نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہارن بجانا منع ہے* *Everywhere* in life, the *true* question is not *what* we gain, but *what* we do.

*ہارن بجانا منع ہے* 

 *Everywhere* in life, the *true* question is not *what* we gain, but *what* we do.

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب ابرش نور گلوبل ہینڈز 

 *ایک شخص نے بہت شوق سے ایک مرغا پالا، وہ مرغے کو بادام گریاں میوے کھلاتا۔ مرغا اپنے قد اور رعب اور حسن سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتا تھا ۔* مگر ایک مسٸلہ تھا مرغا اپنی فطرت کے مطابق صبح سویرے جاگ جاتا اور بانگ یعنی اذان دے دیتا ۔ مرغے کا مالک مرغے سے محبت ضرور کرتا تھا مگر اسے اپنی نیند زیادہ پیاری تھی ۔ ایک بار اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ کیوں نا اس کو ذبح کر کے اپنی نیند کو تو بچایا جاۓ کم از کم نیند کا مسٸلہ تو حل ہو جاۓ ۔ *اب مالک نے مرغے کو ذبح کرنے کا کوئی بہانا سوچا کہ کسی طرح اس سے جان بھی چھوٹ جاۓ اور کوٸی جواز بھی مل جاۓ کہ بعد میں افسوس نا ہو ۔ چنانچہ اس نے مرغے سے کہا کہ کل سے تم نے آذان نہیں دینی ورنہ ذبح کردوں گا۔* مرغا یہ سن کر پریشان ہوا مگر جان پر بنی ہے بات تو ماننا پڑے گی ۔ بہرحال مرغے نے کہا ٹھیک ہے جو آپ کی مرضی! صبح جونہی مرغے کی آذان کا وقت ہوا تو مالک نے دیکھا کہ مرغے نے آذان تو نہیں دی لیکن حسبِ عادت اپنے پَروں کو زور زور سے پھڑپھڑیا تو مالک نے اگلا فرمان جاری کیا کہ کل سے تم نے پر بھی نہیں مارنے ورنہ ذبح کردوں گا۔ *اگلے دن صبح آذان کے وقت مرغے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پر تو نہیں ہلائے لیکن عادت سے مجبوری کے تحت گردن کو لمبا کرکے اوپر اٹھایا مالک نے اگلا حکم دیا کہ کل سے گردن بھی نہیں ہلنی چاہیے۔* اگلے دن آذان کے وقت مرغا بلکل مرغی بن کر خاموش بیٹھا رہا۔ مالک نے سوچا یہ تو بات نہیں بنی۔ اب کے بار مالک نے بھی ایک ایسی بات سوچی جو واقعی مرغے بے چارے کی بس کی بات نہیں تھی۔ *مالک نے کہا کہ کل سے تم نے صبح انڈا دینا ہے ورنہ ذبح کردوں گا۔ اب مرغے کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی اور وہ بہت زار و قطار رویا۔ قریب بیٹھے کبوتر نے پوچھا آخر مالک تمھیں ذبح کیوں کرنا چاہتا ہے؟ تمھارے پیچھے ہی ہاتھ دھو کر کیوں پڑ گیا ہے ۔ مرغے نے آنسو بہاتے ہوۓ کہا کیوں کہ جو لوگ جگاتے ہیں ان کا یہی انجام ہوتا ہے ؟* بلاشبہ حق پر جان دینا عزت کی بات ہے اور حق والوں کی جان لینا ذلت کی بات ہے مگر اس وقت کیا بات ہے؟ موت کے ڈر سے نہیں رو رہا بلکہ اس بات پہ رو رہا ہوں کہ انڈے سے بہتر تھا آذان پر مرتا" حق پر قاٸم رہنا حق کی اذان بلند کرنا واقعی ایک مشکل کام ہے آپ حق پر ہیں ۔ *اس دور پر فتن میں بھی ہر انسان اس خوف سے اچھاٸی سے بھاگ رہا ہے کہ کہیں میں مارا نا جاوں ۔سر سید احمد خان نے اپنے مضمون اپنی مدد آپ میں لکھا ہے کہ کسی قوم کے معزز ہونے کا اندازہ اس کے شغل اشغال سیر سپاٹے چال چلن سے لگایا جا سکتا ہے ۔ آپ نے اکثر تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے باہر لکھا دیکھا ہو گا ہارن بجانا منع ہے ۔* یقینا ایسی جگہ پر ہارن بجانا کوٸی قانونی جرم نہیں مگر منع ہو جانا اخلاقی عظمت کی بات ہے مگر دوسری طرف بعض جگہوں موٹر رکشوں تانگہ ریڑھی اور ٹرکوں کے پیچھے یہ جملہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے ہارن بجانا منع ہے قوم سو رہی ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا طنز بھی ہے اور دعوت فکر بھی ہے کسی تعلیمی ادارے کے باہر تو ہارن بجانے پر آپ و سزا نہیں دی جاۓ گی کسی کنفرم مصیبت یا روڈ حادثے کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہونے پر ہارن پر ہارن بجانے کا لطف اٹھانے اور مقابلے میں بجانے پر قہقے اب برے نہیں مانے جاٸیں گے کیونکہ قوم کا شغل اشغال کا طریقہ چال چلن بدل گیا ہے مگر کسی سوۓ ضمیر کو جگانے کی سزا پر گالم گلوچ ۔ کسی غلطی پر اصلاح کرنے کے بدلے طنزیہ جملے ۔ *کسی ناحق کے ضمیر کوجنجھوڑنے پر جان سے مار دینے کی دھمکی آنکھیں نکالنا اور گرج برس جانا فخر سمجھا جانے لگا ہے ۔ اسے آپ پہلی کہانی سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس دور میں نیکی کی دعوت ۔نیکی کی فکر ۔ اچھاٸی کی سوچ ۔ براٸی کے خلاف آواز اٹھانے پر آپ کو سرکچل دیا جاۓ گا ۔* قوم کو جگانے والے کی کردار کشی اور طنزیہ جملوں کی بارش کر دی جاۓ گی ۔ ٹی وی پر براٸی کو خوبصورت پیکنگ میں پیش کرنا عیب نہیں مگر اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو عیب دار بنا کر پیش کرنا عام رویہ بن چکا ہے ۔ *علما دانش وروں اہل علم کو مولوی حاجی ملا کہہ کر مخاطب کرنا اور اسلامی شعار کی من گھڑت تشریح کرنا عام ہو رہا ہے ۔ اسی لیے کہا گیا ہارن آہستہ بجاٸیں آگے قوم سو رہی ہے اور جگانے والے کا انجام یہی کہ اسے ذبح کر دیا جاۓ گا ۔* بہرحال طوفان کتنا ہی اور کیسا ہی ہو اندھیرا کتنا ہی گہرا ہو آپ نے اپنے حصے کا چراغ جلانا ہے ۔ **اگر اچھاٸی کا پرچار کرنے والے اپنا کام روک دیں گے باغوں سے بلبل ہجرت کر جاۓ گی تو ان کی جگہ الو لے لیں گے* اپنے کردار اور گفتار سے قوم و ملک کو سنوارنے میں اپنا حصہ ڈالنا جاری رکھیں ۔اس دعوت فکر دیتی تحریر کو دوسروں تک بھی ارسال کیجیے ۔

 *جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے* 

 *یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں* 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو