نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

MOTHER* IS THE *BEST* AND THE *FIRST* TEACHER *TO THE CHILD* .

*ماٸیں ان پڑھ نہیں ہوتیں* 

*MOTHER* IS THE *BEST* AND THE *FIRST* TEACHER *TO THE CHILD* .

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب : *ابرش نور* گلوبل ہینڈز 

 *لطاٸف پڑھتے رہا کریں کیونکہ اس سے آپ مسکراٸیں گے اور مسکرانے سے عمر بڑھتی ہے اور لمبی عمر تو ہم میں سے ہر کوٸی جینا چاہتا ہے* ۔ ہوا کچھ یوں کہ ماڈرن دور کی روایات پر چلتے ہوۓ ایک مام Mom نے اپنے بچے کو اجازت دی کہ آپ اپنی پسند کی شادی کرنا مجھے کوٸی اعتراض نہیں ہو گا ۔ *حضرت بہادر صاحب نے یونیورسٹی کی فنکشن پر مام کو سرپراٸز دینے کی تیاری کی اور اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ مل کر منصوبہ تیار کیا ۔mom جی کو اپنی کلاس سے ہیلو ہاۓ کروایا* اور پھر دس لڑکیوں کو ایک قطار میں کھڑا کیا اور اپنی امی سے کہا : *ان میں سے ایک لڑکی مجھے پسند ھے وہی آپ کی بہو بنے گی* 

بوجھیں تو کونسی ھے ان دس لڑکیوں میں سے ۔ مجھے دیکھنا ہے میری ماما مجھے کتنا جانتی ہیں ۔ 

 *اماں صاحبہ لاڈلے کی اس انوکھی ترکیب پر مسکراٸی اور پھر سب لڑکیوں کو دیکھ کر ایک لڑکی کی طرف اشارہ کیا کہ یہ والی لڑکی تمھاری پسند کی ھے اور تم اسی سے شادی کرنے کا سوچ رھے ہو۔* لاڈلا بہت خوش ہوا ساری لڑکیوں نے ماں کی اس کامیاب تلاش پر زور سے تالیاں بجا دیں مگر سب کے ساتھ ساتھ لاڈلا بیٹا بھی انتہائی حیرت سے بولا : ماما آپ تو بہت ماہر ہیں مگر آپ نے کیسے پہچانا ؟؟

ماں نے دلچسپ جواب دیا : کیونکہ ان سب میں صرف یہی لڑکی مجھے زہر لگ رہی تھی۔ آپ یقینا مسکرا رہے ہوں گے مگر یہاں بدلتی تہذیب کا ایک پہلو بھی بیان کر دوں وہ بچے جو کہتے ہیں *ماما آپ کو کیا پتہ ۔ ماما آپ نے کبھی یونی دیکھی ہو تو آپ کو پتہ ہو ۔ماما اب دور ویسا نہیں رہا ۔ ماما زندگی میں نے جینی ہے مجھے پتہ ہے میں کیسی لڑکی کے ساتھ خوش رہوں گا ۔ ماما آپ کو کیا پتہ آپ کبھی گھر سے نکلی ہوں تو پتہ ہو ۔ ماما میری زندگی پر میں کسی کی مرضی نہیں چلنے دوں گا دوں گی ۔* یہ وہ جملے ہیں جو نٸی بدلتی تہذیب بلکہ یوں کہہ لیں کہ جدید تعلیم کی پیداوار ہیں ۔ ہماری نٸی نسل کون سی تعلیم حاصل کر رہی ہے کہ ڈگری ملنے سے پہلے اور بعد میں ماں باپ کو جاہل قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ *یونیورسٹی کی کون سی یاجوج ماجوج ہے جن کو اپنے ماں باپ زہر لگتے ہیں یا جو اتنے دانا ہو جاتے ہیں کہ جو زندگی انہوں نے دیکھی نہیں اور دیکھی زندگی کے مصاٸب کی ہوا کھاۓ بغیر اتنے تجربہ کار ہو گٸے ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود لینے لگیں گے ۔* ماں باپ کے ساۓ کی بھی ضرورت نہیں دنیا کی دھوپ میں وہ ننگے پاوں چلنے کے دعوے کر رہے ہیں ۔ *ان کو کون بتاۓ گا ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتے ۔ ماٸیں جن کی کوکھ سے تم جنم لیے ہو جن کی خون سے تم تخلیق ہوۓ ہو وہ تمھارے قدموں کی آہٹ سے تمھارے دلوں کے وہم و گمان تک جان لیتی ہیں* ایسا اس لیے کہ وہ اللہ کے عطا کردہ منصب ماں پر فاٸز ہیں ان کی ممتا ان خوبیوں سے متصف ہے کہ وہ تمھاری عادات سے بخوبی واقف ہیں تم انہیں زبانی یاد ہو ۔ یہ کوٸی ڈاٸیلاگ نہیں ۔ *رحمن کا دیا وہ علم ہے جو دھوپ میں اولاد کی خاطر پسینہ بہانے والا بابا اور پورا دن گھر میں نوکرانی بن کر تمھارے قدموں کی دھول صاف کرنے والی ماں کو خدا کی طرف سے عطا ہوتا ہے ۔* مغربی تہذیب کے جن نظریات کی آبیاری آج ہمارے ہاں کی جا رہی ہے وہ ان قوموں کی ترقی کا راز ہوتے تو ہم فی الفور ان کو اپناتے وہ نظریات خاندانی نظام سے متصادم ہیں ۔ *کیا اب ہمارے بچے ایسی تہذیب کو اپنے اسلامی اصولوں ادب و اداب پر ترجیح دیں گے جن قوموں میں خاندان کا سرے سے وجود نہیں ۔* جہاں مادر پدر آزاد معاشرہ ہے جہاں زندہ انسانوں کی اک بڑی تعداد کے پاس والد بابا باپ جیسی عظیم ہستی کا سایہ ہی نہیں ۔ نکاح کا نظام نہیں اور زندگی کا مقصد نہیں ۔ *اس نٸی نسل کو بتانا ہو گا ماں کے آنچل میں جو سکون ملتا ہے اور باپ کی دعا جو مشکل وقت میں سہارا بن جاتی ہے وہ صرف اور صرف ہماری تہذیب کا حسن ہے* ۔ بچے کے چہرے پر خاموشی پڑھ کر ماں کا تسلی دینا اور بخار کی صورت ساری رات گود میں سر رکھے دعاٸیں دینا اور سورہ یسین کے اوراد پڑھنا اپنی عمر تمھیں لگا دینا یہ حوصلے خالصتا تمھاری تہذیب کی ماوں کے ہیں ۔ تم مغرب زدہ مت ہو جاو گے تمھاری اچھی اقدار یرقان کی طرح پیلی پڑ کر مر جاٸیں ۔ اپنے آباو اجداد پر فخر کرو جن کی ان اقدار نے تمھیں محبت سکون دعا وفا ایثار اور شفقت کی دولت سے نوازا۔ اولڈ ہوم میں ماں باپ جمع کروا دینے والی کھوکھلی دم توڑتی قوموں کے پاس ترقی کی نٸی راہیں ضرور ہیں مگر ترقی سے لطف اٹھانے اور مل بیٹھنے کے وہ شجر سایہ دار نہیں جن کو ماں باپ کہا جاتا ہے ۔ بس یہ بات دل کی ڈاٸری پر لکھ لیں کہ ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتے ۔اے نٸی نسل کے بچوں ! *یاد رکھنا اس دنیا میں ماں کی محبت ،تمام محبتوں کی ماں ہوتی ہے* اور یہ مغربی معاشرہ جن کے ہاں اولڈ ہوم ہیں ان کے ہاں مدر ڈے ہیں اور *ہمارا ماننا ہے ماں کا دن نہیں ہوتا ماں سے ہی دن ہوتا ہے* ۔ زندگی کی کتاب میں سب سے خوبصورت صفحہ ، ماں کی محبت ہے۔شکریہ ... 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو