نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مزاحیہ شاعری غزل* *(اسانغنی مشتاق رفیقیؔ)*

*غزل*   

*(اسانغنی مشتاق رفیقیؔ)*

دھمال ڈال رہا ہے یہ عشق کیسا ہے

مجھے سنبھال رہا ہے یہ عشق کیسا ہے

میں اپنے آپ میں خاموش رہنا چاہتا ہوں

مجھے اُجال رہا ہے یہ عشق کیسا ہے

مری رگوں میں لہو بن کے دوڑتا ہے وہی

جو مجھ کو پال رہا ہے یہ عشق کیسا ہے

کبھی بُلاتا ہے محفل میں بندگی لئے

کبھی نکال رہا ہے یہ عشق کیسا ہے

کبھی جلال سا دکھتا ہےاُس کے چہرے پر

کبھی جمال رہا ہے یہ عشق کیسا ہے

وہ میری عقل میں آیا نہیں کبھی لیکن

مرا خیال رہا ہے یہ عشق کیسا ہے

جنوں کے صحرا میں لیلیٰ کی آہٹیں لے کر

مرا غزال رہا ہے یہ عشق کیسا ہے

رفیقیؔ روز ازل سے بدلتے سانچوں میں

جو مجھ کو ڈھال رہا ہے یہ عشق کیسا ہے


*Ghazal*

*Asangani Mushtaq Rafeeqi*

Dhammal daal raha hai a ishq kaisa hai

Mujhay sanbhal raha hai a ishq kaisa hai

Mai apnay app may khamoush rehna cahta houn

Mujhay ujaal raha hai a ishq kaisa hai

Meri ragoun may lahoo ban kay dourrta hai wahi

Jo mujh ko paal raha hai a ishq kaisa hai

Kabhi bullata hai mehfil may bandagi kay liye

Kabhi nikal raha hai a ishq kaisa hai

Kabhi jalal sa dikhta hai uss kay cehray par

Kabhi jamal raha hai a ishq kaisa hai

O mayri aqhl may aaya nahi kabhi laikin

Mera khyal raha hai a ishq kaisa hai

Junoo kay sehra may laila ki aahateayn lay kar

Mera ghazal raha hai a ishq kaisa hai

Rafeeqhi rouz-e-azal say badaltay sanchoun may

Jo mujh ko dhall raha hai a ishq kaisa hai 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...