غزل
بھوک کی شدت سے بیٹھا رورہا ہے
کرب سر پر موسموں کا ڈھورہا ہے
پاس بوڑھے لیمپ کے ،فٹ پاتھ پر
دن تھکن سے چور ہوکر ،سورہا ہے
وہ کشاکش ،گومگو اس کے سبب
خواب کی تعبیر اپنی کھورہا ہے
سست رو کچھوے گئے ،آگے نکل
بے خبر خرگوش اب بھی سورہا ہے
آسماں کی ،زیر گیتی ،سب کہی
بول وہ بھی جو زمیں پر ہورہا ہے
کم فہم ،کم زور ،کم تر ،کم نصیب
کانٹے اپنی زندگی میں بورہا ہے
ڈھیر سے کچرے کے ،بھوکے کو ملی
لتھڑی روٹی ،نل کے نیچے دھو رہا ہے
کھو چکی ہے قوم سب مال و متاع
جان کیوں ارشاد اپنی کھورہا ہے
ڈاکٹر ارشاد خان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں