نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مینارۂ نور (سرسیداحمدخان) * یومِ ولادت سر سید کے موقع پر *

مینارۂ نور (سرسیداحمدخان) 

* یومِ ولادت سر سید کے موقع پر * 


اب اسے سید احمد خاں کی کرامات کہیئے یا لارڈ میکالے کی حکمتِ عملی کا غیر متوقع شاخسانہ، کہ سفینہ ڈوب گیا تو بپھرا سمندر ایکاایکی شانت ہو گیا ـ طوفان، سونامی اور زیرِآب زلزلے جب سمندر کو متھ کے رکھ دیتے ہیں تو کبھی کبھار وہ مائل بہ کرم بھی ہو جاتا ہے اور اپنی پاتالی تہ سے کوئی کورا، اچھوتا جزیرہ، کوئی کٹیلے کناروں والا، ترشا ترشایا ٹاپو بیچ بھنور میں اچھال دیتا ہے ـ علی گڑھ ایک ایسا ہی جزیرہ تھا جس پر سر سید احمد خان مینارۂ نور بن کر نمودار ہوئے ـ جو تلوار پلاسی اور سرنگا پٹم میں ٹوٹی تھی اس کی کرچیوں کو اس بزرگ سپیدریش نے اپنی پلکوں سے چن چن کر قلم میں ڈھالا اور اس قلم سے تلوار کا کام لیا ـ سر سید احمد خان نے ایک مایوس، مضحمل اور مُنفعل قوم کو جو جنگ ہی نہیں، ہمت بھی ہار چکی تھی ایک ولولۂ تازہ اور امید کا پیغام دیا ـ نوشتۂ دیوار اور خطِ مرموز اچھی طرح پڑھ، لکھ اور سیکھ لیا تھا ـ اپنے تاثرات، مشاہدات اور ان پر مبنی خیالات وافکار کا اظہار جس طور پر پورے خلوص اور بے خوفی سے کیا اور ہزار مخالفتوں اور فتوؤں کے باوجود اپنے نظریات کو عملی جامہ پہناکردکھایا اس کی نظیر اور مثال، ماضی و حال میں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی ـ اور یہ کارنامہ اس زمانے میں انجام دیا جب ہمارے بعض جیّد علماء اس قسم کی بحثوں اور مجادلوں میں الجھتے اور جوجھتے رہتے تھے کہ چھری کانٹے سے کھانے اور ٹائی لگانے سے مسلمان دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے!  

Sir Syed day on the eve of 

(مشتاق احمد یوسفی ـ شامِ شہرِ یاراں ـ صفحہ ـ 192-193)  

.............................................................................. 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو