نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Let's multiply GOODNESS ( اساتذہ اور والدین طلبہ کو گُڈ کیریکٹر کمپنی اور آئیٹا کے انعامی تحریری مقابلے کے لیے ترغیب دیں پلیز۔)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

Let's multiply GOODNESS 

( اساتذہ اور والدین طلبہ کو گُڈ کیریکٹر کمپنی اور آئیٹا کے انعامی تحریری مقابلے کے لیے ترغیب دیں پلیز۔)

تحقیق( واقعہ نمبر 761)

ایک دن میں لیکچر سے اسٹاف روم واپس آرہا تھا, پیون نے بتایا کہ اسٹاف روم میں مسٹر ڈگلس،  امریکن شہری میرا انتظار کررہے ہیں۔ میں حیرت میں پڑگیا۔

جب اسٹاف روم پہنچا تو ایک چھ فٹ سے بھی لمبے گورے چٹے شخص میرا انتظار کررہے تھے۔ 

میں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ میں ییلے یونیورسٹی کا پروفیسر ہوں۔ بھارت کی پاورلوم صنعت پر تحقیق کررہا ہوں اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے پاورلوم پر پی ایچ ڈی کی ہے۔

میں نے ان کے سوالات کے جوابات دیے۔ باتوں باتوں میں یہ معلوم ہوا کہ امریکہ میں کچھ سال کے بعد دوبارہ تحقیق کرنا ضروری ہے۔ وہاں کے پروفیسر دنیا کے کسی بھی ملک میں جاکر تحقیق کرسکتے ہیں اس کے لیے انہیں ڈیڑھ سال کی چھٹی ملتی ہے۔

تحقیق کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم مسائل کو پہچاننے،  سمجھنے اور انہیں حل کرنے کے قابل بنتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالماجد انصاری، ڈائریکٹر،  گُڈ کیریکٹر او پی سی پرائیویٹ لمیٹڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور