکتا تھا

(شاداب انجم) 


مرے مزاج میں تنہا سفر نہیں شامل

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(اشفاق اسانغنی)


مرا مزاج کہ میں سب کا پاس رکھتا ہوں

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(سید اسلم صدا آمری)


 مجھے ہی سونپی گئی رہبری سو مجبوراً

میں سب کے ساتھ ہوں، آگے نکل بھی سکتا تھا

(منظر عالم)


مجھے یہ  ڈر ہے نہ رہ جائیں پیچھے اپنے  مرے

میں سب کےساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

( م ، سرور پنڈولوی )


نبھانا فرض تھا مجھ پر اصولِ ہم سفری 

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا 

(حشمت علی حشمت)


 جو میرے ساتھ ہیں،  چلتے ہیں سانس لے لیکر

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا 

(سہیل اقبال )


نہ پیش رفت کی چلنے میں تیز گام کبھی

میں سب کے ساتھ ہوں، آگے نکل بھی سکتا تھا

(غیاث انور شہودی)


مرے خلوص پہ کیچڑ اچھالنے والے

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(شمشاد علی منظری)


مرا  نہیں ہے یہ شیوہ بھلے خسارہ ہو

میں سب کے ساتھ ہوں  آگے نکل بھی سکتا تھا  

(ناصرمعین) 


میں تیز گام ہوں منزل شناس بھی ہوں مگر

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(فیض احمد شعلہ)


محبتوں کا سفر ہے تو پھر محبت سے 

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(نثاردیناج پوری) 


اگر نہ ہوتا مجھے نظمِ کاروں کا خیال

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(شہباز مظلوم پردیسی) 


میں کب کا راستہ اپنا بدل بھی سکتا تھا

میں سب کے ساتھ ہوں آگے نکل بھی سکتا تھا

(اصغر شمیم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتخــــاب : احمد کمال حشمی ( احمد کمال حشمی)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو