ٔدیپ جلے
مسرورتمنا
شاردا نے پنکی کو آواز دی
وہ.اس وقت ماں کے ساتھ
کام پر آی تھی
مالکن کے بچے اپنے پٹاخے اور کھلونے سجا رہے تھے کھلے
فلیٹ کے تیرھویں منزل پر کھلے چھت پر بچوں نے بہت خوبصورت گھر بنوایا تھا
گارڈین پیڑ بنواے تھے
اور قمقموں سےسجا یہ پیارا
گھر پنکی بھی دیکھ رہی تھی
پہلے تو ان لوگوں نے.اسے بھگایا
مگر جو لڑکا مالی بنا تھا اسے
گلاب کی ضرورت تھی
یاروں یہاں ایک گلاب ضرور ہونا چاھیے
بارھویں مںزل پر گملےمیں کھلا گلاب دیکھ سب کھل اٹھے
اس گلاب تک ہاتھ نہیں پہونچتا
ارون نے کہا
ہاں جلدی کرو اندھیرا نہ ہوجاۓ
پہلا دیپ ھمارے اسں گھر میں
جلنا چاھیے
ہاں آں ضرور گڈو مسکرایا نوین نے کہا
تو پھر جھکو اور توڑ لاو گلاب
نا بابا میں نہیں میری ممی نے
ٹیرس کے کنارے جانے سے.منع کیا تبھی انہوں نے پنکی سے پوچھا اے ھمارے ساتھ کھیلنا ہے دیوالی منانی ہے دیپ اور پٹاخے جلانے ہے
پنکی خوش ہوگی ہاں بھیا ضرور تو پھر ایک.کام کرے گی منا دیکھ یہ گلاب توڑیےگی
اور پنکی نے انکی.مدد سے گلاب توڑا ایک نے.آگے بڑھ کر اسکے ننھے ہاتھ سے گلاب کی ڈالی
گھر کے گارڈین میں سجایا
پر فیکٹ اور گڈو کے ہاتھوں پنکی چھوٹ گی
سب اپنے گھروں.میں دیپ جلارہے تھے
دیپ جلے
مسرور تمنا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں