نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں ملدے‘ مستنصر حسین تارڑ

لاہور ائر پورٹ کے لاؤنج میں ایک وہیل چیئر میں سفید بالوں والی ایک ابھی تک خوشنما بوڑھی عورت ایک ڈھے چکے تناور شجر کی مانند سرجھکائے بیٹھی تھی اور اس کا دراز قامت بیٹا اپنے عظیم باپ کی شباہت کا پرتو اسکے سفید بالوں پر دوپٹہ درست کر رہا تھا…میں نے قریب ہو کر سلام کیا اور انہوں نے لرزتے ہاتھوں سے مجھے ایک مہربان تھپکی دی اور کہنے لگی’’ مستنصر تم آگئے ہو‘‘ میں نے کہا’’ بانو آپا مجھے اطلاع ہوگئی تھی کہ اسلام آباد جانے والی پرواز میں دو گھنٹے کی تاخیر ہوگئی ہے اس لئے میں قدرے تاخیر سے پہنچا‘‘ بانو قدسیہ کو یوں دیکھ کر میرا دل رنج سے بھرگیا…انکے چہرے پر جو اداسی اور بڑھاپے کی تھکن تھی اسے دیکھ کر مجھے گیتا دت کا گانا’’ میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘ یاد آئے چلا جا رہا تھا کہ بانو آپا کے سندر سپنے اشفاق احمد کو بیتے ہوئے بھی کتنے ہی برس ہوگئے تھے…میں نے جھک کر ان سے کہا’’ بانو آپا… آپ کو نہیں آنا چاہئے تھا…آپ سفر کے دوران تھک جائیں گی…اور وہاں اکیڈمی آف لیٹرز کی ادیبوں کی کانفرنس میں ادیبوں کا جو ہجوم ہوگا وہ آپ سے ملنے اور باتیں کرنے کا شائق ہوگا تو آپ تھک جائیں گی‘‘ ان کے بیٹے اسیر نے کہا’’ تارڑ صاحب…اماں برسوں سے…جب سے ابا گئے ہیں گھر سے کم ہی نکلتی تھیں، کسی سے ملاقات بھی نہیں کرتی تھیں کہ ان کی صحت اجازت نہیں دیتی تو میں نے انہیں قائل کیا کہ اماں تھوڑی سی ہمت کریں میں آپ کو اٹھا کر لے جاؤنگا۔

گھر سے نکلیں ان لوگوں سے ملیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں، آپ بہتر محسوس کریں گی…اپنا’’ کمال فن‘‘ ایوارڈ وزیراعظم سے خود وصول کریں… میں آپ کاخیال رکھوں گا…تو تارڑ صاحب… یہ میرے اصرار کرنے پر اور اکیڈمی کے چیئرمین عبدالحمید کی درخواست پر گھر سے نکلی ہیں اور دیکھ لیجئے ابھی سے بہتر محسوس کر رہی ہیں…بانو آپا اس دوران کبھی اونگھ میں چلی جاتیں اور کبھی مسکرانے لگتیں اور مجھ سے میرے بچوں کے بارے میں پوچھنے لگتیں کہ وہ میرے بیٹے سمیر کی شادی پر خصوصی طور پر چلی آئی تھیں، کہنے لگیں’’ تم نے ایک اور ناول لکھا ہے جس کا نام خس و خاشاک کچھ ہے اور کچھ لوگوں نے اس کا بہت تذکرہ کیا ہے تو تم نے یہ ناول مجھے کیوں نہیں دیا‘‘ تو میں نے مسکرا کر کہا’’ بانو آپا یہ ناول بہت ضخیم ہے…اس کا حجم آپ کو تھکا سکتا ہے اسلئے پیش نہیں کیا’’ تو ذرا مصنوعی غصے سے بولیں’’ کیا میں نے اس سے پیشتر تمہارے تمام ناول نہیں پڑھے…ویسے تم کچھ بھی کرلو’’ بہاؤ‘‘ سے بڑا ناول نہیں لکھ سکتے۔

میں نے وعدہ کیا کہ واپسی پر میں’’ خس و خاشاک زمانے‘‘ ان کی خدمت میں پیش کروں گا…بانو آپا میرے ناول’’ بہاؤ‘‘ پر اٹک گئی ہیں ان زمانوں میں آج سے تقریباً بیس برس پیشتر جب یہ ناول شائع ہوا تو انہوں نے کہا تھا’’ مستنصر تم نے ’’ بہاؤ‘‘ کے بعد کوئی اور ناول نہیں لکھنا کہ اس سے بڑا ناول تم کبھی نہیں لکھ پاؤ گے‘‘ اور تب میں نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا’’ بانو آپا، آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میں اس دوران ایک ناول’’ راکھ‘‘ نام کا لکھ چکا ہوں تو اس کا کیا کروں‘‘ بانو آپا نے’’ راکھ‘‘ پڑھنے کے بعد کہا یہ’’ بہاؤ‘‘ سے بڑا تو نہیں لیکن…تم نے اچھا کیا کہ یہ ناول لکھا…یہ’’ آگ کا دریا‘‘ سے کم نہیں…اب اور کوئی ناول نہ لکھنا یہی دو کافی ہیں، بانو آپانے اپنی سرگزشت میں خصوصی طور پر’’ بہاؤ‘‘ کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے…میرا سندر سپنا بیت گیا…میں پریم میں سب کچھ ہارگئی، بے درد زمانہ جیت گیا…یہ بانو قدسیہ تھیں…اثیر جیسے اپنے بازو واکرکے انہیں وہیل چیئر سے اٹھاتے ہوئے کہتا تھا’’ اماں مجھے آغوش میں لے لو۔

میں آپ کو سنبھالتا ہوں‘‘ اور پھر جہاز کی نشست میں جیسے بانو قدسیہ کانچ کی ایک گڑیا ہوں، احتیاط سے بٹھاتا تھا تو میں رشک کرتا تھا…کہ بیٹے ہوں تو ایسے ہوں…

’’ ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں ملدے‘


مستنصر حسین تارڑ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور