نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بارش کے موسم میں خوراک

 

بارش کے موسم میں خوراک

 

موسم قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ بارش کی پہلی ہی بارش ذہن کو خوش کر دیتی ہے۔ لیکن اس موسم میں خوراک پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تب ہی یہ محفوظ رہ سکتا ہے، ورنہ بیمار پڑنے میں دیر نہیں لگتی۔

 


1۔ برسات کے موسم میں وہ غذائیں کھائیں جو ہاضمہ جوس پیدا کرتی ہیں اور جلد ہضم ہوتی ہیں۔ ان کھانوں کو ترجیح دی جائے جن میں پانی کی مقدار کم ہو۔ بارش کے موسم میں سبزیوں کی مخصوص اقسام صحت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ ان میں لوکی، لوکی، ٹنڈی، لیڈی فنگر، بیگن، مولی، کدو، ڈرمسٹک پرول وغیرہ نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ادرک اور پودینہ بھی فائدہ مند ہے۔

 

2۔  اس موسم میں بغیر چوکر کے آٹے کی روٹیاں کھائیں۔ دالوں میں اُڑد کی دال اچھی ہوتی ہے۔ دلیا کی کھچڑی بھی کھائی جا سکتی ہے۔ جب تک بارش کے موسم میں آم نہ آجائیں، ان کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ لیموں کی مقدار بڑھا دی جائے۔ جامن کا استعمال بھی فائدہ مند ہے۔ اس موسم میں بھنے ہوئے چنے، بھنے ہوئے مکئی کا استعمال فائدہ مند ہے۔

 

بارش کے موسم میں چاٹ پکوڑیوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ خاص طور پر کبھی بھی دکانداروں سے نہ خریدیں۔ چھوٹی روٹی، سموسے، آلو بڑے، پکوڑے وغیرہ ہضم نہیں ہوتے۔ اسی طرح مٹھائی کا استعمال بھی کم کرنا چاہیے۔ برسات کے موسم میں زیادہ تر بیماریاں آلودہ پانی کے استعمال سے ہوتی ہیں۔ اس لیے پینے کا صاف اور جراثیم سے پاک پانی کا ہونا بالکل ضروری ہے۔ دریا یا تالاب کا پانی فلٹر کیے بغیر نہیں پینا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ پانی کو ابال کر چھان کر پی لیں۔

 

4۔ بارش کے دنوں میں دن میں نہ سونا چاہیے اور نہ ہی رات کو جاگنا چاہیے۔ رات کو کافی نیند لیں۔ ان دنوں میں دریاؤں، ندی نالوں اور تالابوں میں تیرنا نہیں چاہیے۔ ایک تو ان کا پانی آلودہ ہے، دوسری طرف ان دنوں دریاؤں اور ندی نالوں کا بہاؤ بھی بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔

 

اس موسم میں ہمیشہ خشک کپڑے پہنیں۔ گیلے لباس سے نزلہ زکام اور جلد کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح ڈھکنے اور بچھانے والے بستر وغیرہ کو بھی خشک ہونا چاہیے۔ جوتے اور موزے بھی خشک ہونے چاہئیں۔ بارش میں باسی کھانا سختی سے منع ہے۔ ہمیشہ خالص، تازہ اور سبزی خور کھانا کھائیں۔ اس موسم میں سبزی خور کھانے کا استعمال اچھا نہیں ہے۔ کھانا گرم ہونا چاہیے۔

 

6۔ اس موسم میں مکھیوں، مچھروں اور حشرات الارض کی وباء بڑھ جاتی ہے جو بہت سی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ مچھر ملیریا، ڈینگی، زرد بخار، کالا آزار وغیرہ جیسی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ بہتر ہو گا کہ ان کی اصلیت کو روکا جائے۔ اس کے لیے گھر اور آس پاس کے گڑھوں میں پانی جمع نہ ہونے دیں۔ کیڑے مار ادویات کا سپرے کریں۔ پانی سے بھرے گڑھوں میں خام تیل یا مٹی کا تیل چھڑکیں۔ اس کے علاوہ سوتے وقت مچھر دانی لگائیں یا کوئی دوسرا ذریعہ، سامان استعمال کریں، جو مچھروں سے محفوظ رہے۔

 

7۔ تمام کھانے پینے کی اشیاء کو ڈھانپ کر رکھیں، یاد رکھیں کہ اگر مناسب صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو ہیضہ، یرقان، اسہال وغیرہ جیسی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

 

8۔  بارش میں کسی پھل یا سبزی کو دھوئے بغیر استعمال نہ کریں۔ اسی طرح کٹے اور کھلے پھل اور سبزیاں نہ خریدیں۔ بارش کا موسم شروع ہونے سے پہلے اپنے گھر کی چھت، نالیوں اور آس پاس کے گڑھوں کو ٹھیک کر لیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو