نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اُس دیس میں کیا ہوتا ہے اور اِس دیس میں کیا ہوتا ہے

اُس دیس میں کیا ہوتا ہے اور اِس دیس میں کیا ہوتا ہے

ایک بادشاہ تَفْرِیحِ طَبَع کی غرض سے سیر سپاٹا کر نے نکلا۔ وہ ایک ایسی مملکت میں پہنچ گیا جہاں لوگ پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ بادشاہ کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ملک کا نظام حکومت دیکھنے کی غرض سے اس نے عدالتی نظام دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اسے ایک عدالت میں لے جایا گیا منصف وہاں بیکار بیٹھا تھا۔کوئی مقدمہ عدالت میں نہیں تھا۔ جج نے بتایا کہ اگر کوئی سائل عدالت سے رجوع کرئے تو اسےفوراً انصاف فراہم کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی مقدمہ براۓ حصول انصاف اس وقت نہیں ہے۔

اتنے میں ایک مدعی اور مدعاعلیہ عدالت میں پیش ہوۓ۔ جج صاحب نے دونوں کو احترام اور تعظیم کے ساتھ بٹھایا اور عدالت میں آنے کی وجہ دریافت کی۔

مدعی مقدمہ نے بتایا کہ اس نے مدعا علیہ سے اپنا چالیس ہزار قرض واپس لینا تھا۔

مدعا علیہ نے اسے نقد رقم دینے کی بجاۓ چالیس ہزار مالیتی والا بانڈ دے دیا۔

قرعہ اندازی میں وہ بانڈ اوّل انعام کا حقدار ٹھرا۔

چونکہ میرا قرض چالیس ہزار تھا اس لیئے انعام کی رقم کا حقدار مدعا علیہ ہے۔

مگر وہ یہ رقم نہیں لے رہا۔ مدعا علیہ کہنے لگا کہ میں نے بانڈ مدعی کے حوالے کر دیا تھا

اس لیئے انعام کا حقدار بھی مدعی ہی ہے۔

عدالت نے فیصلہ سنایا کہ رقم کا حقدار مدعی ہے

لیکن عدالت مدعا علیہ کی بلند ظرفی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے

لہذا عدالت حکم دیتی ہے کہ انعام کی رقم کے برابر حکومت مدعاعلیہ کو خزانہ سرکار سے

رقم ادا کرے۔ تاکہ عوام میں جائز اور ناجائز کے شعور کو فروغ حاصل ہو۔

رات کو دعوت طعام پر بادشاہ مملکت نے مہمان بادشاہ کی پریشانی بھانپ کر وجہ دریافت کی تو مہمان بادشاہ نےعدالتی فیصلہ سے آ گاہ کیا۔ بادشاہ نے مہمان بادشاہ سے سوال کیا کہ اگر آپکی مملکت میں ایسا مقدمہ دائر ہوتا تو آپکی عدالت کیا فیصلہ کرتی

مہمان بادشاہ نے بتایا کہ ایسی صورت میں منصف سب سے پہلے عدالتی کاروائی مکمل کرتا جس میں لگ بھگ دو سال کا عرصہ درکار ہوتا۔ فیصلہ کے لیئے ایک لمبی تاریخ دی جاتی۔ پھر تاریخ پہ تاریخ۔ تاریخ پہ تاریخ ۔


اس دوران چونکہ معاملہ ایک خطیر انعامی رقم کا تھا منصف حاکم اعلی سے جو عوام

کا خادم اعلی بھی ہوتا ہے سے مشورہ کرتا ۔ یقینی طور پر چونکہ معاملہ بڑی رقم کا تھا وہ

عدالت کو ہدایت کر تا۔ کہ مدعی کو انعامی بانڈ کی بجاۓ دوسرا بانڈ دے دیا جاۓ تاکہ وجہ تنازعہ

ختم ہو۔ اور عدالت کو تاکید کی جاتی کہ انعامی بانڈ اس کے حوالہ کیا جاۓ۔


اب باری بادشاہ مملکت کے حیران ہونے کی تھی۔ اس نے سوال کیا کہ منصف

حاکم اعلی کے فیصلہ کو مان لیتے ہیں تو مہمان بادشاہ نے جواب دیا کہ ہم

بڑی چھان بین کے بعد منصف تعینات کر تے ہیں ۔ اگر ہمیں رتی برابر بھی شک گزر

جاۓ کہ منصف کے عہدے کا امیدوار خود سر ہے تو اسے انٹرویو میں فارغ کر دیا جاتا ہے۔

ہمارا نظام اس سلسلہ میں مکمل طور پر فُول پروف ہے۔

مہمان بادشاہ نے مزید بتایا کہ ہمارے ایک سابقہ بادشاہ نے تخت نشین ہو نے پر ان وکلا کو جنہوں نے

اس کے تخت نشین ہونے کی خوشی میں رقص کیا تھا منصف کے عہدے سے نوازا تھا۔

اس کے بعد جب ان کی بیٹی تخت نشین ہوئی تو اس نے اپنے گماشتہ وکیلوں کو بڑی عدالت کے عہدہ سے نوازا تھا۔

دونوں کو عوام کےایک طفیلی طبقہ نے شہید کا لقب عطا کیا۔ بلکہ ان کے خاندان کے ایک فرزند

کو جو مملکت فرانس میں مقیم تھے اور کثرت شراب نوشی کی وجہ سے وفات پا گئے تھے

کو بھی شہید کا درجہ عطا فرمایا۔ ایک اور فرزند جو انکی اپنی بہن کے دور حکومت بر لب سڑک قتل ہوۓ بھی شہید کا لقب عطا کیاگیا۔


بادشاہ نے مزید سوال کیا کہ آپکے ملک میں جانور بھی ہیں ۔ بارش بھی ہوتی ہے۔ مثبت جواب پر بادشاہ نے انتہائی غمزدہ لہجے میں کہا۔ کہ یہ سب ان جانوروں کی وجہ سے ہے۔ ورنہ ایسی سلطنت کو تباہ ہو جانا چاہۓ تھا۔

اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی

جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی

 

مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو


سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی


یہ بات نئی نسل کو سمجھانا پڑے گی


کہ عریاں کبھی بھی ثقافت نہیں ہوتی


سر آنکھوں پر ہم اسکو بٹھالیتے ہیں اکثر


جسکے کسی وعدے میں صداقت نہیں ہوتی


ہر شخص اپنے سر پر کفن باندھ کر نکلے


حق کےلیے لڑنا تو کبھی بغاوت نہیں ہوتی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو