نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غزل از ڈاکٹر کلیم عاجزؔ)

پیشکش : ابوالبیان رفعت بلرامپوری 

رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے

اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے


اور وہ چیز نہ دولت، نہ مکاں ہے، نہ محل

تاج مانگا ہے، نہ د ستار و قبا مانگی ہے


نہ تو قدموں کے تلے فرشِ گہر مانگا ہے

اور نہ سر پر کلہِ بالِ ہما مانگی ہے


نہ شریک سفر و زاد سفر مانگا ہے

نہ صدائے جرس و بانگِ درا مانگی ہے


نہ سکندر كی طرح فتح کا پرچم مانگا

اور نہ مانندِ خضر عمرِ بقا مانگی ہے


نہ کوئی عہدہ، نہ کرسی، نہ لقب مانگا ہے

نہ کسی خدمتِ قومی کی جزا مانگی ہے


نہ تو مہمانِ خصوصی کا شرف مانگا ہے

اور نہ محفل میں کہیں صدر کی جا مانگی ہے


مے کدہ مانگا، نہ ساقی، نہ گلستاں، نہ بہار

جام و ساغر نہ مئے ہوشرُبا مانگی ہے


نہ تو منظر کوئی شاداب و حسیں مانگا ہے

نہ صحت بخش کوئی آب و ہوا مانگی ہے


محفلِ عیش نہ سامانِ طرب مانگا ہے

چاندنی رات نہ گھنگور گھٹا مانگی ہے


بانسری مانگی، نہ طاؤس، نہ بربط، نہ رباب

نہ کوئی مطربۂ شیریں نوا مانگی ہے


چین کی نیند، نہ آرام کا پہلو مانگا

بختِ بیدار، نہ تقدیرِ رسا مانگی ہے


نہ تو اشکوں کی فراوانی سے مانگی ہے نجات

اور نہ اپنے مرَض دل کی شفا مانگی ہے


نہ غزل کے لئے آہنگ نیا مانگا ہے

نہ ترنم کی نئی طرزِ ادا مانگی ہے


سن کے حیران ہوئے جاتے ہیں اربابِ چمن

آخرش! کون سی پاگل نے دعا مانگی ہے


آ! ترے کان میں کہہ دوں اے نسیم سحری!

سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے؟ کیا مانگی ہے


وہ سراپائے ستم، جس کا میں دیوانہ ہوں

اس کی زلفوں کے لئے بوئے وفا مانگی ہے

Ghazal by Dr. Kaleem ajiz

(ڈاکٹر کلیم عاجزؔ) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو