نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

✍️ کشکول مسافر ✍️

✍️ کشکول مسافر ✍️


1.ایک لمحہ بھی فضول ضائع نہ کیا جائے، زندگی بہت مختصر ہے.پتہ نہیں کب موت کابلاوا آپہنچے اور ہم قبر میں پہنچ جائیں. کتنے ہی صبح بیدار ہوتے ہیں تو کیا کیا آرزوئیں اپنے دل میں لئے ہوتے ہیں پر اسی دن کا سورج غروب ہونے سے پہلے انکی زندگی کا سورج غروب ہوجاتا ہے. اپنے آخرت کے لئے کچھ کر گزریں، اصل زندگی بس وہی ہے. عقلمند ہے وہ جو اسکی تیاری اور فکر میں لگا رہے.


2.نظام الاوقات بنا لیاجائے ، ہر وقت کا کام مقرر کر لیوے کہ کس وقت کیا کرنا ہے اس سے اوقات میں بہت برکت ہوتی ہے. ہر کام آسانی سے انجام پاجاتے ہیں ورنہ تو کام میں بدنظمی سے بے برکتی رہتی ہے. بہت سارے کام ادھورے رہ جاتے ہیں اور کام صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوتا 


3.الاهم فالاهم کا اصول اپنایاجائے . کام تو زندگی میں بہت ہوتے ہیں. لیکن دیکھے کہ وقت کے تقاضے کے حساب سے اور دینی و دنیوی فائدے کے پیش نظر کونسا کام بہتر اور مفید ہے اسی کو اختیار کرے .مثلا ایک کام کی فی الفور ضرورت ہے اور ایک ہے کہ اس میں تاخیر کی گنجائش ہے. تو تاخیر والا کام مؤخر کردے چاہے وہ اپنی من پسند والا کام ہو.


4.زندگی میں ہر کام میں اسی کے ماہرین سے جو خیر خواہ ہو مشورہ لیتے رہیں. جو اچھے اور خیر خواہانہ مشورے دیوے اسی سے مشورہ لیوے ، رائ لیوے. ہر کس و نا کس کو اپنی پرسنل زندگی کی باتیں شیئر کرنے سے احتیاط کریں. کتنے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جو خیرخواہی کی صورت میں گرانے کی فکر کرینگے. اور کتنے ایسے بھی ہونگے جو مشورے کے بہانے آپکے سب راز سے واقف ہوجائینگے اور اپنا کام نکالینگے ، اپنا مفاد پورا کرینگے. کبھی کبھی تو آپ کو راستے سے ہٹاکر خود وہ چیز حاصل کر لینگے ، اس چیز پر قبضہ کرلینگے اور آپ کو بھنک تب لگیگی جب معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہوگا. زندگی کے ہر کام کا مشورہ ایک ہی شخص سے لینا بہت مضر ثابت ہوتا ہے. غلط مشورہ دینگے. صحیح رہنمائ نہیں ملیگی. اسی لئے دانا کا قول ہے ہر چیز کا مشورہ اسی فن کے جان کار سے حاصل کیا جائے.


5.جب آنکھ بند ہوگی اور حقیقی سفر شروع ہوگا، اس سفر آخرت میں کوئ ساتھ نہیں ہوگا ...بس اکیلے ہی سفر کرنا ہوگا. جو ہمارے ساتھ زندگی میں پورا پورا دن ساتھ ساتھ رہتے تھے وہ بھی کچھ دن یاد کرکے بھول جائینگے .پھر تو ایسے بھول جائینگے کہ انہیں بھول سے بھی ایک نیکی کا ایصال ثواب کرنے کی فکر نہ ہوگی. جسے خوش کرنے کے لئے مجلسیں لگاتے تھے خوش گپیوں میں منہمک رہتے تھے وہ سب اپنی اپنی دھن میں ہونگے اور آپ پر جو قبر (برزخ) میں گزر رہا ہوگا وہ آپ ہی محسوس کر رہے ہونگے .دنیا کا عارضی سفر سے مکمل تیاری کر لی جاتی ہے. اور یہ تو ایسا سفر ہے کہ اس سے ہر کو دوچار ہوناہے پھر بھی اس کے بارے میں بہت غفلت برتی جاتی ہے .بلکہ بعضے کی زبان پر آتا ہے. ''دیکھ لینگے ،دیکھا جائےگا "" اللہ تعالی ہمیں اپنی مرضیات والی زندگی گزارنے کی توفیق عطافرماوے .. 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو