غزل
ہر طور ہر طریق سے نعمت خرید لی
غم دے کے ہم نے غیر کو فرحت خرید لی
گمنام تھے تو خواب پہ تھا اپنا اختیار
نیندوں کو بیچ باچ کے شہرت خرید لی
برسوں قلم کو گھس کے بھی بے نام جو رہے
دولت لٹا کے ہم نے بھی مدحت خرید لی
ہر چیز بک رہی ہے تو حیرت کی بات کیا
مذہب کے پارساؤں نے حرمت خرید لی
سرمایہ کاری یوں ہی نہیں کی چناؤ میں
قیمت لگا کے سر کی قیادت خرید لی
ہے علم اس کے سر پہ کفالت کا بوجھ ہے
صحرا نچوڑنے کی جو محنت خرید لی
ارشاد ! تندرستی جو نعمت سے کم نہیں
تم نے سنا کسی سے بھی ! صحت خرید لی؟
ڈاکٹر ارشاد خان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں