نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تیس سال کے اس سفر میں ہم نے سب کچھ کھو دیا ، پایا کچھ نہیں ۔.

رات کو سب نو ساڑھے نو بجے تک سو جایا کرتے تھے ، رات دیر تک جاگنے

کو نحوست تصور کیا جاتا تھا ، صبح آذان کی آواز کانوں میں گونجتی تھی اور

اُس کے بعد گھر یا ہمسایوں کے مرغے أذان دیا کرتے تھے ، گھر میں درخت

موجود ہوتا تھا اور صبح صبح چڑیوں کی آواز کانوں کو سنائی دیتی تھی ۔

گھر کے مرد نماز پڑھنے چلے جاتے تھے اور یوں دن کا آغاز بہت جلدی ہو 

جاتا تھا ۔

دوپہر میں اکثر گھروں میں روٹی بنائی جاتی تھی اور ساتھ اناردانہ ، پودینہ ، ٹماٹر

اور پیاز کی چٹنی بنائی جاتی تھی ، اُس کے بعد ظہر کا اہتمام کیا جاتا تھا اور 

پھر قیلولہ کیا جاتا تھا ، گھر میں دادا دادی کے وجود کو رحمت سمجھا جاتا تھا 

اور اُن کا کہا ہوا حرفِ آخر ہوتا تھا ، محلے داروں کے دُکھ سُکھ سانجھے ہوتے

تھے اور کسی بارات یا فوتگی پہ اتحاد کا جذبہ دیکھنے کے قابل ہوتا تھا ۔

نا کوئی بیرا ہوتا تھا اور نا ہی شادی ہال ، محلے کے تمام لوگ مل کر شادی

کی ساری تیاریاں کرتے تھے اور فوتگی پہ ہمسائے بھی کئی کئی دن چولہا نہیں

جلاتے تھے ۔

پھر۔۔😥😥

دیواریں اونچی ہونا شروع ہوئیں ، درخت ختم ہوئے ، پرندے اڑ گئے ،

مرغ پولٹری فارمز میں چلے گئے اور دیواریں اتنی اونچی ہو گئیں کہ مسجد کے 

لاؤڈ سپیکر کی آواز بھی کم آنے لگی ، ایک وقت میں کئی کھانے کھانے کی ٹیبل

کی زینت بننے لگے ، برکت ختم ہو گئی اور ایک گھر میں رہتے لوگ بھی ایک

دوسرے سے انجانے ہو گئے ، پرائیویسی کے نام پر علیحدہ علیحدہ رومز بن گئے

اور گھر میں رہتے ہوئے رابطے موبائلز پر ہونے لگے ، شادی ہالز اور مارکیز میں 

ہونے لگیں اور محلے میں فوتگی پر منہ دکھانے کی رسم چل نکلی ۔

تیس سال کے اس سفر میں ہم نے سب کچھ کھو دیا ، پایا کچھ نہیں ۔. 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو