نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

#ماں_باپ

#ماں_باپ

" اسلام اور بیٹی"

سائنسی ریسرچ سے یہ بات ثابت ھوئی ھے کہ

" لڑکیاں اپنے باپ سے محبت کو سننا اور محسوس کرنا چاھتی ھیں ، لڑکیاں باپ کی محبت کی توثیق چاھتی ھیں ، اس توثیق کی کمی کو ماں پورا نہیں کر سکتی ."

" ماں بچی کو تحفظ دیتی ھے ، باپ انکو خود اعتمادی دیتا ھے .

اگر اس تعلق کو دیکھنا ھو تو آئیے محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹی سے مثالی محبت پر نظر ڈالتے ھیں ۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کو اتنی عزت دیتے کہ جب فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنھا چل کر آتیں تو اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر کھڑے ھو جاتے اور انکو بوسا دیتے اور مرحبا کہہ کر استقبال فرماتے تھے ۔

) سیر اعلام النبلاء 127/2(

ایک مرتبہ سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنھا نے روٹی بنائی ، جب روٹی کھانے لگیں تو دل میں خیال آیا کہ پتہ نہیں میرے والد گرامی نے بھی کچھ کھایا ھے یا نہیں ، سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنھا نے روٹی کے دو ٹکڑے کئے ، آدھا خود کھایا اور آدھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ھوئیں ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے استقبال فرمایا اور پوچھا کہ کیسے آنا ھوا ؟ عرض کیا کہ ابا حضور ! میں روٹی کھانے لگی تو خیال آیا کہ پتہ نہیں آپ نے کچھ تناول فرمایا ھے یا نہیں، آپ کے لئے آدھی روٹی لیکر حاضر ھوئی ھوں.

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے روٹی کا ٹکڑا منہ میں ڈالا اور فرمایا : آج تیسرا دن ھے تیرے والد کے منہ میں روٹی کا کوئی ٹکڑا نہیں گیا.

) طبقات ابن سعد 400/1 ، سبل الہدی والرشاد 94/7 (

ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بہت بھوک محسوس فرما رھے تھے ، آپ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے ، انہوں نے بکری ذبح کر کے گوشت پکایا اور حاضر خدمت کیا ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ نے بکری کی ران سے گوشت کاٹا اور حضرت ابو ایوب انصاری سے فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ میری بیٹی نے کچھ کھایا ھے یا نہیں ، یہ گوشت میری طرف سے میری بیٹی کو پہنچا دیں

)سبل الہدی والرشاد 103/7 (

اسلام نے بیٹی کو معاشرے میں جو حقوق اور مقام دیا ھے وہ صرف اسلام ھی کا خاصہ ھے

بیٹی کو بوجھ سمجھنا، اسکے حقوق پر ڈاکے ڈالنا، اسکو وراثت سے محروم کرنا اور اسکے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ھر گز اسلامی معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا ۔

افسوس کہ ھم نے اپنے مثالی معاشرے کو بھلا دیا اور مغرب زدہ پھیکے اور بے رونق معاشرے کے گرویدہ ھوگئے جو مادی ترقی کے باوجود حقیقی محبت اور حسن معاشرت کی ناگزیر نعمت سے محروم ھے

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور