گردشیں
مسرورتمنا
کمرے میں عجیب سی گھٹن کا احساس سیلن ذدہ مکان پاس ہی تلاب تھا اسلیے بے شمار مچھروں سے بچنے کو نیم کے پتے اور کنڈے جلاے جاتے تھے
گاوں کے یہ حال پہلے اس نے کہاں دیکھا تھا
اپنا تالاب اپنا کھیت بہت ساری زمینوں کے مالک سہراب سے اسکی شادی ہوی
شبانہ کو آذادی کی تمنا گھومنے کا جنون تھا مگر کیسے اجنبی لوگ عجیب سے کوی اپنا پن نہیں اور ایسی اجاڑ ویران جگہ
اور یہاں کا ماحول وہ گھبرا گی
سہراب نے منھ دکھای میں سونے کے بھاری کنگن دیے تھے
اور صبح ہی اپنے کھیتوں کی طرف گیے تھے دوپہر میں پشینے میں لت پت وہ شبانہ کے قریب آے تو وہ بدک کر بولی
دور ھٹیں پلیز نہا کر آیں
جاتا ہوں جانے من نہانے.سے پہلے گلے تو لگا لوں
چھی چھی وہ اٹھکر بھاگنے لگی
ڈارلنگ کسان کی بیوی ہو عادت ڈال لو
تم ے اتنا بڑا دھوکہ دیا
عادت مای فٹ تم نے مجھے دھوکہ دیا شہری بابو بنکر شادی کی اور گاوں کے اس کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں لا پھینکا
میں اب یہاں ایک پل بھی نہیں رک سکتی
اس نے پہلے ہی میسج کردیا تھا
کیونکہ اسکے دروازے کے پاس کار آچکی تھی ساتھ ہی اسکےپاپا بھی
سہراب نہا کر آیا تو وہ.اپنے بابا
کے ساتھ جارہی تھی
آج رک جایں رات ولیمہ .
ھم جب شادی کو نہیں مان رہے ختم کر رہے تو ولیمہ کیسا
میں اپنی بچی کو لے جارہا
اے سسر جی کہا نا رک جایں ورنہ اس نے اپنا گن تلاش کیا
اسے ڈھونڈ رہے میرے پاس ہے
شبانہ نے اسکی طرف گن تان دیا
ھمارا پیچھا مت کرنا ورنہ جان سے جاوگے
. . . . .
وہ اپنے بابا کے ساتھ گھر چلی آی بمبی کا ٹکٹ بک کیا
اورفلایٹ سے بابا کو لے کر آگی
ممبی میں وہ سکون سے جی رہی تھی بابا کے چایے کے باغات سے اچھی خاصی رقم ملتی تھی پھر بھی وہ اپنا وقت گذارنے کےلیے پاس کے انگلش
اسکول میں جاب کر رہی تھی
بابا کی صحت دن پر دن گرتی جارہی تھی سہراب نے اپنا آپ چھپا کر ایک اچھا انسان بنکر
سال بھر انکے ساتھ بنگلور میں رہ کر انہیں چھلا تھا
شبانہ چھپ کر نہیں بیٹھی تھی
بس اپنے بابا کے لیے وہ خاموش تھی ورنہ اس سہراب کو وہ چھوڑنے والی نہیں تھی
.. .... ................
آج بابا بھی مر گیے
اسکی دنیا ویران ہوگی وہ سوچنے لگی کے کیا پھر واپس
امریکہ چلی جایے مگر دل وطن سے دور جانے کو نہیں کررہاتھا
اس نے عامر کو فون کیا اسے بابا
نے پالا تھا اسکی ذندگی بنای تھی تدفین کے وقت اسی کا ساتھ تھا عامر نے اسے ھمت دی
اور اسکے دوست صدام کو بھی باخبر کیا
.. . ... .. ... ..
رباب سے ملاقات مال میں ھوی تھی اور پتہ نہیں وہ اور عامر کب قریب آگیے
رباب نے صاف.کہدیا مجھ سے کورٹ میرج کرلو گھر والے نہیں مانینگے عامر شادی کرکے دہلی چلا گیا رباب ماں بنے والی تھی
اسکی جان کو خطرہ تھا مگر شبانہ نے سب کچھ سنبھال لیا
اور بعد میں اپنے ساتھ لے آی
. . . .. شبانہ کو دیکھ کر
وہ ڈر گی تم سہراب بھای کی بیوی ہو نا
نہیں رباب اب میں انکی بیوی نہیں طلاق ہوچکاہے
مگر مجھے پتہ نہیں تھا تم اسکی بہن ہو کیونکہ میں نے وہاں کچھ بھی غور سے نہیں دیکھا بس تمہارے بھای کا دھوکہ نظر آیا میرے بابا اس غم میں مر گیے اس نے میری دولت دیکھی تھی مجھے نہیں دیکھا
بابا اس پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتے تھے
جو گھر جو فیملی اس نے دکھاے سب فراڈ تھا
اس نے ھمارے روپیے بھی چراے ہیں اور جہیز میں بابا نے اسے سوہن پور والی فیکٹری دی تھی
جو اس نے بیچا اور ھم نے اسے دوبارہ خرید لیا تم آرام کرو تمہیں قید بندش میں ھم رکھنا نہیں چاھتے جیسے چا ھو جیو
اگر اپنے گھر والوں سے ملنا ہے مل سکتی ہو. پھر اس نے بےبی کو پیار کیا اور باہر نکل گی
. .. .. .. .
رباب نے جھٹ فون کیا اور دوسرے دن سہراب شبانہ کے سامنے کھڑا تھا
وہ جانتا تھا وہ شبانہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر دھمکانے میں اسکو مزہ اتا تھا
شبانہ نے چپکے سے پولیس.کو کال کیا اور فون آن ہوتے ہی
سہراب نے جھپٹ کر منے کو گود میں اٹھا لیا
شبانہ میں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر اب یہ بچہ تو گیا
بھیا یہ میرا بچہ ہے رباب تڑپ کر بولی میرے بچے کو چھوڑ دو
ارے پاگل لڑکی وہ اس خاندان کا چراغ ہے ھمارا دشمن اچانک
پولیس آگی اور شبانہ نے اسکے گال پر طمانچہ جڑ دیا
یہ ھمارے خاندان کا ہو یا کسی اور کا ہے تو معصوم بچہ تم نے میرے بابا کو دھوکہ دیا
اسلیے تم صرف نفرت کے قابل ہو تمھارےبرای ذندگی بھر تمھیں احساس دلاینگی کے یہ گردشیں تمہارے جان لے کر ختم ھونگیں
سہراب نے اسے مسکرا کر دیکھا
میں نے تیری ذندگی کو دغدار بنا دیا تجھ سے شادی کر کے اور تو
نے اسے کالا کرلیا مجھ سے طلاق لے کر
اور آج تو ایک گنہگار کی طرح ذندہ ہے جیل کی کال کوٹھری فراڈ کے جرم ساری عمر تجھے پناہ دے گی
اورمیں اپنے دوست صدام سے شادی کرکے چین کی ذندگی گذارونگی وہ ھنسی اور سہراب
اندھیروں کے تصور سے بدحواس ھوگیا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں