نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

★ خواہ مخواہ ★( طنزومزاح) * دلہن بدل گئی * قسط ـ ۳

★ خواہ مخواہ ★( طنزومزاح)  

* دلہن بدل گئی * قسط ـ ۳ 

اتنا کہنا تھا کہ دولھا زور سے چلایا، " دلہن بدل گئی) ))))! دولھے کی چیخ تھی یا بجلی کی کڑک ـ منڈپ میں سب کو جھٹکا سا لگا ـ ماحول میں زلزلہ سا آ گیا ـ کوئی احتجاج کرنے لگا تو کوئی صفائی پیش کرنے لگا ـ کسی نے آستین چڑھایا تو کسی نے پلّو پسارا ـ کوئی ٹھکائی کی بات کرنے لگا تو کوئی منانے کا جاپ جپنے لگا ـ ایک نے سر کا سہرا اتار کر پھینکا تو دوسرے نے سر کی پگڑی پاؤں میں رکھ دی ـ شادی کا منڈپ پہلوانی کا اکھاڑہ بن گیا ـ دو گروپ بن گئے اور دو طرح کی باتیں کرنے لگے ـ ایک تیسرا گروپ بھی بن گیا تھا جو بی جمالو کا کام کررہا تھا ـ بُھس میں آگ لگا کر اور اوپر سے تیل بھی ڈال دُور کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا ـ بھڑکتی آگ میں اپنے ہاتھ ہی نہیں دل بھی سینک رہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ کلیجے میں ٹھنڈ پے گئی ـ لیکن ایک چوتھا گروپ ایسا بھی تھا جو بیچ بچاؤ کا کام کررہا تھا ـ اس نے سمدھیوں اور سمدھنوں کو الگ لے جاکر سمجھانے کا کام کیا ـ دھرم،سماج،ذات پات، گاؤں گوتر کی دہائی دی ـ گرم ماحول سے نکل کر کھلی ہوا میں جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو دولھے کو بلایا گیا ـ سمجھایا گیا ـ منایا گیا ـ اس کے من میں سداچار اور سُوچار ڈالا گیا ـ کسی نے ہلکے سے کاندھا دبایا تو کسی نے چپکے سے انگلی مروڑی ـ تب جاکر دولھے کی سمجھ میں بات آئی ـ ادھر دونوں گھرانوں کے رشتہ داروں اور مہمانوں نے حق جتانے اور فرض نبھانے کی غرض سے منڈپ کے اکھاڑے میں لڑجھگڑ کر اور بات بتنگڑ کر کے تھک ہارے تو آکر پوچھنے لگے، " بولو کیا طئے ہوا؟ " تب یہ بات سامنے آئی کہ دولھے والے اس شرط پر راضی ہوئے کہ دلہن والے دولھے کو ایک آنکھ والی کی جگہ دو آنکھ والی گاڑی تحفے میں دیں گے ـ 

خوشخبری سن کر سب نے چھٹکارے کا سانس لیا ـ جان چھوٹی اور بھوک اُٹّھی ـ نورا کشتی لڑلڑ کر سب کے پیٹ میں چوہے لڑنا شروع ہو گئے تھے ـ سب کی بس ایک ہی آواز تھی ـ " شادی کا کھانا پروسا جائے ـ " اور پھر سب کھانے پر ٹوٹ پڑے ـ سب نے پیٹ بھربھر کے کھایا ـ پیٹ بھر گیا اور سب مسئلے کو بھول گئے ـ دلہن کی بدائی ہوئی ـ بیٹی پرائی ہوئی ـ کسی کی لُگائی ہوئی ـ جب سسرال میں منہ دکھائی ہوئی تو اپنوں میں جگ ہنسائی ہوئی ـ گھروالوں کی طرف سے یہ کہہ کر شادمانی ہوئی کہ جوڑے تو آسمان میں بنتے ہیں ـ بے جوڑ سے بے جوڑ پہیے بھی گھر سنسار کی گاڑی میں جڑ جاتے ہیں ـ سو یہ دو پہیے بھی جس کا ایک رُخ دائیں طرف اور ایک رُخ بائیں طرف ہے جڑ گیا اور گاڑی نکل پڑی ـ تو آپ بھی رُکے کیوں ہیں؟ شادی کا کھانا کھایا، ٹھنڈا پیا، پان چبایا ـ اب بدھائی دو، دعائیں دو اور چلتے بنو ـ ـ( ختم شد) ـ از ملا بدیع الزماں (طنزومزاح نگار) کتاب ـ " خواہ مخواہ " 

........................................................................ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور