نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فیس بک سٹیٹس (Facebook Status)


محمد سلیم سالک 


(پیش نوشت:اگر کسی صاحب کو یہ تحریر پڑھ کر کوفت محسوس ہو تو وہ ضرور اپنا فیس بک سٹیٹس چیک کریں ،کیونکہ بلڈ پریشر چیک کرنے کے بعد ہی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کو نمک کی مقدار میں کمی وبیشی کرنی چاہئے کہ نہیں ) 


          جب کوئی خدا کا بندہ فیس بک کے چوراہے پر اپنے ذہنی فتور کا اعلانیہ ثبوت دینے کے لئے اپنا فیس بک سٹیٹس اپ لوڈ کرتا ہے تواس کی حالت دردزہ میں مبتلا عورت سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے ۔ادھر کوئی چیز اپ لوڈ کی ،تو فیس بک سے لمحہ بھر کی جدائی بھی برداشت نہیں ہوتی ۔موصوف کی انگلیاں خود بخود سمارٹ فون کے بٹن کی تلاش میں نکلتی ہیں اور تان سیدھے فیس بک وال پر ہی ٹوٹتی ہے ۔اس طرح شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے سٹیٹس کے بارے میں ڈارون تھیوری کی تقلید کرتے ہوئے بندروں کی طرح اٹھک بیٹھک کرتے ہوئے likes or commentsکی تفصیل چیک کرتا رہتا ہے ۔پہلے پہل اپنے خرافات بھرے سٹیٹس کو ٹکر ٹکر دیکھتا ہے کہ کون کون میرے سٹیٹس کو لائک یا کومنٹ کرتاہے جیسے آج یہ معلوم کرنے کی ٹھان لی ہوکہ کون میرا دوست ہے یا دشمن۔کسی نے خوب کہا ہے کہ فیس بک سٹیٹس چڑھانے کے بعد انسان کے اندر نوزائد بچہ جنم لیتا ہے جس کا ڈائپر باربار دیکھا جاتا ہے کہ بچے نے پوٹی تونہیں کی ہے ۔

 اب اگر کسی نے دوستی نبھانے کے لئے لائک کیا تو اس کا شکریہ ادا کرناضروری ہے ،ورنہ کفران نعمت کا مسئلہ درپیش ہوگا۔اب اگر خداناخواستہ کسی نے مجبوری میں عمدہ ،بہتر ،زبردست وغیرہ وغیرہ کا کمنٹ کرکے اپنا دامن چھڑالیا ،تو موصوف کی خوشی میں باچھیں کھل جاتی ہیں اور وہ ایک دو لفظی Adjectivesکے لئے پورے خاندا ن کی طرف سے اظہار تشکر کرتا ہے ۔اب اگر کسی نے سٹیٹس پڑھ کر بھی گھاس نہیں ڈالی تو موصوف ٹیگ کا سہار ا لیتا ہے تاکہ سند رہے کہ کوئی یہ نہ کہیں کہ ہمیں خبر بھی نہ ہوئی ۔ جب یہ حربہ بھی کارآمدنہیں ہوتا تو Mentionکرنے میں بھی نہیں ہچکچاتا ۔اگر یہ نسخہ بھی کارگر نہیں ہوا تو Massangerیا واٹس ایپ پر اطلاع دینا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے ۔شاید اس سے کام بن جائے ۔

 موصوف یہ سارے حربے اس لئے آزماتا ہے کہ اس کا 56انچ کا سینہ اور 72انچ کاکنیہ پھول جائے اور فیس بک کے شائقین پر ایک قسم کارعب بیٹھ جائے کہ میرے کسی بھی لایعنی سٹیٹس پر fans کی ایک لامحدودتعدادقربان ہوجاتی ہے ۔اب اگراتنی تگ ودو کے بعدبھی کسی رشتہ داریا شناساکا کمنٹ نظر نہ آئے تو فوراً فون کرکے اس کوجاہل ہونے کا فتو یٰ دیتے ہیں ساتھ ہی اپنی غلطی کاکفارہ اداکرنے کی سبیل بھی بتائی جاتی ہے ۔اس طرح وہ شخص بھی ،جو دنیا ومافیہا سے دور رہ کر فیس بک کا نظارہ کرتا تھا،پکڑ میں آجاتا ہے اور نادانستہ اس کی انگلیاں ”عمدہ “کمنٹ لکھنے کے لئے تیار بہ تیار ملتی ہیں اور ہونٹوں پر ”جان بچی لاکھوں پائے “ کا وظیفہ ورد ہوتا ہے ۔

 موصوف کے تذبذب کا پارہ اس و قت چڑھ جاتا ہے جب وہ اپنے سٹیٹس کی آوارہ گردی کرتے ہوئے انگریزی کا یہ جملہ Some one is writting a comment " " دیکھتا ہے تو اس کی دل کی دھڑکیں تیز ہوجاتی ہیں اور انتظارکاایک ایک لمحہ صدیوں پر پھیل جاتا ہے ۔

 اگر ممکن ہوسکے تو نام نہاد سے سٹیٹس کو شیئر بھی کرواتا ہے تاکہ اس کی جہالت کا ڈھنکا دوردور تک بج سکے ۔اور بزعم خود وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس نے فیس بک پر سٹیٹس چڑھا کر فیس بک کی تاریخ کو سنہرے حروف سے مزین کردیا ہے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

salimsalik2012@gmail.com 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور